ڈیجیٹل انڈیا میں ڈیجیٹل سموسہ

 عزیز آعظمی

سعودی عرب سے سالوں بعد چھٹی گیا دیکھا تو گاؤں یکسر بدل  گیا تھا لوگ  چارپائی چھوڑ کرسی پر بیٹھنے لگےتھےبچے ماڈرن ہو گئے تھے جینس اور ٹراوزر پہننے لگے تھے نٹ تو ایسا فر فر چلاتے  تھے مانو موبائیل ہمارے گاؤں نے ہی ایجاد کیا ہو۔ سب تو سب جھوری چاچا، فرتو دادا بھی لنگی میں کیمرے والا موبائیل کھونسے ہوئے تھے۔  جون کا مہینہ شدید گرمی بجلی ندارد ابا کو کہتےہوئےسنا کہ چار کھمبے کا تار ہی کٹ گیا ہے لائیٹ کب آئے گی کل مودی جی کے "من کی بات ” میں ریڈیو پر پتہ چلے گا۔

سعودی عرب نے جسم کو 24 گھنٹہ اے سی کا عادی بنا دیا تھا گاؤں کا بغیر اے سی والا کمرہ جیسے آگ اگل رہا تھا ماں کی بے لوث محبت  جلدی سے بڑا باکس کھول کر بیگم کے میکے سےآیا ہاتھ کا بنا نیا پنکھا بھی نکال لائیں لیکن اس گرم ہوا کے آگے وہ بھی ناکافی تھا بالآخر باہر نکلا تو دیکھا سامنے باغ میں  آم کے درخت کے نیچے بچے ہنی سنگھ کا گانا لگا کر پروا ہوا کا لطف لے رہے تھے۔

 بچوں کی محفل میں میرا وہاں بیٹھنا رنگ میں بھنگ ڈالنے کے مترادف تھا  واپس  آکے پھر گھر کے دروازے پہ لگے نیم کے نیچے بیٹھ گیا لیکن سامنے  تالاب کے سڑے ہوئے گندے بدبودار پانی سے اٹھنے والی ہوا نے فضا کو ایسا مکدر بنا دیا تھا کہ بیٹھنا مشکل تھا۔۔ لیکن یہ ساری پریشانیاں سعودی عرب میں آشائش سے بھری زندگی سے کہیں زیادہ خوبصورت اور پرسکون لگ رہی تھی۔ عصر کے بعد سورج کی تپش کم ہوئی لوگ بازار جانے لگے میں بھی دوستوں کے ساتھ بازار گیا جب سے رفیق چاچا نے نہر پر دوکان بنوایا ہے گاؤں کے بیشتر لوگ وہیں رکتے ہیں  ڈاکٹر راشد صاحب کا دواخانہ بھی وہیں ہے دواخانے پہ گیا تو ڈاکٹر صاحب ہاتھ میں اخبار لئے سو رہے تھے دوا لینی نہیں تھی اس لئے نیند میں خلل ڈالنا مناسب نہیں سمجھا , سموسہ کھانے کا دل تھا  سالوں سے سعودی عرب کا کبشہ "کھپسا”  کھا کر زبان زنگ آلود ہو گئی تھی وہاں انڈیا کی طرح کباب،  سموسے، پکوڑے  مشکل سے ہی ملتے ہیں اگر ملتے بھی ہیں تو سموسے میں اوم کار بھیا والا ذائقہ نہیں ہوتا سیدھے  اومکار بھیا کی دوکان پر پہونچا تو سموسہ ختم تھا لیکن کچھ لوگ لائن میں کھڑے تھے دیکھا تو دوسری کڑھائی میں گرم گرم نکلنے والا تھا میں بھی لائن میں کھڑا ہو گیا ۔

میرے سامنے ایک اور لڑکا  اسپورٹ شوز، ٹائٹ فیٹنگ جینس ٹی شرٹ اور نیلے شیشے والا چشمہ لگائے  کھڑا تھا ساتھ میں اسکی نئی نویلی بیوی بھی  تھی ہیروہونڈا کے دونوں شیشوں پر گلابی کا رنگ کا جھالر دار بندھا ہوا رومال بتا رہا تھا کہ اسی لگن میں شادی ہوئی ہے  تب تک سموسہ بھی آگیا اس نے آواز لگائی بھیا مجھے بھی 10 ڈیجیٹل سموسے دے دو میں حیرانی سے اسکی طرف دیکھا قبل اسکےکہ اس سے کچھ پوچھتا دل میں خیال آیا کہ مودی جی ڈیجیٹل انڈیا بنا رہے ہیں شاید ڈیجیٹل سموسہ بھی مارکیٹ میں آگیا ہو جب میرا نمبر آیا تو میں نے اومکار بھیا سے پوچھا یہ ڈیجیٹل سموسہ کیا ہے. وہ دبی آواز میں بولے بابو ملک کے حالات اور گئو رکشکوں کے خوف سے احتیاطا  ایک  بورڈ لگا رکھا ہے دیکھا تو انگلش میں لکھا تھا ” یہاں پرصرف ویجیٹیبل سموسہ ملتا ہے”وہ ویجیٹیبل کو ڈیجیٹل پڑھ رہا تھا۔

پیچھے کھڑے شخص سے میں نے  پوچھا کہ چچا یہ تو شکل سے بے اے پاس لگتا ہے لیکن ویجیٹیبل کو ڈیجیٹل کیوں پڑھ رہا تھا لگتا ہے وہ بھی یوگی اور مودی جی کے وعدوں اور نعروں کی آگ میں تپے ہوئے تھے کہا بیٹا آپ نہیں جانتے یہ مودی بھگت ہے یہ تو بی اے پاس ہے اگر ڈاکٹر اور انجینئر ہوتا تب بھی ڈیجیٹل ہی پڑھتا مودی جی جب سے ڈیجیٹل انڈیا کا نعرہ لگائے ہیں. بھگتو کو ہر چیز ڈیجیٹل ہی نظر آتی ہے اور آپ اسکو سمجھا بھی نہیں سکتے. اگر آپ کہتے کہ بابو سموسہ ڈیجیٹل نہیں ہو سکتا تو وہ آپ پر اینٹی نیشنلسٹ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتا کہ جب گوبر کوہ نور ہیرا ہو سکتا ہے تو سموسہ ڈیجیٹل کیوں نہیں ہو سکتا چچا  کی بات میں بڑی گہرائی اور سچائی تھی کہ بھگتی کے آگے تعلیم بھی دم توڑ جاتی ہے  پڑھا لکھا انسان جاہل ہو جاتا ہے اور جاہل بھگوان ہو جاتا ہے چچا سے یہ کہتے ہوئے کہ دیس بدل رہا ہے سموسہ اٹھایا اور واپس آگیا  لیکن راستے بھر چچا کی بات کو سوچتا رہا کہ اگر دیس بھگتی کے بجائے حقیقت سمجھتا تو  آج وہ نوجوان ویجیٹیبل کو ڈیجیٹل  نہیں پڑھتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔