اخلاص کیسے حاصل ہو؟

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

        صحیح پوچھئے تو ایک مومنانہ زندگی کا درست نقطۂ آغاز یا ’’اسٹارٹنگ پائنٹ‘‘ اخلاص ہی ہے کہ اسی کے اوپر دیگر تمام دینی اعمال کی قبولیت وعدمِ قبولیت کا انحصار ہوتا ہے۔ بلکہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جملہ عبادات وطاعات کو اسی لیے مشروع کیا گیا ہے تاکہ ان کے ذریعہ سے انسانوں کے اندر اخلاص وللٰہیت کی خوبو پیدا ہوجائے۔ ارشادِ ربانی ہے: {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاء وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ} (بینہ، 5) ’’اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے، بالکل یکسو ہوکر، اورنماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح ودرست دین ہے۔‘‘

        اس لحاظ سے دیکھیں تو ساری کائنات کی تخلیق کا مقصد بھی یہی اخلاص بن جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات انسانوں کے لیے تخلیق فرمائی ہے اور انسانوں کی تخلیق عباداتِ الٰہی کی انجام دہی کے لیے ہوئی اور عبادات کو اخلاص کے لیے مشروع فرمایا۔ معلوم ہوا کہ ساری تخلیقات کا مقصد یہی تھا کہ انسان اپنے رب کا مخلص بندہ بن جائے۔ ارشادِ ربانی ہے: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ٭مَا أُرِیْدُ مِنْہُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِیْدُ أَن یُطْعِمُون٭إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ} (ذاریات، 56-58) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام ک لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔‘‘

         معلوم ہوا کہ تخلیقِ انسانی کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ اس دنیا میں تنہا خدائے واحد کا بندہ بن کر زندگی گزارے اور الوہیت، ربوبیت اور حاکمیت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔

        کسی بھی عمل کرنے والے مرد یا عورت کے لیے اخلاص کی اہمیت وضرورت اس لیے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ اس کے عمل کی بارگاہِ رب میں مقبولیت کی ضمانت بغیر اخلاص کے ناممکن ہے۔ اخلاص ہی پر اعمال کی قبولیت کا دارومدار ہوتاہے۔ ارشادِ باری ہے: { قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْن} (مائدہ، 27) ’’اس نے کہا: اللہ تو متقیوں ہی سے قبول فرماتا ہے۔‘‘

        اخلاص کو اپنے اندر پیدا کرنے کا سب سے پہلا قدم تو یہ ہے کہ ہم پر اخلاص کی فکر طاری ہوجائے اور ہماری دعائوں اور التجائوں میں کثرت سے بارگاہِ رب میں یہ سوال کیا جائے کہ اے اللہ!میرے ہر قول اور ہر عمل میں اخلاص اور اپنی رضاجوئی کی خوبو پیدا فرمادے۔ خلیفۂ راشد ثانی امیر المومنین حضرت عمر ؓبن خطاب کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کثرت سے فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ!میرے سارے عمل کو نیک بنادے اور اسے اپنے لیے خالص کردے اور کسی اور کے لیے اس میں سے کچھ بھی نہ رکھ۔ [اللھم اجعل عملی کلہ صالحا ولوجھک خالصا ولاتجعل لأحد فیھا شیئا] (مصنف ابن ابی شیبہؒ: 21329۔ مصنف عبدالرزاقؒ: 26991)

        اخلاص کے حصول کے لیے اٹھایا ہوا دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اور جس حالت میں بھی ہوں ہمیں پوری طرح یاد رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اور وہ ہر آن ہماری نگہبانی اور نگرانی کررہا ہے۔ جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ فرمانِ باری ہے: { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ} (ق، 16) ’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘ خود اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ جس طرح کسی شتر سوار کی سواری کی گردن اس کے قریب ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ قریب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے ہوتا ہے۔ [إنہ أقرب إلیٰ أحدنا من عنق راحلتہ] (مسند احمدؒ: 19599) کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر معیتِ الٰہی کا احساس دل میں جڑ پکڑ جائے تو اس کے گہرے اثرات ہمارے اعمال وافعال میں منعکس ہونے لگیں گے۔ جب کام کرنے والے کومعلوم ہوجائے کہ جس کے لیے کام کیا جارہا ہے وہ وہیں موجود ہے اور اس کی حرکات وکارگزاریوں کو بغور دیکھ رہا ہے تو اس وقت کام کرنے کی کیفیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: {وَمَا تَکُونُ فِیْ شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْْکُمْ شُہُوداً إِذْ تُفِیْضُونَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْن} (یونس، 61) ’’تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہوا س سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔‘‘

        اخلاص کی خاطر اٹھایا ہوا تیسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر آن اس بات کا استحضار رکھیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی خوشنودی ورضامندی کے لیے انجام دیا گیا کوئی بھی عمل خواہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، رائیگاں اور اکارت جاتا ہے۔ ہر انسان اپنے حال پر غور کرکے دیکھے کہ اس نے اپنی زندگی میں غیر اللہ کے لیے جتنی محنتیں، کاوشیں اورسخت اعمال انجام دیے ہیں، کیا ان میں سے کوئی بھی اس کے پاس موجود ہے یا وہ کسی کے بھی اجر وثواب کی امید اللہ سے رکھ سکتا ہے؟ دنیاوی زندگی اور دنیاوی عیش وآرام کے لیے کی جانے والی ساری کوششیں اور ان کے ثمرات وفوائد وقتی اور عارضی ہوتے ہیں اور وقت گزرتے ہی نسیاً منسیاً ہوجاتے ہیں۔

         اگر انسان کسی بھی عمل کو انجام دیتے وقت بس اتنا سوچ لے کہ آج وہ جو کچھ آرام دہ اور لذت آمیز گناہ انجام دے گا، ان کا لطف اور لذت بس آج ہی ختم ہوجائے گا، لیکن ان کی سزا اور عذاب ہمیشہ کے لیے مجھ پر چڑھ جائے گا، اس کے برعکس آج اللہ تعالیٰ کی عبادت وطاعت میں جس قدر بھی میں پریشان ہوتا ہوں اور تھکتا ہوں، یقینایہ پریشانی اور تھکن بھی بس شام ہوتے ہوتے ختم ہوجائے گی لیکن اس کا اجروثواب ہمیشہ ہمیش کے لیے میرے کھاتے میں لکھ دیا جائے گا۔ اگر کسی عمل کو انجام دینے سے پہلے بس اس ایک خیال کو ذہن میں گھما لیا جائے تو انسان کو معلوم ہوجائے گاکہ وہ کیا کرنے جارہا ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے۔

        اخلاص کی راہ کا چوتھا قدم یہ جان لینا ہے کہ غیر اللہ کے لیے ہم جو کچھ بھی اعمال انجام دیتے ہیں، وہ ان کا صلہ دینے کی قدرت نہیں رکھتے اور اگر ہم غیر اللہ کے لیے کچھ بھی نہ کریں، تو وہ ہمیں نقصان یا مضرت نہیں پہنچا سکتے۔ دراصل حقیقی نفع یا نقصان پہنچانے والی ذات صرف باری تعالیٰ کی ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کسی ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ اُس کی اجازت کے بغیر کسی کو ذرہ برابر نفع یا نقصان پہنچا سکے۔ ارشادِ باری ہے: {قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَنفَعُنَا وَلاَ یَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَی أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا اللّہُ کَالَّذِیْ اسْتَہْوَتْہُ الشَّیَاطِیْنُ فِیْ الأَرْضِ حَیْْرَانَ لَہُ أَصْحَابٌ یَدْعُونَہُ إِلَی الْہُدَی ائْتِنَا قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَیَ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن} (انعام، 71) ’’ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جونہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان؟ اور جبکہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پائوں پھر جائیں؟ کیا ہم اپنا حال اس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحراء میں بھٹکادیا ہو اور وہ حیران وسرگردان پھر رہا ہو دراں حالے کہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ادھر آ یہ سیدھی راہ موجود ہے؟ کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کردیں۔‘‘

        اخلاص کی راہ میں اٹھایا جانے والاپانچواں قدم یہ ہے کہ ہم ہرآن استحضار ویقین رکھیں کہ کسی کے احسان کو جس طرح اللہ تعالیٰ یاد رکھتے ہیں اور کوئی یاد نہیں رکھتا۔ یہ دنیا مطلب کی دنیا ہے، اس میں موقعہ ملتے ہی لوگ اپنے محسنین وکرم فرمائوں کی گردن اتار لیتے ہیں، یہاں ناشکری وکفرانِ نعمت عام ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی اچھا عمل بھولتے نہیں ہیں اور پوری طرح اسے پسند فرماتے ہوئے اجروثواب سے نوازتے ہیں۔ تمام مومنوں کی ماں حضرت عائشہؓ کے بارے میں منافقین نے زنا کی جھوٹی تہمت کا پرچار کرنا شروع کردیا تھا۔ بعد میں قرآن میں سورۂ نور نے ان کے جھوٹے پرچار کی قلعی کھول دی، لیکن یہ پروپیگنڈا اس شدت کے ساتھ کیا گیا تھا کہ قرآن نازل ہونے سے پہلے بہت سے اچھے اہلِ ایمان بھی اس کے دامِ فریب میں آگئے۔ انہیں حضرات میں ایک صحابی حضرت مسطحؓ بن اثاثہ تھے، جو سچے مومن تھے، اور مکہ میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محض خوشنودیِ رب کی خاطر مدینہ منورہ ہجرت کرکے آرہے تھے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے رشتہ دار بھی تھے اور حضرت صدیقؓ انہیں ماہ بماہ مالی اعانت بھی دیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کی بابت جب منافقین نے جھوٹی تہمت کی تشہیر کی تو یہ بھی بتقضائے ضعفِ بشری، اُن کی باتوں میں آگئے۔

        نزولِ قرآن کے بعد جب حضرت عائشہؓ کی برائت وعفت ثابت ہوگئی تو حضرت ابوبکرؓ صدیق نے ان سے قطعِ تعلق کا عزم کر لیا۔ لیکن اس وقت قرآن میں یہ آیات نازل ہوئیں : {وَلَا یَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَۃِ أَن یُؤْتُوا أُوْلِیْ الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ} (نور، 22) ’’تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انہیں معاف کردینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔‘‘

        معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے سابقہ نیک اعمال کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ وقتِ ضرورت ان کے نیک عمل کی بدولت ان کی طرف سے مدافعت بھی فرمائی۔ یہ ہے اللہ رب العزت کی شان کہ وہ اپنے ایک ایک بندے کے ہرہر نیک عمل کو نہ صرف یاد رکھتے ہیں بلکہ وقتِ ضرورت ان کی وجہ سے تائید ونصرت بھی کرتے ہیں۔

        احادیث (صحیح بخاریؒ: 2272۔ صحیح مسلمؒ: 7127) میں بھی اسی قبیل کا ایک واقعہ آیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ تین اللہ کے بندوں نے سفر کے دوران رات کسی غار میں گزارنے کی ٹھانی تھی۔ خدا کا کرنا ایسا ہو اکہ پہاڑ کی چوٹی سے کوئی چٹان لڑھک کر اس غار کے دہانے پر آگری اور غار کا منھ بند ہوگیا۔ انہوں نے صلاح مشورہ سے طے کیا کہ ہم اپنی جسمانی طاقت کے بل بوتے پر تو اس چٹان کو یہاں سے نہیں ہٹا سکتے، کیوں نہ ہم اپنے نیک اعمال کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس چٹان کو یہاں سے ہٹا دے۔ اس کے بعد ان میں اسے ایک نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا اپنا مخلصانہ عمل ذکر کرکے دعا کی، دوسرے نے اپنی عفت وپاکدامنی کے حوالے سے اپنا نیک عمل ذکر کیااور تیسرے نے امانت داری اور بندگانِ خدا کے حقوق کی ادائیگی کے تعلق سے اپنے ایک مخلصانہ نیک عمل کا تذکرہ کیا۔ پھرخدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن کی اجتماعی دعائوں کی برکت سے وہ چٹان وہاں سے کھسک گئی۔ اس حدیث کو دلیل بناتے ہوئئے علمائے کرام کہتے ہیں کہ دعا میں وسیلہ لگانے کی تین جائز صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ بندہ اپنے کسی سابقہ نیک عمل کا حوالہ دے کراللہ تعالیٰ سے دعا مانگے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس نے یہ عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہی انجام دیا تھا۔

        اخلاص حاصل کرنے کی راہ کا چھٹا قدم یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ دنیا میں ہمیں خوشی پہنچانے والی جو بھی چیزیں ہیں اور لوگ باگ ہماری نیکی اور اچھائی کی جو بھی تعریف کرتے ہیں اس میں ہماری اپنی کوئی ذاتی خوبی یا کاوش کو دخل نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اورصرف اللہ رب العزت کا انعام اور فضل ہے کہ اس نے ہمیں نیک اعمال کی توفیق دی اور خلقِ خدا کے دلوں میں ہماری محبت اور احترام کا جذبہ پیدا فرمایا۔ اس لیے بڑی ناانصافی اور نمک حرامی ہوگی کہ ہم ان انعامات واکرامات کو اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کریں یا اپنے نیک اعمال میں کسی اور کو منتہائے نظر بنائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَمَا بِکُم مِّن نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّہِ ثُمَّ إِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَإِلَیْْہِ تَجْأَرُون٭ثُمَّ إِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنکُمْ إِذَا فَرِیْقٌ مِّنکُم بِرَبِّہِمْ یُشْرِکُون٭لِیَکْفُرُواْ بِمَا آتَیْْنَاہُمْ فَتَمَتَّعُواْ فَسَوْفَ تَعْلَمُون} (نحل، 53-55) ’’تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو۔ مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو اس مہربانی کے شکریہ میں شریک کرنے لگتا ہے تاکہ اللہ کے احسان کی ناشکری کرے۔ اچھا، مزے کرلو، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔‘‘

        حصولِ اخلاص کا ساتواں مرحلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہر عمل کو انجام دینے سے پہلے اچھی طرح ذہن ودماغ میں بیٹھا لیں کہ ہمارا یہ عمل صرف اللہ رب العزت کے لیے ہے۔ دل میں بھی اس عزم کو دہرایا جاسکتا ہے اور کافی ہوگا اور ضرورت ہو تو زبان سے بآواز اس کی صراحت بھی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نماز کی نیت باندھنے سے پہلے اپنے دل ودماغ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی کا استحضار کرتے ہوئے نیت کی جائے کہ یہ نماز جیسی بھی ہے اللہ رب العزت کے لیے ہے، اور اگر ضرورت محسوس ہو تو زبانی بول کر بھی اپنے ذہن کو اس کا یقین دلایا جاسکتا ہے۔

        اخلاص کے حصول کا آٹھواں قدم یہ ہے کہ ہم ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے اعمال ہماری طول طویل زندگی میں کتنی ہی زیادہ کمیت میں ہوجائیں مگر ان میں وہی اعمال ہمیں نفع پہنچائیں گے جو اللہ کے یہاں مقبول ٹھیریں۔ اللہ کے یہاں مقبول ہونے یا دوسرے الفاظ میں ہمیں فائدہ پہنچانے والے اعمال وہی ہونگے جو اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور خوشنودی کے لیے انجام دیے گئے ہیں۔ اگر کوئی عمل ایسا ہے جس میں اللہ کی خوشنودی مدِ نظر نہ تھی یا جس میں رضائے رب کے ساتھ ساتھ دوسرے اغراض ومقاصد بھی پائے جاتے تھے تو وہ عمل نامقبول اور بے سود قرار پائے گا۔ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، اب جو کوئی عمل کرے اور اس میں میرے ساتھ کسی غیر کو بھی شریک کر لے تو میں اس سے بری ہوں اور اس کا عمل اسی کے لیے ہوگا جس کے لیے اس نے کیا، میرے لیے نہیں ہوگا۔ [أنا أغنی الشرکاء عن الشرک، فمن عمل عملاً أشرک فیہ معی غیری فأنا منہ بریء، ھو للذی عملہ] (صحیح مسلمؒ: 7666) اس قولِ الٰہی کو سامنے رکھ کر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم عبادات وطاعات میں کی جانے والی محنتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں یا انہیں رائیگاں اور بے سود بنانا چاہتے ہیں۔ اس شخص سے بڑھ کر احمق کون ہوگا جو اپنی تھکن اور محنت کو اپنے لیے مفید نہ بناسکا حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا تھا اور ایسا کرنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔

        اخلاص کے حصول کا نواں قدم یہ ہے کہ ہم اچھی طرح جان لیں کہ اخلاص کے ساتھ انجام دیا گیا تھوڑا عمل بھی میزانِ الٰہی میں زیادہ ہوتا ہے اور اخلاص کے بغیر انجام دیا گیا بہت زیادہ عمل بھی میزانِ الٰہی میں دھول مٹی کی طرح بے وزن ہوتا ہے۔ یقینا اخلاص کی قوت اور اس کی پائیداری ہی انسان کے اجروثواب کے بے حد وحساب بڑھنے کا عظیم ترین کارگر وسیلہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا اپنے صحابہؓ کے بارے میں ارشاد ہے کہ تم لوگ میرے صحابہؓ کو گالی نہ دو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اُحُد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر دے گاتو یہ ان میں سے کسی کے خرچ کئے ہوئے ایک مد (ناپنے کا ایک پیمانہ جو تقریبا ایک کلو بیس گرام ہوتا ہے ) بلکہ آدھے مد کے برابر بھی نہ ہوگا۔‘‘ [لاتسبوا أصحابی فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبا مابلغ مد أحدھم ولا نصیفہ] (صحیح بخاریؒ: 3673۔ صحیح مسلمؒ: 6651) صحابۂ کرامؓ کے اور ہمارے اعمال میں قلت اور کثرت کا فرق نہیں تھا، فرق ہے تو بس یہ کہ ان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل اخلاص سے بھرپور ہوتا تھا جبکہ ہمیں اخلاص کا وہ مقام حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی راہ میں دیا ہوا ہمارا پہاڑ کے برابر سونے کا صدقہ ان کے دیے ایک آدھ کلو گیہوں کے صدقہ کی برابری نہیں کر سکتا۔ معلوم ہوا کہ شریعت میں اصل حیثیت مقدار اور کمیت کی نہیں، بلکہ اخلاص اور کیفیت کی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بندہ عمل کس مقدار میں انجام دے رہا ہے، دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس کیفیت اور جذبہ کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔

        اخلاص کے حصول کا دسواں قدم یہ ہے کہ ہم اپنی استطاعت بھر اپنے ہر نیک عمل کو چھپا کر انجام دیں۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ چھپ کر نیک اعمال انجام دینا ہی اخلاص ہے تو بیجا نہیں ہوگا۔ شہرت وناموری کا بھوکا دل مشکل ہی سے اس کے لیے آمادہ ہوپاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کو اس کی توفیق دیتے ہیں وہ اس امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہمیں دھیرے دھیرے اپنے اندر اخفاء کی عادت اتارنی ہوگی۔ اس کے لیے عملی مشق ومزاولت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوشش کی جائے کہ مال کا صدقہ دینا ہو یا راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھنی ہو یا تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہو، ہم یہ سب اعمال چھپ چھپا کر اور گمنامی میں کریں۔ تاہم وہ اعمال جن کا ظاہر ہونا لازمی ہوتا ہے جیسا کہ نمازباجماعت اور روزے ہوتے ہیں تو ان میں اخلاص کی خوبو بڑی مشکل سے اور کافی محنت ومشقت کے بعد آتی ہے۔ بہرحال بندے کا کام کوشش کرتے رہنا ہے، توفیق دینا نہ دینا خالصتاً اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

        اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورتمام مسلمانوں کو ان نیک بندوں میں سے بنائے جن کے دل غیر اللہ سے خالی ہوتے ہیں اور جن میں صرف اور صرف محبتِ الٰہی اور خوشنودیِ رب کی طلب ہی موجزن رہتی ہے۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔