بزم اردو قطر کے زیر اہتمام پلا ٹینم جبلی عالمی مشاعرہ

رپورٹ: حمزہ اعظمی

قطر کی 60 سالہ قدیم ادبی تنظیم ’’بزم اردو قطر‘‘کے زیر اہتمام عالمی مشاعرہ بروز جمعہ 27 ستمبر2019ء کومنعقد ہوا۔پرل راؤنڈ اباؤٹ وکرہ دوحہ کے قریب ڈی پی ایس اسکول کے خوبصورت اور عظیم الشان آڈیٹوریم میں اس عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان اور پاکستان کے مشہور شعرا ء نے شرکت کی، اس مشاعرے کی صدارت ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت محترمہ کامنا پرساد   (بانی جشن بہار ٹرسٹ) نے کی جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے سابق رکن پارلیامنٹ معروف اداکار شترو گھن سنہا نے شرکت کی خطبہ استقبالیہ پروگرام کے روح رواں  بزم کے سرپرست اعلی جناب صبیح  بخاری نے پیش کیا، پروگرام کے پہلے حصے کی نظامت کے فرائض احمد اشفاق ( جنرل سکریٹری) نے انجام دیے اور مشاعرہ کی باضابطہ نظامت ڈاکٹر عنبر عابد کے حصے میں آئی۔

اردو ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے (صبیح بخاری)

 اسٹیج پر موجود شخصیات میں شتروگھن سنہا، صبیح بخاری، کامنا پرساد، مینو بخشی، ڈاکٹر عنبر عابد، ڈاکٹر بسمل عارفی، عمران عامی، اعجاز اسد، ھاشم فیروز آبادی شاداب اعظمی، فوزیہ رباب اور مقامی شعراء میں شوکت علی ناز، منصور اعظمی، احمد اشفاق، اور راقم اعظمی نے  اپنی موجودگی سے  اسٹیج کو با رونق کیا۔ مشاعرے کا آغاز مہمانوں کے اسٹیج  با رونق کرنے کے بعد تقریبا آٹھ  بجے کیا گیا، حسب روایت پروگرام کا با قاعدہ آغاز  قاری سیف الرحمن کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔

 سب سے پہلے احمد اشفاق نے قطر نیشنل تھیئٹر کے ڈائرکٹر جناب طلال المولوی کو آواز دی جو  وزارہ ثقافہ و کھیل کود سے تشریف لائے تھے انہوں نے بزم اردو قطر اس کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد پیش کیا اور اپنی شمولیت پر مسرت کا اظہار کیا، اسکے بعد سرپرست کمیٹی کے اہم رکن جناب  حبیب النبی کے ذریعہ بخاری صاحب کا تعارف پیش کیا گیا،بخاری صاحب کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 32 سالوں سے قطر میں مقیم رہ کر اردو زبان و ادب  کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، مختلف ادبی اور نیم ادبی تنظیموں سے وابستگی ہے۔ مزاج میں بے انتہا سادگی ہے، اپنی بے تکلف سادہ اور پر لطف باتوں سے لوگوں کو بہت متأثر کرتے ہیں تعارف کے بعد جناب صبیح بخاری نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں تمام اہل دوحہ اور خصوصا مہمانان کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا، اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اردو زبان اور مشاعرے لوگوں کے درمیان محبت اور جوڑ پیدا کرتی ہے، اردو زبان صرف زبان ہی نہیں بلکہ ایک معاشرہ ہے، ہم یہاں سے اس مشاعرے کے ذریعے لوگوں کو جوڑنے کا کام کریں گے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مشاعرے کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بار خلیج میں کوئی 60سالہ ادبی تقریب منائی جا رہی ہے اور  قطر میں پہلی با کوئی خاتون اس مشاعرے کی صدارت  فرما رہی ہیں اور یہ بھی پہلی بار ہی ہوگا کہ نظامت بھی کوئی خاتون ہی کریں گی۔

اردو عشق کی زبان ہے ( کامنا پرساد)

  اسکے بعد بزم اردو  قطر کا تعارف اطہر اعظمی کے ذریعہ پیش کیا گیا، تعارف میں بزم کا آغاز، اور وجہ آغاز اور کس طرح بزم کا نام بزم اردو رکھا گیا، اور کس  طرح سے اب تک کتنے عالمی اور طرحی مشاعروں کا انعقاد اب تک ہوا ہے۔بزم نے اپنے اراکین شعراء کی کل تیس کتابیں اب تک تصنیف کی ہیں۔ کسی بزم کے تحت اتنی کتابوں کی تصنیف ابھی تک نہیں ہوئی ہے یہ تمام باتیں انہوں نے بزم کے تعارف میں پیش کیا۔

 اس کے بعد احمد اشفاق نے مہمان خصوصی شتروگھن سنہا کا تعارف پیش کیا جنکی گفتگو سننے کو لوگ بے تاب تھے ان کے تعارف میں انہوں نے بتایا کہ شتروگھن سنہا ہندوستان کی آزادی سے ٹھیک ایک برس پہلے 15 جولائی 1946ء  کو اس شہر عظیم آباد میں پیدا ہوئے جہاں ایک گنگا جمنی  تہذیب کے زندہ آثارتھے اور جہاں کی فضا میں اردو زبان کی شیرینی رس گھول رہی تھی۔ہمیں یاد رہنا چاہئے 19 ویں صدی کے درمیانی عرصے میں جب رسم زمانہ کے اعتبار سے راجہ رام موہن رائے کو عربی و فارسی زبان  کی تعلیم کا آغاز کرنا تھا تو ان کے سرپرستوں نے انہیں کئی برسوں کے لئے اس زمانے کے عظیم اساتذہ عظیم آباد کے یہاں تعلیم وتدریس کے بھیجا۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرکے ہی راجارام موہن رائے سے سنسکرت کی اعلی تعلیم کے لئے بنارس گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ آپ ایک ادب نواز دوست ہیں۔ ان کی درجنوں فلمیں اپنے تاریخی کام کے لئے بہت مشہور ہیں۔ ان کی حیثیت ہیرو کی ہو یا ویلن کی، ضمنی  کلاکار کی ہو یا تفریحی  نوعیت کی اداکاری مقصود ہو ہر جگہ انہوں نے اپنے ہنر کو کچھ اس طرح سے آزمایا کہ آج ہندوستانی فلم کا مؤرخ انہیں آسانی سے بھلا نہیں سکتا۔ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اردو زبان کا ایک ایسا لفظ جس میں کوئی بول نہ ہو مگر اسے اپنی پیش کش اور آواز کے مردانہ آہنگ سے شتروگن سنہا نے ایسا یادگار بنادیا  کہ آپ کبھی  خاموش ‘ بیٹھے نہیں رہ سکتے۔گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ سیاست میں رہنے کے باوجودلکیر کے فقیر نہیں رہے بلکہ ضمیر کی آواز پر صاف گوئی سے اپنی باتیں پیش کرتے رہے۔ انہیں Angry Old Man بھی کہا گیا۔ جس شخص نے فلموں کی غیر وابستہ  زندگی سے اپنا سلسلہ آگے بڑھایا ہو مگر آرٹ، کلچر  اور سماجی خیر سگالی کے ایجنڈے کو اپنی جان کا سودا بنا لیا ہو، اس کی موجودگی ہماری سماجی زندگی کے لئے ایک لازمی امر ہے۔ خدا کرے وہ سماجی خدمت اور اردو زبان کے جادو کو ہمیشہ پھیلاتے رہیں۔

شتروگھن سنہا نے امیر قطر، صبیح بخاری, احمد اشفاق اور تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا نیز کامنا پرساد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جس طرح سے انہوں نے اردو سیکھی اور بولنے کا انداز پایا ہے اس طرح سے اچھے اچھے لوگ بھی نہیں بول پاتے ہیں اس کے بعد انہوں نے انتہائی پرلطف انداز میں اپنے پاکستانی دورے کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح سے لوگوں نے انکے نام کی مختلف طرح سے توڑ مروڑ کر ادائیگی کی سامعین ان کے اس بیان سے کافی محظوظ ہوئے۔ آخر میں اراکین بزم کا شکریہ ادا کیا اور اس شعر پر اپنی بات ختم کی:

جو پہنچ گئے ہیں منزل پہ انکو تو نہیں ہے ناز سفر      

دو قدم ابھی جو چلے نہیں رفتار کی باتیں کرتے ہیں

اسکے بعد ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش نے صدر مشاعر ہ کامنا پرساد کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آپ اردو زبان کی بے لوث کارکن، دہلی کی اردو اکادمی کی گورنر باڈی، میڈیا کے پروگرام کی  ایک فعال نمائندہ ہیں اورجشن بہار ٹرسٹ کے ذریعے بہت سارے  پروگرامزمنعقد کراتی ہیں۔ آپ مشاعروں کے ذریعے لوگوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہیں۔

تعارف کے بعد کامنا پرساد نے تما م شعراء کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ سامعین کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ اردو زبان کے چاہنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے قطر کی وزارت ثقافت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قطر کا ہر اقدام قابل تعریف ہے اور بالخصوص انکا تعاون جو ہماری زبان کے فروغ کے بابت ہمیں حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی حاضری کے موقع پر ممنونیت کا اظہار کیا اور کہاکہ آپ حضرات اپنے ملک سے دور ہوکر بھی اسے آباد کئے ہوئے ہیں۔ اردو مشاعرے کے انعقاد پر بھر پور گفتگو کی کہ کس طرح اردو میں داد و  تحسین کے رواج کے بعد مشاعروں کا وجود عمل میں آیا اور کہا کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مزید اردو کو  فلموں نے بہت زیادہ فائدہ پہونچایا ہے۔ اس مٹھی میں بند ہوتی دنیا میں لوگوں کے گفتگو کا انداز بھی بدل رہا ہے مگر اردو زبان اپنی مٹھاس سے سخت لہجے سے دور رکھنے کا کام کرتی ہے۔

شوکت علي نازنے پراگرام کے اسپانسرز، دیگر تنظیموں کے معاونین، سامعین،مہمانان، بزم کے فعال اراکین اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا  اور اردو  اور ٹیلی ویزن چینلز کا خاص شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے مشاعرہ  کامیاب ہو سکا۔

اسکے بعد لوح سپاس کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ مینو بخشی، حسن کاظمی، پروفیسر مینو بخشی، عارف علي عارف، ہاشم فیروز آبادی، محترمہ عنبر عابد، اعجاز اسد، شاداب اعظمی،عمران عامی اور  ڈاکٹر بسمل عارفی کو بدست جناب صبیح بخاری اور صدر مشاعرہ لوح سپاس پیش کیا گیا۔

دو لوگوں کو انکی اہم خدمات پر خصوصی لوح سپاس پیش کیا گیا۔پہلاسعدیہ عثمان کو جنکاتعلق عليگڈھ سے ہے اور وہ ایک این۔جی۔او چلاتی ہیں  جسکا مقصد بھوکوں کو بغیر مذہبی تفریق کے کھانا کھلانا ہے۔انہوں نے کہا کہ زندگی وہ ہے جسے دوسروں کے لئے جیا جائے، دوسرا  (بلدنا )کی اہم خدمات کے لئے جو انہوں نے حصار کے اوائل عرصے میں قطر کے باشندگان کو پیش کیں۔

اس کے بعد کامنا پرساد، شتروگھن سنہااور صبیح بخاری کو مومنٹو پیش کیا گیا۔ اور یہاں سے مشاعرے کی کارروائی شروع ہوئی اور اسکا باضابطہ آغاز ہوا اور یہیں سے ایتدائی نظامت کا سلسلہ موقوف ہوا اور احمد اشفاق صاحب نے نظامت کی باگ ڈور ڈاکٹر عنبر عابد کے ہاتھوں میں دی جسے انہوں نے بحسن و خوبی انجام دیا اپنی بات کی ابتداء یوں کی کہ اردو ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب و نمدن ہے۔انہوں نے بھوپال اور جناب صبیح بخاری کے والد یوسف بخاری کی اردو خدمات خدمات کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ ایک تنظیم ہیں جنہیں دیکھ کر نوجوان اپنی سمت متعین کرتے ہیں۔ اور اسکے بعد شعری سلسلہ کا آغاز ہوا۔ شعراء کا اور سامعین کا آپس میں رابطہ استوار ہوا۔ کافی دیر سے منتظر سامعین کی سماعتیں جس لمحے کی منتظر تھیں وہ لمحہ آگیا اور پورا ہا ل شعراء کے استقبال میں تالیوں سے گونج اٹھا۔ مندرجہ ذیل شعراء نے اپنا کلام پیش کیا:

راقم اعظمی

باز آجا مجھے نظروں سے گرانے والے

ورنہ اوقات دکھادیں گے دکھانے والے

میری تاریخ سے کھلواڑ کیا ہے تونے

تیری تاریخ مٹا دیں گے مٹانے والے

منصور اعظمی

یہ نفرتوں کی گھٹا آؤ روک لیں مل کر

یہ شہر امن ہمارا بھی ہے تمہارا بھی

یہ دوستی کا نبھانا بھی سہل کام نہیں

ہے فائدہ بھی بہت اس میں اور خسارہ بھی

عارف علی عارف

ہم نظر دوربین رکھتے ہیں، دوست اعلي ترین رکھتے ہیں

حاکم وقت کا بھروسہ کیا، ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں

کبھی جو سوچنے بیٹھو تو خواب لگتا ہے

کہ باوجود غریبی کے برکتیں تھیں بہت

بسمل عارفی

تم آنکھوں کو دریچہ دل کو دریا کیسے کرتے ہو 

بتاؤ بیٹھے بیٹھے یہ کرشمہ کیسے کرتے ہو

بڑے استاد ٹھہرے تم کہو تاریک راتوں میں

میسر جب نہ ہو یادیں اجالا کیسے کرتے ہو

شاداب اعظمی

بہت روئی ہیں آنکھیں اس لئے دامن مرا نم ہے

تمہیں اپنا نہیں پایا مجھے اس بات کا غم ہے

میں خود کوبیچ ڈالوں پھر بھی تمکو پانہیں سکتا

میں اک مفلس کا بیٹا ہوں  یہا ں قیمت مری کم ہے

احمد اشفاق

جتنی ہم چاہتے تھے ا تنی محبت نہیں دی 

خواب تودے دئے اس نے مگر مہلت نہیں دی

اسکی خاموشی مری راہ میں آبیٹھی ہے   

میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی

شوکت علی ناز

مغرور و خودنما کبھی خودسر کہا گیا

میں موم تھا مگر مجھے پتھر کہا گیا

تالے مری زبان پر لٹکادیئے گئے

پھر اس کے بعد مجھکو مکرر کہا گیا

ڈاکٹرعنبر عابد

لفظ ہیں چہرۂ گل پہ مرے شبنم کی طرح  

ترے زخموں کا مداوا کسی مرہم کی طرح

پہلے ہاتھوں کی لکیروں کو مٹایا میں نے 

تب کہیں جاکے یہ آنچل ہوا پرچم کی طرح

اعجازاسد

کسی گھر کا بہت نقصان ہوتا ہے

  تو دولت مند کا سامان ہوتا ہے

اگر اندرون دل ایمان ہوتا ہے

تو پھر جینا بڑا آسان ہوتاہے

عمران عامی

بے کار تعلق کو نبھانے میں لگے ہیں

خود خاک ہیں اور خاک اڑانے میں لگے ہیں

میں زندہ سلامت کسی حجرے میں پڑاہوں

اور لوگ مرا عرس منا نے میں لگے ہیں

فوزیہ رباب

تم بھی اس شہر سے ڈر جاتے ہو حد کرتے ہو

دیکھ کر مجھ کو گزر جاتے ہو حد کرتے ہو

میں نے  ہر بار بھروسہ تو کیا ہے تم پر

تم ہو ہر روز مکر جاتے ہو حدکرتے ہو

ہاشم فیروز آبادی

مرا چراغ ہوا کے خلاف جلتا ہے

اسی لئے توزمانے کو آج کھلتا ہے

اسی کو کھلنے لگی روشنی مرے گھرکی

مرے چراغ سے جس کا چراغ جلتا ہے

پروفیسر مینو بخشی

بت کی مانند نہ اپنے کو بنائے رکھنا       

جس جگہ رہنا  وہاں دھوم مچائے رکھنا

خودکودریا میں نہ قطروں سے ملائے رکھنا      

منفرد ہونے کا احساس دلائے رکھنا

حسن کاظمی

غم کا کوئی بھی بادل دیر تک نہیں رہتا   

آنسؤوں کا گنگا جل دیر تک نہیں رہتا

خاک کے ہیں سب پتلے سب کو ٹوٹنا ہوگا

شاخ پر تو کوئی پھل دیر تک نہیں رہتا

پروگرام تاریخی اور بے حد کامیاب رہا۔پورا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ شعرا ء نے خوب داد و تحسین وصول کی۔ پروگرام کی ابتداء8 بجے ہوئی اور ڈیڑھ بجے شب اسکا اختتام ہوا۔ یہ ایک یادگار پروگرام رہا  جسے قطر کے باذوق سامعین کافی عرصے تک یاد رکھیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔