اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی مذموم جسارت

وصیل خان

جس طرح عقیدہ ٔ توحید اسلام کی بنیاد ہے اسی طرح  فراست یعنی حکمت و تدبر کو بھی اسلامی اساس تسلیم کیا گیا ہے ۔احادیث میں آیا ہے کہ اتقوابفراست المومن کانہ ینظربنوراللہ، مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نو ر سے دیکھتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ مومن جب کچھ دیکھتا ہے تو اسکی نگاہیں ذاتی مفاد پر مرکوز نہیں ہوتیں بلکہ اسے عوامی مفاد کا خیال رہتا ہے، اس کی زندگی کا مقصدمحض اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کو فائدہ پہنچانا نہیں ہوتا وہ اپنے آس پاس کے تمام ضرور تمندوں خواہ وہ کسی بھی ذات و نسل اور مذہب و ملت سے تعلق رکھتے ہوں ان کی غمگساری اور ہمدردی کیلئے دوڑ پڑتا ہے ۔اس کا اٹھنا بیٹھا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، سفر و حضر سب کچھ اللہ کی خوشنودی کیلئے ہوتا ہے ۔وہ ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے اس کا میدان عمل محدو دنہیں لامحدود ہوتا ہے، اس کامرکز نظر صرف اور صرف اللہ کی ذات ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کا اختلاف و اتحاد سب کچھ اللہ کیلئے ہوتا ہے ۔ماضی کےایسے کتنے واقعات ہیں جو ہمارے لئے نشان عبرت ہیں جنہیں اگر ہم اپنا آئیڈیل تسلیم کرلیں اور اسے مشعل راہ بنالیں تو ہماری تاریک زندگی روشن و منور ہو جائے۔

حضرت علی ؓاور حضرت معاویہ ؓدونوں جلیل القدر اصحاب رسول ؐہیں ان میں شدید اختلاف ہوا، تنازعہ اتنا بڑھا کہ نوبت جنگ تک پہنچ گئی حضرت معاویہ ؓاس وقت شام میں تھے قیصر روم نے ان کے باہمی تنازعا ت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، اس نے معاویہ ؓکے پاس اپنےقاصد خاص کو بھیجا کہ تم علی ؓ سے مقابلے میں پیچھے نہ ہٹو، ہم دامے درمے اور قدمے تمہارے ساتھ ہیں، جس چیز کی بھی ضرورت ہوہم سے مانگو وہ تمہیں فراہم کردی جائے گی ۔حضرت معاویہ ؓکا جذبہ ٔ ایمانی بیدار تھا انہوں نے قیصر روم کی پیشکش ٹھکرادی اور سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے ذاتی تنازعات ہیں یہ حق و باطل کی لڑائی نہیں ان اختلافات کو ہم خود ہی نمٹا لیں گے لیکن تم اتنا یاد رکھو جس دن حق و باطل کا معرکہ درپیش ہوگا تو علی ؓ کی فوج کا جو پہلا سپاہی ہوگا وہ معاویہ  ابن  ا بی  سفیان ؓہوگا ۔یہ اور اس جیسے دیگر تاریخی  واقعات صرف واہ واہ کرنے اور محض تسکین قلب کا سامان نہیں، نہ ہی اس لئے کہ اس کے ذریعے ہم فخر و برتری کی نفسیات میں گم ہو جائیں بلکہ یہ نشان عبرت اور نمونہ ٔ عمل ہیں جو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم بھی اپنے تنازعات کو اسی نہج پر حل کریں اور تنگ نظری کا شکار نہ ہوکر وسیع الذہنی کا ثبوت دیں اور غیر وں کی ریشہ وانیوں کا آلہ ٔ کار نہ بنیں ۔

گذشتہ دنوں بابری مسجد کیس کے تعلق سے یوپی شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کئے جانے کی خبریں سارے اخبارات میں شائع ہوئیں جس میں انہوں نے کہا کہ بابری مسجد اور اس کی آراضی سنی وقف بورڈ کی نہیں بلکہ شیعہ وقف بورڈ کے دائرہ ٔ اختیار کی چیز ہے اس لئے اس مقدمے میں شیعہ وقف بورڈ کو فریق بنایا جائے ۔عجیب بات ہے کہ بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ آج کا نہیں دہائیوں پرانا ہے اوریہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اجودھیا کے رہنے والے محمد ہاشم انصاری اس مقدمے کے اولین فریق تھےاور بڑی خاموشی کے ساتھ بابری مسجد مقدمے کی پیروی کررہے تھے۔مقدمہ دائر کرنے کے وقت وہ جوان تھے اور تقریباً نوے سال زندہ رہے وہ سنی مسلمان تھے یہی نہیں اس مقدمے کے مختلف مراحل میں چاہے وہ الہ آبا د ہائی کورٹ ہو یا  سپریم کورٹ یا پھر بالکل ابتدائی دور میں فیض آباد کورٹ، یوپی سنی وقف بورڈ ہی اس کی نمائندگی کرتا آرہا ہے، اس کے علاوہ اس تنازعے کیلئے مسلمانوں کی جانب سے جتنی بھی دفاعی کوششیں ہوئیں اور جو تنظیمیں آگے آئیں چاہے وہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی ہو یا مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لابورڈسبھی کا تعلق سنی مسلک سے ہی رہا ہے ۔

خاص بات یہ بھی کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں تمام مسالک کے نمائندگان موجود ہیں لیکن آج تک وہاں بھی یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھا کہ بابری مسجد سنی ملکیت ہے یا شیعہ۔ ایسے میں شیعہ وقف بورڈ ( یوپی ) کے چیئرمین وسیم رضوی کا اتنے برسوں بعد یہ شوشہ اٹھاناکہ یہ شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت ہے اسے ایک گمراہ کن بیان سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہےجس کا مطلب اس کےسوا  اور کیا ہوسکتا ہے کہ مختلف الخیال نظریات کے حامل مسلمانوں میں جو اتحاد کی لہریں اٹھی ہیں اورجو  تھوڑی بہت بیداری آئی ہے اسے سبوتاژ کیا جائے، اس کے عوض وہ سرکاری مراعات اور سہولیات اٹھائی جاسکیں اور جی بھر کے سامان تعیش جٹایا جاسکے جس کے لئے وہ برسوں سے ترسے ہوئے ہیں اور ہر وقت ان کی زبانیں لپلپاتی رہتی ہیں، خواہ اس کے لئے امت کتنے ہی زخم کھائے اور نقصان اٹھائے۔

ابھی اس گمراہ کن بیان سے امت مسلمہ سکتے میں ہی تھی کہ لکھنو کے ہی ایک اور مشہور عالم دین مولانا کلب صادق کا بیان سامنے آگیا انہوں نے کہا کہ بابری مسجد ہندوؤں کے حوالے کردینا ہی بہتر ہے اور اگر عدالت سے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ بھی ہوجاتا ہے تب بھی  اسے ہندوؤں کو ہی دے دینا چاہئے، انہوں نے کہا کہ اس طرح سے اگر ایک مسجد چلی جائے گی لیکن کروڑوں دل تو ایک ہو جائیں گے،اور یہ مسئلہ ہندو۔مسلم کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے اس لئے انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے ۔جہاں تک وسیم رضوی کی بات ہے تواس تعلق سے سینٹرل وقف کونسل کے رکن اور امور اوقاف یوپی ۔ جھارکھنڈ کے انچارج ایڈوکیٹ سید اعجاز عباس کے یوپی شیعہ وقف بورڈ کے نام لکھےگئے خط سےہی ان کی قلعی کھل جاتی ہےانہوں نے کہا کہ وسیم رضوی جو دس سال سے یوپی شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین ہیں ان کے خلاف وقف املاک میں خوردبرد کے گیارہ مقدمات سی بی آئی کے زیر غور ہیں اورشیعہ وقف بور ڈ کی مالی حالت انتہائی خستہ ہے اور وہاں کے ملازمین کو مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں جن سے توجہ ہٹانے کیلئے انہوں نے یہ شوشہ چھوڑا ہے جس سے وہ شاید ہی بچ سکیں ۔دوسری طرف مولانا کلب صادق کے بیان سے بھی امت مسلمہ کے درمیان ایک خلجان پیدا ہوگیا ہے۔

مجموعی طور پر اس طرح کے سارے بیانات سنگھ پریوار کی چاپلوسی کے سوا کچھ نہیں یا پھر وہی سامان تعیش کی فراوانی جس کا ذکر مندرجہ بالاسطروں میں کیا جاچکا ہے۔ امت مسلمہ میں شدید اختلافات پہلے ہی سے موجود ہیں جسے مٹانے کیلئے جمعیۃ علمانے آٹھ سو شہروں میں ریلیاں نکالیں اور دیگرتنظیموں کی جانب سے امت کے اندر اتحاد و اتفاق کی جو کوششیں ہورہی ہیں انہیں سبوتاژ کرنے  کی  یہ مذموم جسارت ہے۔ ایسے لوگوں کے تعلق سے قوم کو خبرداررہنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد میں شگاف ڈالنے کی یہ ایسی مکروہ حرکت ہے جسے قوم کبھی معاف نہیں کرسکتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔