قیمتی باتیں

 عبدالعزیز

میری توبہ پختہ ہوگئی

        حضرت ابو عمر جنیدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ابتدا میں حضرت ابو عثمان حیریؒ کی مجلس میں توبہ کی، لیکن تھوڑے ہی دن گزرے کہ دل میں گناہ کی خواہش پیدا ہوئی اور توبہ توڑ دی اور معصیت میں مبتلا ہوگیا۔ اس کے بعد اپنے پیر کی صحبت سے رو گردانی کرنے لگا۔ یہاں تک کہ ان کو کبھی آتے ہوئے دور سے دیکھتا تو بھاگ جاتا کہ وہ مجھے دیکھ نہ لیں۔ ایک دن اچانک ان سے ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے فرمایا: بیٹا! اپنے دشمنوں سے صحبت نہ رکھ۔ وہ چاہتے ہیں کہ تو بد سے بدتر ہوتا چلا جائے۔ اس لئے جب تو عیب کرتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور تو اس سے بچتا ہے ان کو غم ہوتا ہے۔ تو میرے پاس آ کہ میں تیری بلائیں اٹھاؤں اور تو اپنے دشمن کے مقصد کو پورا کرنے سے بچ جائے۔ حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میرا دل گناہ سے سیر ہوگیا اور میری توبہ پختہ ہوگئی۔

اللہ تو سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے

        توبہ کرنے سے آدمی کو اس وجہ سے اجتناب نہ کرنا چاہئے کہ اسے اس پر قائم رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جتنی مدت وہ نافرمانی سے باز رہے گا اس کا اجر و ثواب تو بہر حال اسے حاصل ہوگا۔ توبہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کا اپنا پختہ ارادہ ہوکہ وہ پھر اس گناہ میں ملوث نہیں ہوگا۔ مبتدی توبہ کرنے والوں کو اس سے سابق پیش آتا ہے کہ انھوں نے توبہ کی اور پھر کچھ مدت بعد غفلت میں مبتلا ہوکر وہی کام کر بیٹھے جس سے توبہ کی تھی۔ اس حالت میں ہونا یہ چاہئے کہ جونہی غلطی کا احساس ہو فوراً توبہ اور ندامت کا اظہار کرے اور آئندہ اس کام سے باز رہنے کا از سر نو پکا ارادہ کرلے۔

        ایک شیخ کا بیان ہے کہ میں نے جس گناہ سے توبہ کی اس کا مجھ سے بار بار ارتکاب ہوتا ریا۔ یہاں تک کہ ستر مرتبہ میری توبہ ٹوٹی اور اکہترویں مرتبہ توبہ کرنے کے بعد مجھے استقامت نصیب ہوئی  ع  اگر صد بار توبہ شکستی باز آ۔ توبہ کرنے والوں کیلئے حق تعالیٰ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یعنی اے نبیؐ! میری یہ بات میرے بندوں تک پہنچا دو کہ اے میرے وہ بندو جنھوں نے گناہ اور سرکشی کی کوئی حد نہیں چھوڑی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ تو (بندہ اخلاص کے ساتھ توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرے تو) سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ تو وہ ذاتِ کریم ہے کہ جو بڑا ہی در گزر کرنے اور رحم فرمانے والا ہے‘‘ (53:39)۔

قولِ فیصل

        اس اختلاف کے بارے میں حضرت علی ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ یہ اختلاف فی الحقیقت صرف عبارت اور الفاظ کا اختلاف ہے۔ معنی اور اصل حقیقت کے لحاظ سے دونوں گروہوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اہل معرفت اور اہل سنت والجماعت دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ایمان کی ایک اصل ہے اور ایک فرع۔ ایمان کی اصل زبان سے اقرار اور اس کی دل سے تصدیق ہے اور ایمان کی فرع معاملات میں اس ایمان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔ اور اہل عرب کا عرف اور ان کی عادت یہ ہے کہ کسی چیز کی فرع کو الگ نہیں بلکہ اصل سے پکارتے ہیں۔ اس لئے ایمان کا ذکر آجانے کے بعد عمل و اطاعت کے الگ ذکر و صراحت نہیں رہتی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس شخص کے دل میں جس قدر خدا کی محبت ہوگی اتنا ہی وہ خدا کی اطاعت و فرماں برداری کرنے والا ہوگا، کیونکہ محبت کی علامت و فرماں برداری ہے۔ اگر کسی کا دل خدا کا محل ہو، آنکھ خدا کو دیکھنے والی ہو تو یہ ناممکن ہے کہ وہ خدا کے حکم کو ترک کرنے والا ہو، جس شخص کا بدن امر الٰہی سے بے پرواہو وہ خدا کی معرفت کا دعوی یٰ کرتا ہے تو اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔ جو دل خدا کو پہچان لے وہ تو اس کے شوق کا محل بن جاتا ہے اور اس میں اس کے فرمان کی تعظیم زیادہ ہوجاتی ہے۔ گرویدہ ہونے کی علامت ہی یہ ہے کہ دل میں توحید کا عقیدہ جاگزین ہو، آنکھیں ہر طرف پھیلی ہوئی خدا کی نشانیوں سے عبرت و موعظت حاصل کریں، کان اسی کا کلام سنیں، زبان سے قولِ صدق جاری ہو، معدہ اس کے حرام سے خالی ہو اور سارا بدن اس کی منہیات سے پرہیز کرے۔ حقیقت میں ایمان نام ہی اس چیز کا ہے کہ بندے کے تمام اوصاف خدا کی طلب اور جستجو اور اس کی رضا جوئی میں لگے ہوئے ہوں، کیونکہ ’’معرفت‘‘ کے بادشاہ کے کسی دل پر غالب آجانے (یعنی ایمان) کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ وہ تمام برے اوصاف اور نافرمانی کو مغلوب کرلے۔

        جہاں ایمان ہوتا ہے، برے اوصاف وہاں سے جدا ہوجاتے ہیں۔ جہاں سورج موجود ہو، وہاں اندھیرے اور ظلمت کیلئے کیا گنجائش ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفَسَدُوْہَا… ’’یعنی بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو جو کچھ پہلے وہاں موجود ہوتا ہے اس کو تہ و بالا کر دیتے ہیں ‘‘ (34:27)۔ اس لئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ’’معرفت‘‘ کا بادشاہ (یعنی ایمان) کسی دل کی بستی میں فاتحانہ داخل ہو اور پھر بھی اس کے منافی کوئی چیز اس بستی میں باقی رہ جائے۔ ایسی سب چیزوں کی ولایت اور حکمرانی وہاں سے لازماً ختم ہوگی۔ ایمان کے فاتحانہ داخلہ کے بعد تو ایسا دل جو کچھ دیکھتا ہے جو کچھ سنتا اور سوچتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے، سب امر الٰہی کے دائرے کے اندر ہوتا ہے۔

انبیاء ؑاور اولیاء ؒ

        ’’یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ طریقت کے تمام شیوخ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اولیاء ؒہر حال میں انبیاء علیہم السلام کے پیرو ہیں۔ اور ان کی دعوت کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ اس لئے کہ نبوت کی جو ابتدا ہے وہ ولایت کی انتہا ہے۔ تمام انبیاء ؑ اولیاءؒ ہوتے ہیں لیکن ولی نبی نہیں بن سکتا۔ نبی صفاتِ بشری کی نفی میں اصل ہیں اور اولیاء اس میں عارضی ہیں۔ اور میں علی بن عثمان جلابی کہتا ہوں کہ جو شخص انبیاء ؑکا پیرو نہ ہو اور اپنے آپ کو ولی خیال کرتا ہو تو وہ شیطان کا ولی ہے، اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا‘‘۔ (کشف المحجوب)

تبصرے بند ہیں۔