اخوان المسلمون، آر ایس ایس کی مماثل؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

  کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے اپنے دورۂ یورپ میں International Institute of stretegic Studies لندن میں خطاب کرتے ہوئے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ آر ایس ایس ہندوستان کا نیچر بدلنا چاہتی ہے۔ وہ ایک مخصوص نظریہ ملک پر تھوپنے کی خواہاں ہے۔ وہ نظریہ ایسا ہی ہے جیسا نظریہ عالمِ عرب میں اخوان المسلمون کا ہے۔

  اس پس منظر میں جماعت اسلامی ہند ، ابو الفضل انکلیو کے امیر مقامی جناب سکندر اعظم نے راقم سے خواہش کی کہ صدرِ کانگریس کے اس بیان سے اخوان کے بارے میں جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیے ہفتہ وار اجتماع میں اس موضوع پر اظہارِ خیال کروں۔ میں نے اپنی بات درج ذیل نکات میں رکھی :

(1) جدید ہندوستان میں جن لوگوں نے ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کے احیاء کی کوششیں کی ہیں ان میں راجہ رام موہن رائے ، سوامی دیانند سرسوتی ، ساورکر ، لالہ لاجپت رائے ، سوامی شردھانند اور مدن موہن مالویہ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان حضرات نے مختلف تنظیمیں قائم کیں اور ان کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) نامی تنظیم بھی ہندو احیا پرستی کی عَلَم بردار ہے۔ اس کی تاسیس 1925 میں ہیڈگِوار نے کی تھی۔ اس کے دوسرے سرچالک گول والکر تھے۔ انھوں نے 1940 سے 1973 تک اس کی سربراہی کی۔ گول والکر نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ ان کی کتابوں We or our Nationhood defined اور Bunch of thoughts میں وہ افکار تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جن پر بعد میں آر ایس ایس کی نظریاتی بنیادیں استوار کی گئیں۔

 (2) آر ایس ایس کا نظریۂ قومیت یہ ہے کہ کوئی شخص محض ہندوستان میں پیدا ہونے سے ہندوستانی قومیت کا حصہ نہیں بن سکتا ، بلکہ قومیت کے عناصر ترکیبی میں نسل ، پیدائش ، کلچر ، زبان اور جغرافیہ کے ساتھ مذھب بھی شامل ہے۔  اس کے نزدیک ملک میں ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کرنا فرقہ پرستی نہیں ، بلکہ قومی کام ہے۔

(3) آر ایس ایس کے نزدیک ہندوستان کی اکثریت ہندوؤں کی ہے ، اس لیے اسے ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ جو لوگ ہندو قومی ریاست کے تصور سے خود کو الگ رکھتے ہیں وہ ‘دیش دروھی’ (ملک دشمن) ہیں۔

 (4) آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کرلینی چاہیے اور خود کو اکثریتی فرقہ کے کلچر میں ضم کردینا چاہیے۔

(5) آر ایس ایس ہندو راشٹر کی تعمیر منو سمرتی کی بنیاد پر کرنا چاہتی ہے۔ وہ ورن ووستھا کی قائل ہے ، جس میں انسانی سماج کو 4 طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔  یہ تصوّر ملک کے بڑے طبقے کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے ، اس لیے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اس نے اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد مسلم دشمنی پر رکھی ہے۔ اس کے نزدیک مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں ، جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے اور لالچ اور جبر کے ذریعے یہاں کی بڑی آبادی کو مسلمان بنایا ہے ، اس لیے ان کی ‘شدھی’ اور ‘گھر واپسی’ کرانی چاہیے۔ وہ کہتی ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہاں دو ہی راستے ہیں : یا تو خود کو قومی تہذیب ، بہ الفاظ دیگر ہندو تہذیب میں ضم کرلیں ، یا اکثریتی طبقہ کے رحم و کرم پر زندہ رہیں۔

 (6) آر ایس ایس جرمنی میں ہٹلر کے ذریعے یہودیوں کے قتل عام کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے جرمن نسل اور کلچر کے تحفظ کے لئے ایسا کیا تھا۔ اس میں ہندوستانیوں کے لیے بڑا سبق ہے۔

(7) اگر کوئی شخص آر ایس ایس کا موازنہ اخوان المسلمون سے کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اخوان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اس نے بس ایک سنی سنائی بات کہہ دی ہے۔ اخوان کے افکار و نظریات ، اس کی سرگرمیوں اور تاریخ سے اسے ادنیٰ سی بھی واقفیت نہیں ہے۔

(8) اخوان المسلمون کی تاسیس 1928 میں مصر میں ہوئی۔ اس زمانے میں عرب قومیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ، فرعونی تہذیب کے احیا کی باتیں ہو رہی تھیں ، آزادی نسواں کی صدا بلند کرکے اباحیت و عریانیت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ شیخ حسن البنا نے اصلاحِ معاشرہ کی جدّوجہد کی اور مغربی تہذیب کے بجائے اسلامی تہذیب کی بالادستی کی دعوت دی۔

 (9) 1939 تک اخوان کی تحریک خاموش اصلاحی جدّوجہد تک محدود رہی اور اس کی دعوت کو خوب فروغ ہوا ، لیکن دوسرے مرحلے میں جب انھوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تب حکومت کے کان کھڑے ہوگئے اور اس کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے وہ حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگی۔ 1948 میں اخوان نے جنگِ فلسطین میں حصہ لیا اور  خوب دادِ شجاعت دی۔ اس کے بعد سے عالمی سطح پر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ انگریزوں نے ان کی سرکوبی کے لیے مصری حکومت پر دباؤ ڈالا۔ تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کے ارکان کو داخلِ زنداں کردیا گیا۔ 1949 میں بانی تحریک شیخ حسن البنا کو شہید کردیا گیا۔ 1952 میں جمال عبد الناصر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا الزام اخوان پر ڈال کر ان کے خلاف داروگیر کی زبردست مہم چھیڑی گئی۔ 1954 میں ان کے 6 رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی ، جن میں سے ایک شیخ عبد القادر عودہ شہید تھے ۔ پھر 1966 میں ان کے 4 رہ نماؤں کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ، جن میں سے ایک شیخ سید قطب تھے۔ ان کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر اخوان کو خوب مشقِ ستم بنایا گیا۔ ادھر چند سال سے وہ پھر سخت آزمائش میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالٰی انھیں استقامت بخشے اور ان کی مشکلات آسان فرمائے۔

(10) اخوان کو آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست اور دہشت گرد تنظیم سے تشبیہ دینا بڑی نادانی کی بات ہے۔ اخوان نے قومیت کے مروّجہ نظریہ کے برخلاف عالمی اخوّت کا تصور پیش کیا۔ انھوں نے حکومتوں سے اصلاح کا مطالبہ کیا اور مکمل اسلامی نظام قائم کرنے کی بات کی ، لیکن ملک کے دیگر مذہبی گروہوں کے بارے میں منافرت نہیں پھیلائی۔

(11) افسوس کہ اخوان کے بارے میں عالمی سطح پر غلط فہمیاں پھیلائی گئیں ، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی برابر جاری ہے۔ دشمنوں سے کیا گِلہ ، لیکن افسوس کہ بعض مسلم حکومتیں ، مسلم جماعتیں اور مسلم شخصیات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔

 (12) اخوان نے کبھی طاقت ، جبر اور تشدّد کا راستہ نہیں اختیار کیا اور زیرِ زمین سرگرمیاں نہیں انجام دیں ، بلکہ ہمیشہ پُر امن جدّوجہد کی اور کھلے عام اپنی سرگرمیاں انجام دیں ، لیکن ان پر الزام لگایا کہ یہ خارجی اور باغی ہیں ، یہ جہاں بھی رہے انھوں نے وہاں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔

  کتنی عجیب بات ہے کہ جو تنظیم خود دہشت گردی کا شکار ہوئی ہو ، جس کے لاکھوں ارکان و وابستگان کو جیلوں میں ٹھونس کر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہو اور اس کی لیڈرشپ کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا ہو ، خود اس پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جائے۔

    (13) اخوان مصر کی تنظیم ہے ، ہندوستان سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن معلوم نہیں کیوں ، ادھر کچھ عرصے سے بعض حضرات ہندوستان میں اخوان کے خلاف مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ وہ عالمی دہشت گردی کے تانے بانے اخوان سے جوڑتے ہیں ، اس کے سربراہوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں ، سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ توحید اور اصلاحِ معاشرہ کے عنوان سے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرتے ہیں ، لیکن ان میں ‘اخوانیت’ کو ایک گم راہ کن نظریہ کی حیثیت پیش کرتے ہیں۔

  اگر ان کی یہ تمام باتیں درست مان بھی لی جائیں تو یہ سوال پھر بھی باقی ہے کہ :

 *   ہندوستان میں اخوانیت کا رد کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟

  *  کیا یہاں مسلمانوں کے اعتقادی ، تعلیمی ، سماجی ، معاشی ، سیاسی اور دیگر مسائل کم یا غیر اہم ہیں کہ مصر یا عالمِ عرب سے ایک ‘اہم ترین’ مسئلہ درآمد کرنے کی ضرورت پیش آگئی؟

*   کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عالمی منظر نامہ میں ‘اخوانیت’ کا رد موٹی کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے؟

 *  کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اخوان کے خلاف جتنی دھواں دھار تقریر کی جائے گی اور اس کی ویڈیو تیار کرکے اس کو جتنا زیادہ عام کیا جائے گا اتنی ہی زیادہ دولت ہاتھ آئے گی ؟

تبصرے بند ہیں۔