ادبی نشست اور مشاعرہ کا انعقاد

   ادارہ ادب اسلامی اور آئی ایف سی ریاض سعودی عرب کے زیر اہتمام ایک ادبی نشست اورمشاعرہ کا انعقاد عبد العزیز صاحب کی رہاش گاہ میں 27 ستمبر کی شب ہوا،جس کی صدارت معروف افسانہ نگار تنویر تماپوری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض منصور قاسمی نے انجام دئیے۔

مہمان اعزازی خواجہ مسیح الدین صاحب رہے۔ عبداللہ نے تلاوت کلام پاک سے محفل کا آغاز کیا ، وسیم قریشی نے اپنا افسانہ ’’احساس ،، کے ذریعے بتایا کہ انسان تو انسان ہے، جانور وں کے ساتھ بھی  ہمدردی اور انسیت  کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ زکریا سلطان نے فکاھیہ ’’گرینڈر،، میں سیل بٹہ کی ترقی یافتہ صورت سے آگاہی فراہم کی۔ جنید الرحمان کا افسانہ ’’درندگی کا مسلسل محاذ ہے قائم،، وحشی جانوروں کی انسانیت اور انسان کی حیوانیت کا عکاس رہا۔

ناہید طاہر کا افسانہ ’’شب دیجور،،ان کے شریک ہمسفر طاہر بلال نے سنایا جو کے علامتی افسانہ تھا ،اس میں ننھی چڑیا کے پنجہء اجل میں جانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔خواجہ مسیح الدین نے فکاہیہ ’’ رفیق حیات ،شریک حیات،،میں سیل فون کی حشر سامانیوں اور فتنہ پروازیوں پر دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی۔

صدر نشست تنویر تماپوری نے اپنے خوبصورت افسانچے سنا کر سب کادل جیت لیا۔ مختصر عشائیہ کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا جس کی صدارت ر یاض کے مقبول و مشہور شاعر ظفر محمود نے کی۔ واضح رہے کہ یہ طرحی مشاعرہ  تھا جس میں دو طرحیں دی گئی تھیں ’’ گیسو سے روٹھ کر خم گیسو کہاں گئے ’’ اور ’’ذرا سی لغزش سے توڑ لیتے ہیں سب تعلق زمانے والے ،،۔مشاعرہ میں شریک شعراء کرام کے منتخب اشعار نذرقارئین ہیں۔

دیکھا ہے یوم عید لحد سے لپٹ کر وہ

کہتا تھا اک یتیم کہ ابو کہاں گئے

اسماعیل روشن

اخلاق کس وجہ سے مرا سب کو ہے خبر

اس کی خطا یہی تھی کہ وہ گوشت کھا گیا

امتیاز احمد

نہیں تماشا گری ہے آتی ہر اک کو لیکن یہ جانتا  ہوں

ادا کے طلسم سے موہ لیتے ہیں من حقیقت چھپانے والے

ضیاء عرشی

جن کے اثر سے ہوئی تھیں مدہوش محفلیں

تیری نظر کے آج وہ جادو کہاں گئے

طاہر نسیم

گاؤں میں آ کے بس گئی شہروں کی زندگی

بچے سوال کرتے ہیں جگنو کہاں گئے

حسان عارفی

زر کی چمک میں کھو گئی اپنائیت کی خو

الفت کے وہ حصار ، وہ بازو کہاں گئے

سعید اختر اعظمی

تلوار کانپتی تھی کبھی جن کو دیکھ کر

اے نوجوان قوم وہ بازو کہاں گئے

سہی٢ل اقبال

تڑپتے بچے  بلکتی  مائیں ،  چلو درندو !  تمہیں دکھائیں

تمہارے گھر بھی جلیں گے اک دن غریب خانے جلانے والے

منصور قاسمی

بڑھتا ہی جا رہا ہے تغافل کا سلسلہ

وہ تیرے مان جانے کے پہلو کہاں گئے

طاہر بلال

رعنائیں تھیں رقص کناں جن کے فیض سے

جان  نشاط بزم  وہ  مہ رو کہاں  گئے 

خواجہ مسیح الدین

خدایا مجھ کو تو ایسا نصیب کردے عطا

پڑے جو وقت تو میں ہر کسی کے کام آؤں

ظفر محمود

ناظم مشاعرہ کے کلمات تشکر کے ساتھ رات ساڑھے گیارہ بجے نشست اختتام پزیر ہوئی۔

تبصرے بند ہیں۔