اداسیوں میں سوئی ہوئی محبت

 تبسّم فاطمہ

تمہارے ساتھ ایک لمحے کی سر گوشی ضروری ہے

یہاں تنہایوں میں وحشتوں کا رقص جاری ہے

کویی اک وصل کا لمحہ بلاتا ہے

اداسی دھند بن کر چھا رہی ہے

کویی سایہ ہے جس کے ہاتھ کو تھامے

مجھے چلنا ہے آخر تک

بہت مصروف دنیا ہے

محبّت کچھ زیادہ ہی اکیلے پڑ گیی ہے

محبت نور تھی ،

اب پھر سے تنہا ہو گی ہے

محبت سب کی آوازوں میں شامل تھی

مگر اب

محبت تھک چکی ہے

دھند کا جنگل ہے آگے

بے نشاں ہو کر محبّت

اب اسی جنگل میں رہتی ہے

تبصرے بند ہیں۔