ادب اطفال اور’گیت گاگر‘ کے خالق محمد افضل خاں

محسن با عشن حسرت

نئی نسل کے آتے ہی نئی ٹکنالوجی نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے آج سے چالیس پچاس سال قبل جو صورت حال تھی وہ بہت حد تک بدل چکی ہے۔ اس زمانے میں موبائل اور کمپیوٹر کی اس قدر مانگ نہیں تھی، لیکن آج وقت بدل چکا ہے نئے زمانے کے ساتھ نئی نئی ایجادیں سامنے آرہی ہیں ۔

 ہمارے بچے پہلے اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اس لئے اردو کا جاننا نہایت ضروری ہوجاتا تھا۔ آج ہم اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں ۔ والدین سے پوچھے جانے پر ان کا جواب ہوتا ہے۔ انگلش میڈیم اسکول ہر لحاظ سے بہترہے اسکول کا ماحول صاف ستھرا ہوا کرتا ہے استادتعلیم یافتہ اور قابل ہوتے ہیں جو بچوں کو سنجید گی سے پڑھاتے ہیں لہٰذا بچے بھی دل لگا کر اور تو جہ کے ساتھ پڑھائی کرتے ہیں ۔ اس لئے ہر سال نتیجہ بھی اچھا نکلتا ہے لیکن یہ ساری باتیں اردو میڈیم اسکولوں میں اب نظر نہیں آتیں ، لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے یہ قدم اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘ ان کا یہ کہنا ایک حد تک صحیح بھی لگتا ہے۔

پہلے ہمارے بچوں کی تعلیم کا تناسب ایک اندازے کے مطابق کچھ اس طرح تھا۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں اگر ہمارے ۳۰؍فیصد بچے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے تو ۷۰؍ فیصد انگلش میڈیم اسکولوں میں جب کہ آج  اس کے بالکل برعکس ہے یعنی ۷۰؍ فی صد انگلش میڈیم اور ۳۰؍ فی صد اردو میڈیم اسکولوں میں ۔

انگلش میڈیم اسکولوں میں ہمارے بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کا اب یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ ہمارے زیادہ تر بچے اردو سے نا بلد ہوتے جا رہے ہیں ۔ والدین انہیں اردو کی تعلیم گھر پر دلوانا چاہتے ہیں لیکن انہیں وقت بالکل نہیں ملتا۔

 درج بالا تمہیدی باتوں کی روشنی میں آئیے اب ہم بچوں کے ادب کی جانب تو جہ کرتے ہیں۔ ادب اطفال کی بات جب سامنے آتی ہے تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آج جو ادب اطفال کی صورت ہے کیا یہ آئندہ اسی طرح سے قائم رہ پائے گی۔

  ہم ادباء و شعرا کو اس موضوع پرنہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج تک ادب اطفال کو ہمارے ادباء اور شعرا شاید غیر ضروری ادب سمجھ کر نظر انداز کرتے آئے تھے اور جب بھی بچوں کے ادب کی بات ہوا کرتی تھی تو مضمون نگار یہ کہتے ہوئے اپنے مضمون کو اختتام تک پہنچاتا تھا کہ اردو ادب میں بچوں پر کوئی خاص کام نہیں ہو پایا ہے اس وقت تک ان کا یہ کہنا کسی حد تک درست بھی تھا۔ صحیح معنوں میں ہمارے ادباء و شعرا ادب اطفال کی جانب تو جہ نہیں دے رہے تھے جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ اسے بچکانہ ادب سمجھ کر نظر انداز کر رہے تھے۔ لیکن ۲۰۰۰ء کے بعد سے بحر ادب اطفال میں جیسے سونامی کیفیت سی پیدا ہو گئی۔۲۰۰۰ ء سے پہلے بچوں کے شاعر کو ہم انگلی پر گن لیا کرتے تھے لیکن آج کی تاریخ میں ہم ادب اطفال کے ادباء و شعرا کو انگلیوں پر نہیں گن پائیں گے۔ اب کوئی مضمون نگار یہ نہیں لکھے گا کہ اردو میں ادب اطفال کا خزانہ خالی خالی سا ہے۔ اب ہم ہمارے ادب اطفال کو دوسری زبانوں کے ادب اطفال کے سامنے فخریہ پیش کر سکیں گے۔

 آج بچوں کے ادب پر اچھا خاصا کام ہو رہا ہے۔ مغربی بنگال کے ادباء شعراء کی تخلیقات مقامی اور بیرونی اخبارات اور جرائد میں پابندی کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ صرف یہی نہیں ادباء شعرا اپنی تخلیقات کو محفوظ کرنے کے خیال سے نثری اور شعری مجموعے بھی شائع کر رہے ہیں ۔ ان سترہ سالوں میں درجنوں کتابیں شائع ہو کر ادب اطفال کے خزانے میں بیش بہا اضافہ کر چکی ہیں کتابوں کی اشاعت کے لئے مختلف ادارے بھی ادباء و شعرا کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ۔

 مغربی بنگال اردو اکاڈمی جہاں مختلف موضوعات کی کتابوں کی اشاعت کے لئے اپنا تعاون دے رہی ہے وہیں ادب اطفال کے تعلق سے بھی ادباء شعراء کو ہر طرح سے اشاعتی تعاون فراہم کر رہی ہے۔ مغربی بنگال کے ادباء و شعرا کی یہ خوش نصیبی ہے کہ انہیں مغربی بنگال اردو اکاڈمی عزت کے ساتھ اعزاز سے بھی نواز رہی ہے۔ ہم اکاڈمی کے اس اقدام کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے۔

 مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے تعاون سے ہر سال درجنوں کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آرہی ہیں ، ان کتابوں میں دوچار کتابیں ادب اطفال کے تعلق سے بھی ہوا کرتی ہیں ۔ پچھلے سال یعنی۲۰۱۶ء میں اکاڈمی کے نجی اشاعت اسکیم کے تحت بچوں کے ادب پر ایسی ہی ایک کتاب آئی اور ادب اطفال کے خزانے میں چپکے سے اضافہ کر گئی۔ کتاب کا نام ہے ’’گیت گاگر‘‘ جس کے شاعر ہیں محمد افضل خان۔ افضل صاحب کا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے وہ بھی ادب اطفال پر۔

افضل صاحب کی شاعری کی ابتدا ۲۰۰۰ء میں ہوئی ان کی شعری تخلیقات اکثرو بیشتر اخبارات اور رسائل میں نظر سے گزرتی رہتی ہیں ۔ افضل صاحب مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی نثری چیزیں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔

  ’’گیت گاگر‘‘۹۶ صفحات پر مشتمل بچوں کا ایک خوبصورت اور حسین مجموعہ ہے۔ انتساب حضرت علقمہ شبلی اور حضرت قیصر شمیم کے نام کیا گیا ہے۔ شاعر نے دو بزرگ ہستی کو انتساب میں شامل کر کے ان سے اپنی عقیدت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔’’گیت گاگر‘‘ میں حمد اور بسم اللہ کے علاوہ ۴۱؍ نظمیں ، پہیلیاں اور چند متفرق اشعار شامل ہیں ۔

  ’’حمد‘‘ کے ذریعہ ہم اللہ کی تعریف کرتے ہیں اور بسم اللہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اسلامی نیاسال پڑھتے ہیں تو ٹکیہ پاڑہ پر پہنچ کر رکتے ہیں پھر پہیلیاں اور متفرق اشعار پر نظر ڈالتے ہیں اورپھر شاعر کے سوانحی اشارے پر گویا کتاب ختم کر نے کے بعد ہی دوسرے کام کی طرف متو جہ ہوتے ہیں یہی ہوتی ہے کسی اچھی اور معیاری کتاب کی پہچان کہ وہ قاری کو نہ چھوڑے اور قاری کتاب کو۔ یہ خاصیت اگر کتاب میں ہے تو پھر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتاب کا معیار کیسا ہوگا۔

   شاعر نے اس مجموعے میں بچوں کی عمر کے لحاظ سے نظموں کا انتخاب کیا ہے ان کی دلچسپی کا بھی خیال رکھا ہے۔ نئے نئے عنوانات اور موضوعات کے تحت اچھی اچھی، معیاری اورپیاری نظمیں پیش کی ہیں ۔ زیادہ تر نظمیں مختصر ہیں یعنی نظموں میں اشعار کم ہیں یہ ایک طرح سے اچھی پیش کش ہے۔ عام طور سے بچے طویل چیزوں کی طرف کم مائل ہوتے ہیں ۔ مجموعے میں جہاں بڑی بحر کی نظمیں شامل کی گئی ہیں وہیں چھوٹی بحروں کی بھی نظمیں موجود ہیں۔

  نظمیں چاہے بڑی بحر میں ہوں یا چھوٹی بحر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن شاعروں کو بچوں کی پسند، معیار اور مزاج کا خیال رکھنا ہر لحاظ سے ضروری ہوجاتاہے۔ نظموں میں ہلکے پھلکے الفاظ ہوں توبچے اشعار آسانی اور روانی کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں ۔ محمدا فضل خان نے اپنی نظموں میں ان تمام باتوں کا خاص خیال رکھا ہے۔

  مجموعے میں کئی نظموں کے عنوانات نئے اور چونکا دینے والے ہیں جنہیں دیکھ کر بچے ان نظموں کو پہلے پڑھنا پسند کریں گے۔ جیسے ’’سومو پہلوان‘‘، ’’چاند کے آنگن میں کھیلیں ‘‘،’’ آیس کریم‘‘، ’’ثانیہ مرزا‘‘، ’’تو دھرتی کا چاند‘‘ اور ’’واٹس ایپ‘‘ وغیرہ ان کے علاوہ نظموں کے ایسے عنوانات بھی ہیں جو عام طور سے زیادہ تر شاعروں کے مجموعے میں نظر آجاتے ہیں ۔ جیسے ’’ماں ‘‘، ’’ریل‘‘ ’’ترنگا‘‘،’’ کوئل‘‘،’’ تتلی‘‘،’’ ساون‘‘،’’ سردی‘‘،’’ نیا سال‘‘، ’’چڑیا‘‘، ’’نیک لڑکا‘‘، ’’بر سات‘‘ اور’’ عید‘‘ وغیرہ۔ بہر حال عنوانات پرانے ہیں تو کیا ہوا۔ خیالات تونئے ہیں انداز تو نیا ہے۔ افضل صاحب نے کوشش یہی کی ہے کہ ان عنوانات کے تحت عام شاعروں سے ہٹ کر اشعار ہوں اور کچھ نئے طرز کے ہوں اس سعی میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔ مجموعے میں شامل دو چار نظمیں سپات اور غیر معیاری بھی ہیں لیکن بقیہ نظموں کا جواب نہیں معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی حیثیت کی بھی حامل ہیں ۔

  ’’ ماں کی عظمت‘‘، ’’ریل چلائیں ‘‘،’’ کوئل‘‘، ’’ تتلی‘‘، ’’آئس کریم‘‘، ’’ساون آیا‘‘، ’’سردی کا موسم‘‘، ’’وعدہ‘‘، ’’بچوں کا پیغام‘‘،’’ پیڑوں کونقصان نہ پہنچے‘‘،’’ بر سات‘‘ اور’’ ماں سے پیار‘‘ یہ تمام ایسی نظمیں ہیں جن میں بچوں کو نصیحتیں کی گئی ہیں ۔ پیغام دیا گیا ہے اور اچھی بری باتوں سے متعلق جانکاری دی گئی ہے۔

ماں کا درجہ کتنا بلند ہے بچوں کو یہ بتانے اور سمجھانے کے لئے شاعر نے ’’ماں کی عظمت‘‘ جیسی نظم کی تخلیق کی ہے۔ بچوں کے دلوں میں اتحاد اور ہمدردی پیدا کرنے کے لئے ’’ریل چلائیں ‘‘ ایک  بے مثال نظم ہے۔ اس نظم کی بحر اتنی رواں اور سہل ہے کہ اگر بچے اسے دو چار دفعہ پڑھیں گے تو بہ آسانی انہیں یاد ہوجائے گی۔ کوئل اور تتلی چھوٹی بحروں میں کہی گئی عمدہ نظمیں ہیں ۔ نظموں میں شاعر نے دونوں کی صفات بیان کی ہیں ۔ بچوں کو یہ دونوں نظمیں بھی یقینا پسند آئیں گی۔ ’’ساون آیا‘‘، ’’سردی کا موسم‘‘ اور’’ برسات‘‘ بڑی پیاری نظمیں ہیں ، تینوں نظموں میں شاعر نے موسم کے حسن کا بالکل صحیح نقشہ کھینچا ہے۔ نظم برسات کا یہ شعر خاص طور سے بہت پیارا لگا   ؎

 نکل آئے گھر سے بہانے بنا کر

 بہت خوش ہیں بارش میں بچے نہا کر

  نظم ’’وعدہ‘‘ میں ایک بچہ اپنے ابو سے وعدہ کرتا ہے کہ بڑا ہو کر وہ کیا کیا کام کرے گا۔ کوئی بچہ اگر ایسا سوچتا ہے تو وہ یقینا قابل تعریف ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔’’پیڑوں کو نقصان نہ پہنچے‘‘نظم میں شاعر نے بچوں کو اچھی نصیحت کی ہے۔ پیڑ کے بہت سارے فوائد ہیں ، پیڑ انسان دوست ہوتے ہیں انہیں ہر حال میں بچانا ہے۔ بچوں کو شاعر کی نصیحت یاد رکھنی ہے۔ نظم ماں سے پیار میں ایک بچے کی تمنا اور ماں کے تئیں اس کی چاہتوں کو بہت ہی دل نشیں پیرائے میں اجاگر کیا گیا ہے۔ نظم ’’بچوں کا پیغام‘‘ میں شاعر نے بچوں کو بھر پور نصیحت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ بچوں کو چاہئے کہ تمام باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور شاعر نے جو جو نصیحتیں کی ہیں ان پر عمل کرنے کی ٹھان لیں ۔ ویسے نظم کا عنوان بچوں کا پیغام نہ رکھ کر ’’بچوں کو نصیحت‘‘ رکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مجھے امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ’’گیت گاگر‘‘ میں شامل نظموں کو بچے ضرور پسند کریں گے۔

 مجموعے میں کتابت کی بہت ساری غلطیاں راہ پا گئی ہیں جو طبیعت پر گراں گزرتی ہیں ۔ پروف ریڈنگ اگر صحیح ڈھنگ سے کی جاتی تو ایسی فاش غلطیاں نہ ہو پاتیں ۔ غلطیوں سے قطع نظر کتاب بہت عمدہ چھپی ہے۔

 محمد افضل خان کا ایک اورمجموعہ (بچوں کی نظموں کا انتخاب) زیر ترتیب ہے۔ میں ان سے گزارش کروں گا کہ اسے مجموعے کی پروف ریڈنگ اچھی طرح کر وائی جائے تا کہ کوئی بھی لفظ غلط نہ ہوپائے۔

 بہرحال افضل خان کو’’ گیت گاگر‘‘ کی اشاعت پر میں اپنی جانب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ ان کا آئندہ مجموعہ جلد ہی منظر عام پر آئے میری تمام تر نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔