اجتماعی زندگی کو بنانے اور بگاڑنے والی سب سے بڑی طاقت

جو افراد سنجیدگی کے ساتھ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے، انھیں سب سے پہلے جو بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں اس کیلئے خواہش کی کوئی کمی نہیں ۔ اصل کمی آمادگی کی ہے اور اس سے بھی زیادہ کمی استعداد کی۔ بیشتر لوگ ان کم سے کم بنیادی اوصاف سے بھی خالی ہیں جن کا ہونا اس کام کیلئے ناگزیر ہے۔ دوسری بات جس پر نگاہ رکھنی چاہئے یہ ہے کہ ہماری قوم کے اندر جتنے با اثر عناصر پائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر بگاڑ کیلئے کام کر رہے ہیں اور جو بگاڑنے میں لگے ہوئے نہیں ہیں وہ سنوارنے کی فکر سے بھی فارغ ہیں ، اصلاح و تعمیر کیلئے کوشش کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تیسری بات جس سے غافل نہ رہنا چاہئے، یہ ہے کہ موجودہ دور میں اجتماعی زندگی کو بنانے اور بگاڑنے والی سب سے بڑی طاقت حکومت ہے اور جس جگہ جمہوری نظام رائج ہو وہاں حکومت کے صحیح یا غلط ہونے کا سارا انحصار اس امر پر ہے کہ عوام الناس صحیح آدمیوں کے ہاتھ میں اقتدار سونپتے ہیں یا غلط آدمیوں کے ہاتھ میں ۔ بگاڑکیلئے کام کرنے والے تمام لوگ کسی دوسرے کام پر اتنی طاقت صرف نہیں کرتے جتنی اس سلسلے میں عوام کو بہکانے پر صرف کرتے ہیں تاکہ وہ کبھی صحیح انتخاب کرنے کے قابل نہ ہوسکیں ۔

یہ تین حقیقتیں مل جل کر ایک ایسا بھیانک منظر پیش کرتی ہیں کہ ایک دفعہ تو اسے دیکھ کر آدمی کا دل بیٹھ جاتا ہے اور وہ مایوسی کے ہجوم میں سوچنے لگتا ہے۔ یہاں کچھ بنائے بن بھی سکے گا یا نہیں ؟ لیکن ان کے مقابلے میں چند حقیقتیں اور بھی ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنے سے یاس کے بادل چھٹنے لگتے ہیں اور امید کی شعاعیں چمکنی شروع ہوجاتی ہیں ۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ صرف فاسد عناصر ہی سے بھرا ہوا نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ صالح عناصر بھی موجود ہیں ۔ ان کے اندر اصلاح و تعمیر کی صرف خواہش ہی نہیں بلکہ آمادگی و استعداد بھی پائی جاتی ہے اور اگر اس میں کچھ کمی ہے تو وہ تھوڑی سی توجہ اور سعی سے پیدا کی جاسکتی ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم بحیثیت مجموعی شرپسند نہیں ہے، بے علمی اور نادانی کی وجہ سے وہ دھوکہ کھا سکتی ہے اور کھاتی رہی ہے لیکن وہ اس بگاڑ پر راضی نہیں ہے جو دھوکہ دینے والوں کے ہاتھوں رونما ہوتا ہے، اگر حکمت کے ساتھ منظم اور پیہم سعی کی جائے تو یہاں کی رائے عام کو اصلاح پسند طاقتوں کا مؤید بنانے میں بالآخر کامیابی ہوکر رہے گی۔ مایوسی صرف اس صورت میں ہوسکتی تھی کہ قوم کو سوادِ اعظم خود ان برائیوں کا طالب ہوتا جو معاشرے میں مفسد طاقتوں کے غلبے سے برپا ہورہی ہیں ۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ بگاڑ کیلئے کام کرنے والوں کو سب کچھ میسر ہے مگر دو چیزیں میسر نہیں ہیں ، ایک سیرت و کردار کی طاقت دوسرے اتحاد و اتفاق ۔

  آخری اور سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ اقامت دین کا کام اللہ تعالیٰ کا اپنا کام ہے اور اس کیلئے جو لوگ بھی کوشش کریں ان کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اخلاص اور صبر کے ساتھ کام کریں اور حکمت سے غافل نہ ہوں ۔ ایسے لوگوں کی تعداد خواہ کتنی ہی کم ہو اور ان کے وسائل چاہے کتنے ہی قلیل ہوں ، آخر کار اللہ کی تائید ہر کسر پوری کر دیتی ہے۔

 مایوس کن ظاہر کے پیچھے امید کا یہ سر و سامان ہے جو ڈھارس بندھاتا ہے کہ ملک میں ایک مثالی اسلامی معاشرے کا وجود محض ممکن ہی نہیں بلکہ اس کا فائز المرام ہونا بھی متوقع ہے۔ البتہ ضرورت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ جو افراد بھی اس کام کی حقیقی خواہش رکھنے والے موجود ہیں وہ آرزوؤں اور تمناؤں کی منزل سے نکل کر کچھ کرنے کیلئے آگے بڑھیں اور ان طریقوں سے کام کریں جو سنت اللہ کے مطابق کامیابی کیلئے مقرر ہیں ۔ سنت اللہ یہ نہیں ہے کہ آپ بس خرابیوں پر تنقیدیں کرتے رہیں اور وہ محض آپ کی باتوں سے دو رہوجائیں ۔ جنگل کا ایک کانٹا اور راستے کا ایک روڑا ابھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا جب تک آپ ہاتھ پاؤں نہ ہلائیں ۔ پھر بھلا معاشرے میں مدتوں کی رچی بسی خرابیاں محض زبان کے پھاگ اڑانے سے کیسے رفع ہوجائیں گی۔گیہوں کا ایک دانہ بھی کسان کی عرق ریزی کے بغیر پیدا نہیں ہوتا، پھر کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ معاشرے میں خیرات و حسنات کی کھیتی بس دعاؤں اور تمناؤں سے لہلہانے لگے گی۔ تنقیدیں کار گر ہوتی ہیں مگر اس وقت عالم اسباب میں ہم اپنے کرنے کا کام پورا کردیں اور پھر اس کے بار آور ہونے کیلئے اللہ سے دعائیں مانگیں ۔ فرشتے بلا شبہ اترتے ہیں مگر خود سے لڑنے کیلئے نہیں بلکہ ان اہل حق کی مدد کیلئے اترتے ہیں جو خدا کی راہ میں جانیں لڑا رہے ہوں ، پس جو لوگ بھی عمل کیلئے اللہ سے دعائیں مانگیں ، فرشتے بلا شبہ اترتے ہیں مگر خود سے لڑنے کیلئے نہیں بلکہ ان اہل حق کی مدد کیلئے اترتے ہیں جو خدا کی راہ میں جانیں لڑا رہے ہوں ، پس جو لوگ بھی عمل کیلئے کوئی آمادگی اپنے اندر رکھتے ہوں انھیں غلط توقعات اور بے جا امیدوں کو چھوڑ کر ٹھنڈے دل سے اس کام کے تقاضوں کو سمجھنا چاہئے اور پھر خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ انھیں یہ کام کرنا ہے یا صرف بگاڑ پر نوحہ خوانی کرنے اور بناؤ کی آرزوئیں دل میں پالنے پر قناعت کرنی ہے۔ عمل کا فیصلہ جسے بھی کرنا ہو جوش میں آکر نہیں بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔ وقتی جوش میں یہ طاقت تو ضرور ہے کہ آدمی اٹھے اور سینے پر گولی کھاکر جان دے دے لیکن اس میں یہ طاقت نہیں ہے کہ آدمی چار دن بھی کسی ایک برائی سے اجتناب یا ایک بھلائی کے التزام پر قائم رکھ سکے، کجا کہ اس کے بل بوتے پر کوئی شخص عمر بھر ایک مقصد کے پیچھے لگاتار محنت کرتا چلا جائے۔ تعمیری کام صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کا سوچا سمجھا فیصلہ یہ ہوکہ انھیں اپنی عمر عزیز اسی کام میں کھپانی ہے۔

 آمادگی عمل کے بعد لوگ عموماً لائحہ عمل کے سوال پر آجاتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ اچھا، ہم نے کام کا فیصلہ کرلیا۔ اب بتاؤ کہ وہ پروگرام کیا ہے جس پر ہم کام کریں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ فیصلہ عمل اور لائحہ عمل کے درمیان مدارِ کار خود عامل کی ذات ہے جس کو نظر انداز کرکے کام اور پروگرام کی باتیں شروع کر دینا صحیح نہیں ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہے کہ عمل کیلئے صرف ارادۂ عمل کافی ہے جس کے بعد بس ایک لائحہ عمل ہی کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اسی غلط فہمی کی بنا پر ہمارے ہاں بڑے بڑے کام شروع ہوئے اور آخر کار نتیجہ مطلوب تک پہنچنے میں ناکام ہوکر رہ گئے۔ اصل چیز پروگرام اور اسکیم نہیں بلکہ اس کے چلانے والے لوگ ہیں ، ان کے اوصاف۔ ایک ایک فرد کے ذاتی اوصاف بھی اور سب کے اجتماعی اوصاف بھی۔ وہ اصل طاقت ہیں جو اس امر کا فیصلہ کرتے ہیں کہ اس اسکیم یا پروگرام کو کامیاب ہونا ہے یا ناکام۔ ان کی ہر کمزوری نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے اور ہر خوبی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ وہ عمدہ اوصاف کے مالک ہوں تو ایک غلط اسکیم اور برے لائحہ عمل کو بھی ایک دفعہ تو اس طرح چلاکر دکھادیتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے، بخلاف اس کے اگر ان کی صلاحیت ناقص ہو تو بہتر سے بہتر کام بھی بگڑ جاتا ہے، حتیٰ کہ دنیا کو خود اس کام کی صحت میں بھی شک ہوجاتا ہے جسے عمل میں لانے کیلئے نا اہل لوگ میسر آئے ہوں ۔ لہٰذا ہمیں تعمیر و اصلاح کی عملی تجاویز پر غور کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کام کیلئے جو لوگ آگے بڑھیں انھیں کن صلاحیتوں سے آراستہ، کن اوصاف سے متصف اور کن عیوب سے پاک ہونا چاہئے، نیز یہ کہ اس طرح کے آدمیوں کی تیاری کے ذرائع کیا ہیں ؟

آئندہ صفحات میں ہم اس مضمون کو حسب ذیل ترتیب کے ساتھ بیان کریں گے:

(1  وہ اوصاف جو اس مقصد کیلئے کام کرنے والے ہر فرد میں بذاتِ خود ہونے چاہئیں ۔

(2 وہ اوصاف جو ان کے ادر من حیث الجماعت ہونے چاہئیں ۔

 (3 وہ اوصاف جو دعوت و تبلیغ اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کیلئے درکار ہیں ۔

 (4 وہ بڑی بڑی برائیاں جن سے ان کو فرداً اور من حیث الجماعت پاک ہونا چاہئے۔

 (5 وہ تدابیر جن سے مطلوبہ اوصاف کے نشو و نما اور نامحمود اوصاف سے افراد اور جماعت کے تزکیہ میں مدد لی جاسکتی ہے۔

  دنیا میں عملاً اسلامی نظام زندگی قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد دوسری اہم ترین چیز جس پر کامیابی کا انحصار ہے وہ اس کام کی سعی کرنے والوں کے اپنے اوصاف ہیں ۔چند اوصاف ایسے ہیں جو فرداً فرداً ان میں سے ہر ایک ذات میں ہونے چاہئیں ۔ چند اور اوصاف اصلاح و تعمیر کی خدمت انجام دینے کیلئے ضروری ہیں اور چند برائیاں ایسی ہیں جن سے اگر وہ اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھیں تو ان کے سارے کئے دھرے پر پانی پھر سکتا ہے۔ ان امور کو سب سے پہلے ذہن نشین ہونا چاہئے تاکہ وہ تمام لوگ جو اس خدمت کا سچا جذبہ رکھتے ہیں ، مطلوب اوصاف کے اپنے اندر پرورش کرنے اور نا مطلوب اوصاف سے اپنے آپ کوپاک کرنے کی طرف خاص طور سے متوجہ ہوں ۔ تعمیر معاشرہ کیلئے یہ تعمیر ذات شرطِ اول ہے کیونکہ جو خود نہ سنورے وہ دوسروں کو سنوارنے کیلئے کچھ نہیں کرسکتا۔

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔