احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

 اس وقت ہمارا ملک جن حالات سے گزررہا ہے وہ ہمارے سامنے ہیں ،امن ومحبت کے گہوارے کو نفرت کی آگ میں جھونکاجارہا ہے اور اخوت وبھائی چارگی کو عداوت ودشمنی میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اسلام کے خلاف ایک محاذ بناکر مسلسل سازشیں ہورہی ہیں ۔اور بالخصوص مسلمانوں کے عائلی مسائل کو نشانہ بناکر اس کے خلاف ذہن ودل کو اکسایا اور ابھارا جارہا ہے۔ملک کے سیکولرنظام کو ختم کرکے مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔اس وقت سب سے زیادہ اہم چیز مسلمانوں کا اپنی شریعت اور دین کے تحفظ کی فکر کرنا ہے ۔’’مسلم پرسنل لا‘‘ پر آئے دن حملے کئے جارہے ہیں ،طلاق کو بہانہ بناکر شرعی اور عائلی اسلامی قوانین پر قدغن لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

مسلمان لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے ،بلکہ پیسوں کے عوض ایسی خواتین کو بھی استعمال کیا جارہا ہے جو میڈیا میں اسلام کے خلاف اظہارِخیال کرے اور اسلام کے عائلی نظام اور ’’مسلم پرسنل لا‘‘ پر عدم ِ اعتماد کو ظاہر کرے،اور اس کو ناانصافی پر مبنی قرار دے۔گزشتہ دنوں یہ خبریں بھی آئی کہ مسلم لڑکیوں کو ایمان سے دورکرنے اور مذہب تبدیل کروانے کے لئے بھی ایک منظم انداز میں محنت کی جارہی ہیں اور ایسے نوجوانوں کو تیار کیا گیا ہے جن کا مقصد مسلم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسانا اور ان کو دین اسلام سے برگشتہ کرنا ہے۔ایک عجیب اور تشویشنا ک صورتِ حال سے اس وقت ہمارا ملک گزررہا ہے۔جس ملک کی سلامتی اور یہاں کی امن وآشتی کی بقا کے لئے مسلمانوں نے اپنی جانوں کو قربا ن کیا اور پوری آزادی و اختیار کے ساتھ دیگر برادران ِ وطن کے ہمراہ اپنے مذہب ،شریعت ،تعلیمات اور احکام پر عمل کرنے کے لئے جدوجہد کرنے والے مسلمانوں کے سامنے موجودہ حالات ایک چیلنج بن کر دعوتِ فکر وعمل دے رہے ہیں ۔طلاق کے نام پرواویلا مچانے اور عورتوں کو آزادی وانصاف دلانے کی بات کرنے والے خود عورتوں پر ظلم کرنے والے اور ان کے حقوق تلف کرنے والے ہیں ۔

 ان حالات میں سخت ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے اسلام کے نظام معاشرت اور عائلی زندگی کی حقیقت کو اچھے انداز میں اجاگر کرے ،مسلم پرسنل لا کی اہمیت اور اس کی افادیت کو بیان کرے ،حال ہی میں حیدرآباد میں جمعیۃ علماء آندھرا پردیش کے زیر اہتمام ’’محکمہ شرعیہ ‘‘ کا دوروزہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا جس میں ملک کے ممتاز علماء ومفتیان اور مفکرین نے موجودہ حالات میں نظام ِ قضا وغیرہ پر بصیرت افروز روشنی ڈالی ،اورپرُزور اس کی اپیل کی کہ مسلمان اپنے عائلی مسلمان کو قرآن وسنت کی روشنی میں حل کرنے کی فکرکریں ،ملک کا دستور خود اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مذہب پر عمل کی پوری آزادی یہاں کے ہر شہر ی کوحاصل رہے گی۔

اس اجلاس کی پہلی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مفتی سید سلمان منصورپوری صاحب نے اسلام کے نظام ِ طلاق کی تشریح کرتے ہوئے اس کی حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ :’’آج جو جھوٹا پروپیگنڈہ طلاق وغیر ہ کے نام پر کیا جارہا ہے ،ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اچھے انداز میں اس کی حقیقت کو واضح کریں ،اسلام کے درست نظریہ کو پیش کریں ،غلط بیانیوں کا جواب مؤثر علمی اسلو ب میں دیں ، اگر آج کے اس دور میں ہم نے مسلم پرسنل لا کی حفاظت کی کوشش اور جدوجہد نہیں کی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کرے گی۔‘‘مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے ایک انٹرویو میں اسلام کے عائلی نظام کی اہمیت پر اظہار کرتے ہوئے فرمایاتھا:میرے نزدیک اولین اور اہم ترین کام خود مسلمانوں میں شرعی عائلی قوانین پر عمل کرنے کی دعوت وتبلیغ ہے ۔جس کے اہم امور اور مرکزی اجزاء حقوق الزوجین ،اسلامی تعلیمات اور اسوہ ٔ نبوی کے مطابق ازواجی زندگی گزارنا ،شفقت ومحبت اور قرآنی الفاظ میں ( وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ) کے اصول پر ایسی ازدواجی وعائلی زندگی گزارنا جس میں مودت ومحبت اور رحمت کاعنصر غالب ہو،صلہ رحمی ،ترکہ کی شرعی تقسیم ،طلاق کے حق نہ صرف شرعی بلکہ مسنون طریقہ پر استعمال ہواور(واتقوااللہ الذی تساء لون بہ والارحام ) ’’کہ اور اس اللہ سے تقوی اختیار کرو،جس کے واسطے سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو ،اور قرابتوں کے باب میں بھی تقوی اختیار کرو۔‘‘کی ہدایت ِ قرآنی پر عمل ،جو تمام انسانی ،اسلامی واخلاقی پہلوؤں اور گوشوں پر حاوی ہے ،اس کے لئے ایک طوفانی مہم چلانے کی ضرورت ہے ،جس کے اثر سے شہر تو شہر،کوئی قصبہ اور گاؤں اور مسلمانوں کا کوئی محلہ اور خاندان بھی بے خبر اور بے اثر نہ رہے،اس کے لئے مساجد کے منبر ومحراب کی طرح مجالس وعظ،اسلامی اجتماعات وتقریبات ،اخبارات ورسائل اور ابلاغ عامہ کے سارے ذرائع پوری سرگرمی سے استعمال ہونے چاہئیں ۔‘‘

 موجودہ حالات میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دل وجان سے اپنی شریعت پر اور اپنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو،ہمارے اندر پائی جانے والی کمیوں کو دورکریں ،خلافِ شریعت امور سے بچیں اور ہر شعبہ ٔ حیات میں اسلامی تعلیمات کو داخل کریں ۔اہل ِ علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت میں مسلم پرسنل لاسے متعلق شعور کو بیدارکریں اور اس کی حقیقت و اہمیت کو اجاگر کریں ،اس وقت ہمارے ملک کی ایک بڑی تنظیم ’’جماعت ِاسلامی ‘‘ کی جانب سے بھی اس جانب بہترین کوشش ’’مسلم پرسنل لابیداری مہم ‘‘ کے نام سے شروع کی گئی ہے ،جسے پورے ملک کے علماء اور جماعتوں کی تائید بھی حاصل ہے ۔

اللہ اس کوشش کو بارآور کرے اور نتیجہ خیزبنائے ۔یہ فکر کسی ایک ہی جماعت یا چند افراد ہی کاکام نہیں ہے بلکہ اس طرح کی کوشش کرنا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے ،وہ اپنے دین کو اس کی تعلیمات کو سمجھے اورحقائق کو جانے،میڈیا کے ذریعہ پھیلائے جانے والے دجل وفریب سے آگاہ ہو اور اپنے گھرانوں کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کی فکر کریں ۔دینی تعلیم کی اہمیت ،عقائد کی حفاظت ،تعلیماتِ شریعت کی عظمت کو عام کرنے کی جدوجہد کریں ۔سنجید گی اور علمی پختگی کے ساتھ اسلام کے خلاف چلائے جانے والوں فکروں کا جواب دیں ۔غیروں کے سامنے بھی اسلام کے نظام ِ زندگی ،اس کی خوبصورتی ،حساسیت و نزاکت اور انصاف پر مبنی تعلیمات کو پیش کریں ۔اگر آج ہمیں اپنی شریعت اور دین کا احساس پیدا ہوگیا اور اس کی حفاظت کے لئے ہم کمر بستہ ہوگئے تو ان شاء اللہ ان کی ساری کوششیں ناکام رہ جائیں گی ورنہ اگر ہم نے غفلت و لاپرواہی کی اور اس کو معمولی سمجھ کر صرف ِ نظر کیا تو آنے والی نسلوں کے لئے ہم مجرم رہیں گے۔

 اس دین کو اللہ تعالی نے پوری دنیا میں غلبہ پانے کے لئے بھیجا ہے ، اللہ تعالی نے اعلان فرمادیا ہے :ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھر ہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ۔( الصف :9)’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی کا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کردے ،چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی بری لگے۔‘‘اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کا یہ عظیم دین ہمار محتا ج نہیں ہے ،وہ جس سے چاہے اپنے دین کی سربلندی کا کام لے اس پر وہ قادر ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے صاف صاف فرمایا:وان تتولو یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم ۔( محمد:38)’’اور اگر تم منہ موڑوگے وہ تمہاری جگہ دوسری قوم پیداکردے گا ،پھر وہ تم جیسے نہیں ہوگے۔‘‘

 اس لئے یہ ہماری سعاد ت اور خوش نصیبی ہے کہ ہم دین کے لئے قبول ہوجائیں ،ہمارا مال ،ہماری جان ،ہماری صلاحیتیں ،ہمارے اوقات ،ہماری اولاداگر دین کے کسی بھی کام کے لئے استعمال ہوجائے تو بلاشبہ یہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اوریہ ہماری کامیابی ہے ۔؎

احساس عنایت کر آثارِ  مصیبت  کا

امروز کی شورش میں اندیشہ ٔ فرداں دے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔