اجتماعی فساد کب اور کیسے برپا ہوتا ہے؟

ترتیب: عبدالعزیز

جید عالم دین اور  مفسر قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح اور صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بستی یا کسی قوم و ملک میں اجتماعی فساد کب اور کیسے برپا کرتا ہے؟ آج جو حالات مسلم ملکوں میں پائے جاتے ہیں اور ہر جگہ مسلمان نشانے پر ہیں ، پیش نظر مضمون بہت کچھ ہم پر واضح کرتا ہے۔ اس سے بہت کچھ سیکھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی دوسروں کوبھی اجتماعی فساد یا عذاب الٰہی سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔

’’قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کر دے درآں حالیکہ وہ نیکو کار ہو:

 وَمِا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَّ اَہْلُھَا مُصْلِحُوْنَْ ’’اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے تباہ کر دے؛ حالانکہ اس کے باشندے نیک عمل کرنے والے ہوں ‘‘۔ (سورہ ہود:10)

 ہلاک و برباد کر دینے سے مراد صرف یہی نہیں کہ بستیوں کے طبقہ الٹ دیئے جائیں اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتا ردیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے، ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے، ان کو محکوم و مغلوب اور ذلیل و خوار کر دیا جائے۔ قاعدہ مذکورہ کی بنا پر بربادی اور ہلاکت کی جملہ اقسام میں سے کوئی قسم بھی کسی قوم پر نازل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خیر وصلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر و فساد اور سرکشی و نافرمانی کے طریقوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدہ کو ملحوظ رکھ کر جہاں کہیں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کا ذکر فرمایا ہے وہاں اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ وہ ان کی اپنی ہی شامت اعمال ہے جو ان کی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرتی ہے۔

 ’’ہر ایک کو ہم نے اس کے قصور ہی پر پکڑا، اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے‘‘۔  (القرآن)

 دوسری بات جو اس قاعدے سے نکلتی ہے یہ ہے کہ ہلاکت و بربادی کا سبب انفرادی شر و فساد نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور قومی شر و فساد ہے یعنی اعتقاد اور عمل کی خرابیاں اگر متفرق طور پر افراد میں پائی جاتی ہوں لیکن مجموعی طور پر قوم کا دینی و اخلاقی معیار اتنا بلند ہو کہ افراد کی برائیاں اس کے اثر سے دبی رہیں تو خواہ افراد علاحدہ علاحدہ ہی کتنے ہی خراب ہوں قوم بحیثیت مجموعی سنبھلی رہتی ہے اور کوئی فتنہ عام برپا نہیں ہوتا جو پوری قوم کی بربادی کا موجب ہو، مگر جب اعتقاد اور عمل کی خرابیاں افراد سے گزر کر پوری قوم پر پھیل جاتی ہیں اور قوم کا دینی احساس اور اخلاقی شعور اس درجہ ماؤف ہوجاتا ہے کہ اس میں خیر و صلاح کے بجائے شر و فساد کو پھلنے اور پھولنے کا موقع ملنے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ایسی قوم سے پھر جاتی ہے اور وہ عزت کے مقام سے ذلت کی طرف گرنے لگتی ہے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ کا غضب اس پر بھڑک اٹھتا ہے اور اس کو بالکل تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔

 قرآن حکیم میں اس کی بکثرت مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔

قوم نوحؑ کو اس وقت برباد کیا گیا جب اعتقادِ عمل کی خرابیاں ان کے اندر جڑ پکڑ گئیں اور زمین میں پھیلنے لگیں اور یہ امید ہی باقی نہ رہی کہ اس شجر خبیث سے کبھی کوئی اچھا پھل پیدا ہوگا۔ آخر کار مجبور ہوکر حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہِ رب العزت میں عرض کیا کہ :

 ’’میرے پروردگار! زمین پر ان کافروں میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔ اگر تونے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے۔ اور ان کی نسل سے جو پیدا ہوگا بدکار و سخت کافر ہی پیدا ہوگا‘‘۔ (سورہ نوح:2)

قوم عادؑ کو اس وقت تباہ کیا گیا جب شر اور فساد نے ان کے دلوں میں یہاں تک گھر کرلیا کہ شریر اور مفسد اور ظالم ان کی قوم کے لیڈر اور حاکم بن گئے اور اہل خیر و صلاح کیلئے نظام اجتماعی میں کوئی گنجائش باقی نہ رہی:

’’اور یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے حکم سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر جبار دشمن حق کا اتباع کیا‘‘۔ (سورہ ہود:5)

 قوم لوطؑ کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب ان کا اخلاقی شعور اتنا گندہ ہوگیا اور ان میں بے حیائی یہاں تک بڑھ گئی کہ علانیہ مجلسوں اور بازاروں میں فواحش کا ارتکاب کیا جانے لگا اور فواحش ہونے کا احساس ہی باقی نہ رہا۔

 ’’(لوط ؑ نے کہاکہ) تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو اور راستوں میں لوگوں کو چھیڑتے اور ستاتے ہو اور اپنی محفلوں میں بدکاریاں کرتے ہو‘‘۔ (سورہ عنکبوت: 3)

اہل مدین پر اس وقت عذاب نازل ہوا جب پوری قوم خائن اور بدمعاملہ اور بے ایمان ہوگئی۔ کم تولنا اور زیادہ لینا کوئی عیب نہ رہا اور قوم کا اخلاقی احساس یہاں تک فنا ہوگیا کہ جب ان کو اس عیب پر ملامت کی جاتی تو شرم سے سر جھکا لینے کے بجائے وہ الٹا اس ملامت کرنے والے کو ملامت کرتے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ان میں کوئی ایسا عیب بھی ہے جو ملامت کے قابل ہو۔ وہ بدکاریوں کو برا نہ سمجھتے بلکہ جو اِن حرکات کو برا کہتا اسی کو بر سر غلط اور لائق سرزنش خیال کرتے:

’’(شعیب ؑ نے کہا) اور اسے میری قوم کے لوگو! انصاف کے ساتھ ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، انھوں نے جواب دیا کہ اے شعیب ؑ! تو جو باتیں کہتا ہے ان میں سے تو اکثر ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور ہم تو تجھے اپنی قوم میں کمزور پاتے ہیں اور اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے‘‘۔ (سورہ ہود:8)

 بنی اسرائیل کو ذلت و مسکنت اور غضب و لعنت الٰہی میں مبتلا کرنا کا فیصلہ اس وقت صادر ہوا جب انھوں نے بدی اور ظلم اور حرام خوری کی طرف لپکنا شروع کیا، ان کی قوم کے پیشوا مصلحت پرستی کے مرض میں مبتلا ہوگئے، ان میں گناہوں کے ساتھ رواداری پیدا ہوگئی اور ان میں کوئی گروہ ایسا نہ رہا جو عیب کو کہنے والا اور اس سے روکنے والا ہوتا:

’’تو ان میں سے اکثر کو دیکھتا ہے کہ گناہ اور حدودِ الٰہی سے تجاوز اور حرام خوری کی طرف لپکتے ہیں یہ کیسی بری حرکتیں تھیں جو وہ کرتے تھے، کیوں نہ ان کے مشائخ اور علماء نے ان کو بری باتیں اور حرام کے مال کھانے سے منع کیا؟ یہ بہت برا تھا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ (سورہ المائدہ:9)

’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کرائی گئی اس لئے کہ انھوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے وہ ایک دوسرے کو برے افعال سے نہ روکتے تھے‘‘۔ (سورہ المائدۃ:11)

 اس آخری آیت کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث منقول ہیں وہ قرآن کریم کے مقصد کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں ۔ سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:

’’بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنی شروع ہوئی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی یا دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا اورکہتا کہ اے شخص خدا کا خوف کر، مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت کرنے سے نہ روکتا، جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑگیا، اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی داؤدؑ اور عیسیٰؑ بن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی‘‘۔

 راوی کہتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلسلۂ تقریر میں اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا:

  ’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو اور جس کو برا فعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہ راست کی طرف موڑ دو اور اس معمالہ میں ہر گز رواداری نہ برتو، ورنہ اللہ تمہارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی‘‘۔

 اعتقاد اور عمل کے فساد کا حال وبائی امراض کا سا ہے۔ ایک وبائی مرض ابتدا میں چند کمزور افراد پر حملہ کرتا ہے۔ اگر آب و ہوا اچھی ہو، حفظانِ صحت کی تدابیر درست ہوں ، نجاستوں اور کثافتوں کو دور کرنے کا کافی انتظام ہو اور مرض سے متاثر ہونے والے مریضوں کا بروقت علاج کر دیا جائے تو مرض وبائے عام کی صورت اختیار کرنے نہیں پاتا اور عام لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں لیکن اگر طبیب غافل ہو، حفظانِ صحت کا محکمہ بے پرواہ ہو، صفائی کے منتظم نجاستوں اور کثافتوں کے روادار ہوجائیں تو رفتہ رفتہ مرض کے جراثیم فضا میں پھیلنے لگتے ہیں اور آب و ہوا میں سرایت کرکے اس کو اتنا خراب کر دیتے ہیں کہ وہ صحت کے بجائے مرض کیلئے سازگار ہوجاتی ہے۔ آخر کار جب بستی کے عام افراد کو ہوا، پانی، غذا، لباس، مکان غرض کوئی چیز بھی گندگی اور سمیّت سے پاک نہیں ملتی تو ان کی قوتِ حیات جواب دینے لگتی ہے اور ساری کی ساری آبادی وبائے عام میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ پھر قوی سے قوی افراد کیلئے بھی اپنے آپ کو مرض سے بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ خود طبیب اور صفائی کے منتظم اور صحت عامہ کے محافظ تک بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہلاکت سے محفوظ نہیں رہتے جو اپنی حد تک حفظانِ صحت کی جملہ تدبیریں اختیار کرتے ہیں اور دوائیں استعمال کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہوا کی سمیت ، پانی کی گندگی، وسائلِ غذا کی خرابی اور زمین کی کثافت کا ان کے پاس کیا علاج ہوسکتا ہے۔

 اسی پر اخلاق و اعمال کے فساد اور اعتقاد کی گمراہیوں کوبھی قیاس کرلیجئے۔ علماء قوم کے طبیب ہیں ۔ حکام اور اہل دولت صفائی اور حفظانِ صحت کے ذمہ دار ہیں ۔قوم کی غیرتِ ایمانی اور جماعت کا حاسۂ اخلاق بمنزلہ قوتِ حیات (Vitality) ہے۔ اجتماعی ماحول کی حیثیت وہی ہے جو ہوا، پانی، غذا اور لباس و مکان کی ہے اور حیاتِ قومی میں دین و اخلاق کے اعتبار سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وہی مقام ہے جو صحت جسمانی کے اعتبار سے صفائی و حفظانِ صھت کی تدابیر کا ہے۔ جب علماء اور اولی الامر اپنے اصل فرض یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیتے ہیں اور شر و فساد کے ساتھ رواداری برتنے لگتے ہیں تو گمراہی اور بداخلاقی قوم کے افراد میں پھیلنی شروع ہوجاتی ہے اور قوم کی غیرتِ ایمانی ضعیف ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ سارا اجتماعی ماحول فاسد ہوجاتا ہے۔ قومی زندگی کی فضا خیر و صلاح کیلئے نا مساعد اور شرو فساد کیلئے سازگار ہوجاتی ہے، لوگ نیکی سے بھاگتے ہیں اور بدی سے نفرت کرنے کے بجائے اس کی طرف کھینچنے لگتے ہیں ، اخلاقی قدریں الٹ جاتی ہیں ، عیب ہنر بن جاتے ہیں اور ہنر عیب، اس وقت گمراہیاں اور بداخلاقیاں خوب پھلتی پھولتی ہیں اور بھلائی کا کوئی بیج برگ و بار لانے کے قابل نہیں رہتا۔ زمین، ہوا اورپانی سب اس کو پرورش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی ساری قوتیں اشجارِ خبیثہ کو نشو و نما دینے کی طرف مائل ہوجاتی ہیں ۔ جب کسی قوم کا یہ حال ہوجاتا ہے تو پھر وہ عذابِ الٰہی کی مستحق ہوجاتی ہے اور اس پر ایسی عام تباہی نازل ہوتی ہے جس سے کوئی نہیں بچتا خواہ وہ خانقاہوں میں بیٹھا ہوا رات دن عبادت کر رہا ہو۔(جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔