ادبی تماشہ

سالک جمیل بڑار

ہم اُن دنوں پندرہ سولہ سال کے رہے ہوں گے۔ کہ ایک بڑی تقریب میں ایک بڑے شاعرکوایک شال اور ٹرافی لیتے ہوئے دیکھا اُن کی بڑی عزّت ہورہی تھی۔ شاعر صاحب بھی ایوارڈ لے کر پھولے نہیں سمار ہے تھے۔ اگلے دن اخبارات کے پہلے صفحے پر شاعر صاحب کی تصویریں اور ان کے بارے میں لمبے لمبے مضمون پڑھ کر ہم نے اپنے دل میں ٹھان لی کہ ہم کچھ اور بنیں نہ بنیں، شاعر ضرور بنیں گے، ایسا ہی ایوارڈ حاصل کریں گے اوراتنی ہی عزت پائیں گے۔ ہم نے دوستوں کے سامنے اپنی خواہش رکھی۔ پہلے تووہ ہنسے پھربولے۔ ایوارڈ لیناکوئی بڑی بات نہیں ہے اس کے لیے آدمی کا فنکار ہونابھی ضرورنہیں ………بس بندے کا تگڑم باز، مکّار اور چاپلوس ہونا ضروری ہے۔ ایوارڈ تواپنے آ پ کھینچاچلاآتاہے۔ ان ساری خوبیوں کے سلسلے میں ہم نے آئینہ دیکھااوراپنی آنکھوں کا رنگ ملاحظہ کیا۔ ہماری آنکھوں کا رنگ نیلااورشربتی مکس (Mix)رنگ ہے۔ ایسے رنگ کی آنکھوں والے میں یہ ساری خوبیاں ہوناقدرتی بات ہے۔ ہم آئینہ کے سامنے زیادہ دیرکھڑے نہ رہ سکے کہ شرماگئے۔

جب ہم میٹرک میں تھے۔ ہم نے پتہ کیاکہ شہر میں استاد شاعرکون ہے تومعلوم ہواکہ ہمارے ٹیچر ہی سینٹرشاعرہیں۔ جن سے ہم ٹیوشن پڑھتے ہیں بس ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک دن سبزی کا تھیلابھر کران کی خدمت میں حاضرہوگئے اوردل کی بات بیان کی۔ وہ ہمیں دیکھ کر پہلے تو ہنسے پھر کہنے لگے تم اور شاعری ؟چھوڑو………چھوڑو………پھرتھیلے کی طرف دیکھ کر بولے۔ چلودکھاؤ کیالکھ کرلائے ہو۔ اب ہم نے کہا جوآپ لکھائیں گے وہی لکھیں گے۔ وہ ہنستے ہوئے بولے نہیں بیٹا پہلے تمہیں کچھ نہ کچھ تو لکھناپڑے گا۔ پھرہم تمہیں شیخ سندھاری کی طرح قافیہ، ردیف اور وزن کے بارے میں سکھائیں گے۔ بس ہم نے کسی نہ کسی طرح غزل کہہ ڈالی جو بہت ہی اوٹ پٹانگ تھی۔ اُسے لکھ کر جب ہم استادکے پاس سبزی سے بھراتھیلا لے کردوبارہ پہنچے توانہوں نے غزل دیکھ کر کہا۔ بچے کیاضروری ہے کہ تم شاعر بنو…… تمہاری یہ غزل تو ناقابلِ مرمت ہے……پھربھی انہوں نے اپنی شرافت اور شفقت کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح ہماری اُس تخلیق کو غزل بناہی ڈالا۔ اسی طرح جب تین چار غزلوں کو ہم نے اپناسرمایہ بنالیا۔ تواستاد صاحب نے ہماری ضد سے تنگ آکرایک شعری نشست میں ہم سے غزل پڑھوا ڈالی، بڑی تعریف ہوئی، گوغزل بھی استاد کی تھی اور تعریف بھی استادکے لیے، آٹھ، دس غزلوں پرناجائز قصبہ جماکر ہم بھی شہر کے شاعروں کی لسٹ میں شامل ہوگئے۔ گوقافیہ، ردیف اور وزن کے پتھروں سے سرکھپانا اپنے بس کی بات نہیں۔ شاعری کا دامن چھوڑکرہم نے اپنی میٹھی زبان میں ایک نیا مکھوٹا پہن کر شہرکی ایک افسانے کی انجمن میں پیر جمالیے۔ وہاں کے سینئراستاد افسانہ نگارکوابّا کی بجائے دادا ہی کہنا شروع کردیا۔ وہ بے چارے خوش مزاج، مخلص اور موٹے تازے آدمی تھے۔ ہماری میٹھی زبان کے چکرمیں آگئے۔ ہم نے ان کوبھی سبزی کے تھیلے کی دعوت دی۔ مگر چونکہ ہماری شاعری کے استادسبزی کے معاملے میں ہمارے ہاتھوں کا فی شہرت پاچکے تھے۔ اس لیے افسانہ نگار نے ہم سے کوئی چیزمفت نہ لی۔ بلکہ ہمیں اپنی ہی گرہ سے چائے پلاتے رہے۔ جب ہم نے دیکھاکہ ہم ان سے لاتعداد چائے کے کپ پی چکے اور کافی کچھ کھابھی لیا۔ تب ہم نے ایک دن مکھوٹا پہن کرانھیں دعوت کرڈالی۔ شریف آدمی تھے۔ ہمارے جال میں پھنس گئے اُن کو دعوت کھلاکرہم نے شہرمیں خوب چرچاکی۔ مگرکبھی ہم کوئی افسانہ لکھنے کی جرأت نہ کرسکے۔

بس حضرات ہم نہ شاعر بن سکے، نہ افسانہ نگار، ہمیں ہمارا خواب بکھرتاہوانظرآنے لگاکہ ایک دن ہمیں ایک مداری مل گیا۔ ہم نے اُس سے پوچھا کیاکرتے ہو؟ بولا، تماشہ کرتا ہوں۔ ہم نے یوں ہی کہہ دیا ادبی تماشہ کروگے۔ پہلے تووہ لفظ ادب کا مطلب پوچھتا رہا۔ جب اس کے پلے کچھ نہ پڑا تو وہ اکتاکربولا۔ چلوچھوڑو…… ساب(صاحب) ادبی بدبی یہ تو بعدکی بات ہے۔ پہلے یہ بتاؤ کہ روپیہ بھی اچھّا بنے گا۔ ہم نے جب اسے ادبی فنکشن کا خرچہ اور آمدنی بتائے تو اس کی باچھیں کھل اٹھیں۔ بولاٹھیک ہے ساب(صاحب) ہم آپ کایہ ادبی تماشہ کرنے کو تیارہیں۔ فنکشن کی تاریخ طے ہوگئی۔ مداری بڑا تیزنکلا۔ اس نے باہر سے ایک بڑی شخصیت بھی بلا لی اور شہر کے ایک معزّز اور ادب نواز رئیس کوبھی قابوکرلیا۔ جب ہم نے اسے چندے کے نام پر ہزاروں روپے اکھٹے کرکے دیے اور ادبی تماشے کے طریقے بتادیے۔ پھرہم نے اپنی زندگی کا مقصد بیان کیا۔ تومداری نے کہاجواب تک شعروادب کی تقریب کے ادب وآداب سمجھ چکاتھا۔ ساب (صاحب) آپ کو ایوارڈ کونسا دیاجائے۔ آپ نہ تو شاعرہیں نہ ہی ادیب ہیں اورنہ ہی کچھ اور… …… آپ کے لیے ایورڈ ہوتوکس بات پر، ہم نے کہاہمارے پاس تین ہزار فائیلیں ہیں۔ جو مختلف ادیبوں اورشاعروں سے تعلق رکھتی ہیں (یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے آدھی چرائی ہوئی ہیں ) مداری نے اپنی سوجھ بوجھ پرزورڈالا اورپھربولا۔ ٹھیک ہے ہماری طرف سے چاہے تم تین کی بجائے پانچ ہزار فائلوں کا اعلان کردو۔ کوئی تمہارے گھر گِننے توآئے گا نہیں۔ چلوبتاؤ ایوارڈ کے بدلے میں تم مجھے کیادوگے۔ ہم سٹپٹاگئے۔ ہم نے کہایہ سارا انتظام اور پلاننگ ہماری ہی توہے اور ایوارڈکا معاوضہ تم ہم ہی سے مانگتے ہواوریہ توہماری ادبی خدمت ہے۔ مداری بولا۔ دیکھوساب (صاحب) ہمیں ادب بدب سے کوئی مطبل (مطلب )نہیں۔ تم کچھ بھی ہو ہماری بلا سے تمہیں ایوارڈدینے کے اکاون سوروپے لوں گا۔ جہاں ہم بڑے شاعروں اورادیبوں کوایوارڈ دیں گے۔ وہاں تمہیں بھی ایک ٹرافی اور شال دے دیں گے۔ ہمیں توپیسہ بچاناہے۔ وہ بے وقوف تھااُسے علم نہیں تھا کہ ایوارڈ پانے کے لیے ہم گیارہ ہزار بھی دے سکتے ہیں۔ ہم نے فوراً اکاون سو روپے جیب سے نکالے اورسوداپکّاکرلیا۔ تقریب والے دن ہم نے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بھی بلایا۔ بہترین پوشاک پہنی، بروٹ کا انٹی میٹ لگایا اور ایک نیامکھوٹا یعنی فنکارہونے کا مکھوٹا پہن کرمعزّز مہمان کے ہاتھوں سے ٹرافی لی۔ فوٹوگرافرہم ساتھ ہی لے گئے تھے۔ اپنے ڈرائنگ روم کے لیے ہم نے ایک بڑی فوٹو محفوظ کرلی۔ اورسپاس نامہ جواستادمحترم نے ہمارے لیے تحریرفرمایا تھا۔ اسے بھی اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنالیااورخداکاشکراداکیا۔ روپیہ پیسہ تو آدمی کماتاہی رہتاہے۔ عزت باربارنہیں ملتی۔ اب آپ بتائیں کے اکاون سومیں خریدی یہ ٹرافی کتنی سستی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا دیرینہ خواب پوراہوا۔

تبصرے بند ہیں۔