کیا ہمارے لئے نبی کریم ﷺ کی سنّتیں کافی نہیں؟

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

 تاریخ عالم پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے اللہ رب العزت نے ہر دور میں دو ذرائع استعمال فرمائے ہیں ؛ایک تو اپنی کتابیں اور صحائف نازل کئے جس میں انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق احکام ہوتے تھے اور دوسرے اپنے منتخب بندوں کو بھیجا جو عام انسانوں تک نہ صرف ان نازل شدہ احکام کو پہنچائے اور انہیں سمجھنے میں ان کی مدد کرے بلکہ ان کے لئے خود کو عملی نمونہ بناکر پیش کرے۔ نیز عام انسانوں کے لئے یہ لازم کیا گیاکہ وہ اپنی حقیقی فلاح و کامیابی کے لئے اللہ کے احکام کو وقت کے نبی کے طریقے پر پورا کریں اور تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اس شرط کو پورا کردیا، وہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوئی اور جس نے اللہ کے احکام اور نبی کے طریقے سے منہ موڑ ا و ہ ذلت ورسوائی سے دوچار ہوئی اوردنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت اور عذاب ان کا مقدر بنی۔ اسی ضابطہ کے تحت اس آخری امت کے لئے بھی اللہ رب العزت نے قرآن حکیم جیسی نادر کتاب نازل فرمائی اور نبی کریم ﷺ جیسی عظیم شخصیت کو مبعوث فرمایااور قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو فلاح و کامیابی کے حصول کے لئے اپنی کتاب اوراپنے محبوب رسول ﷺ کی سنت کا پابند کیا۔چنانچہ ارشاد فرمایا:{وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ}’’اور یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے برکت والی پس اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ (الانعام:۱۵۵)۔اور فرمایا:{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ہ}ترجمہ’’ یقینا تمہارے لئے ہے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ، (ہر) اس شخص کے لئے جو اللہ اور روز آخرت پر امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے‘‘۔ (الاحزاب: ۲۱)۔نبی کریم ﷺ نے بھی امت کو ہدایت پر باقی رہنے کے لئے کتاب و سنت کی پابندی کی تلقین کی۔ارشاد فرمایا: ’’تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا کِتَابَ اللّٰہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیِّہِ‘‘ یعنی ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، نہیں گمراہ ہوگے جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھوگے؛ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی ؐ کی سنّت‘‘۔(امام مالکؒ،موطا، کتاب القدر، باب النھی عن القول بالقدر)۔

 لیکن نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ امت مرحومہ نے ان سب ہدایات کو بالائے طاق رکھ دیا اور افراط و تفریط کا شکار ہوگئی، الا ماشاء اللہ۔ ایک طرف تو ہم نے یہ ظلم کیا کہ کتاب و سنت سے اپنا ناطہ توڑ لیا، ارکان دین اور اللہ کے قائم کردہ حدود کی بھی پرواہ نہ کی تو دوسری طرف اس کو راضی کرنے کے لئے از خود ایسے اعمال گھڑلئے جن کی کوئی اصل شریعت محمدیہ ﷺ میں موجود نہیں۔ پھران بدعات اور خرافات ہی کو ہم نے شعائر دین کا درجہ دے دیا۔ یہ بات تھوڑی تلخ معلوم ہوتی ہے لیکن ایک حقیقت ہے اوردور حاضر میں شرک و بدعات کا جس تزک و اہتمام سے مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ کم از کم اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ علم کی کمی، خواہشات نفسانی کی اتباع، کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی نقالی، اور اندھی تقلید نے شرک و بدعات کے بازار کو گرم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان سب کے علاوہ طاغوتی حکومتیں بدعات کے فروغ اور ان کے نشر و اشاعت میں مختلف طریقوں سے امداد پہنچارہی ہیں کیونکہ اس سے اسلام کی صورت مسخ ہوتی اور بالآخر حقیقی اسلام کا خاتمہ ہوتا ہے جو ان کا منتہائے مقصود ہے۔ بدعات کی نشر و اشاعت اور دعوت اس اہتمام سے دی گئی اور انہیں اس طرح مزین کرکے پیش کیا گیا کہ بعض حق پرست علماء بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے اور ان کے جواز کے حیلے تلاشنے لگے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد صراحتاً موجود ہے : ’’کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار‘‘ یعنی (دین میں ) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔(سنن نسائی، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب کیف الخطبۃ،بروایت جابر بن عبداللہؓ)۔ برعکس اس کے جس اہتمام اور قوت سے سنت کی دعوت دیجانی چاہیے تھی اور بدعات کا رد کیا جانا چاہیے تھا اس درجہ سے یہ کام نہیں کئے گئے (چند علماء حق کی انفرادی کوششیں اس سے مستثنیٰ ہیں ) جس کے نتیجے میں بدعات کو فروغ ملتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب سنت کی دعوت اور بدعات کا رد کرنے والے ہی مشکوک نگاہوں سے دیکھے جارہے ہیں۔ پیارے نبی ﷺ کی سنتیں ہی اجنبی معلوم ہونے لگیں اور آپ ؐ کے قول ’’ بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْباً وَ سَیَعُوْدُ غَرِیْباً فَطُوبَی لِلْغُرَبَائِ ‘‘ کہ ’’ ابتداء میں اسلام اجنبی تھا اور عنقریب پھر اجنبی (غیر معروف) ہوجائے گا پس خوشخبری ہے بیگانہ بن کر رہنے والوں کے لئے ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، بابدأ الاسلام غریبا، بروایت ابوہریرہؓ) کی تعبیرظاہر ہوگئی۔

  جاننا چاہیے کہ اسلام رسول اللہ ﷺ کے اوپر مکمل ہوچکا اور{ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً}’’ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو (بحیثیت) دین پسندکرلیا۔‘‘ ( المائدہ:۳) کا مژدہ سنایا جا چکا ہے لہٰذا بقول امام مالکؒ جو کام رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں دین نہیں تھا وہ آج بھی ہمارے لئے دین نہیں ہوسکتا۔ہماری دنیوی و اخروی فلاح کے لئے جن عقائد و اعمال کی ضرورت تھی اللہ کے رسول ﷺ نے وہ سب ہم تک پوری دیانتداری کے ساتھ پہنچا دیا اور نعوذ باللہ اس میں کوئی خیانت نہیں کی کہ اب ان کی تلاش کی ضرورت پیش آئے۔اب جو لوگ دین میں نئی نئی باتیں نکال رہے ہیں وہ گویا اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ دین مکمل نہیں ہو ا اور اس کی تکمیل اب ان کے ہاتھوں ہورہی ہے جب کہ اللہ کے حبیب ﷺ کا ارشاد ہے: ’’من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد‘‘ یعنی ’’ جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی نئی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب ٰٰاذا الصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،بروایت عائشہؓ)۔امام مسلمؒ نے حضرت عائشہؓ سے ہی یہ روایت بھی نقل کی ہے:’’من عمل عملا لیس علیہ  أمرنا  فھو رد‘‘ یعنی ’’جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ نامقبول ہے‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلہ و ردمحدثات الأمور)۔اور آپؐ سے یہ ارشاد بھی منقول ہے:’’فان خیر الحدیث کتاب اللّٰہ و خیر الھدی ھدی محمد و شر الامور محدثاتہاو کل بدعۃ ضلالۃ ‘‘ یعنی ’’ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں ( یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے ‘‘۔( صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ، بروایت جابر بن عبداللہؓ)۔اللہ کے رسولﷺ کے ان واضح ارشادات کے باوجود دین کے اندر نئی باتیں اور نئے طریقے نکالنا، ان سے کسی بھی قسم کے خیر کی امید کرنا اور ان کے اہتمام میں اسلام کی شان و شوکت کا اظہارہونا سمجھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟

 یہ بھی جاننا چاہیے کہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی اتباع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس ضابطہ کو واضح کر رکھا ہے۔ ارشاد ہے:{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہ}یعنی اے نبیﷺ ’’آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گااورتمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(آل عمران ۳:۳۱)۔یعنی اپنی محبوبیت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی سنت کی اتباع کے ساتھ مشروط کردیا ہے اور اس پرگناہوں کے مغفرت کی بشارت بھی دی ہے۔ محبت نبویﷺ جو کہ تکمیل ایمان کے شرائط میں سے ہے کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ آپؐ کی سنتوں کی محبت ا ور وقعت ہمارے دل میں ہو اور جب کوئی حکم یا طریقہ ہمیں رسولﷺ کی طرف سے صحیح طور پر مل جائے تو اس کی تعمیل اور اتباع میں ہمیں ذرا تا مل نہ ہو۔ سنتوں کو اختیار کرنا اور ان کو زندہ کرنے کی فکر کرنا ہی محبت نبویﷺ کی صحیح علامت ہے صرف زبانی دعوائے محبت کا فی نہیں۔ آپﷺسے اس سلسلہ میں یہ ارشاد منقول ہے:  ’’و من أحیا سنّتی فقد احبّنی و من احبّنی کان معی فی الجنۃ ‘‘ یعنی ’’ جس نے میری سنت کو زندہ کیاگویا کہ اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا‘‘۔(ترمذی،کتاب العلم،باب الاخذ بالسنۃ و اجتناب البدعۃ، بروایت انس رضی اللہ عنہ)۔اس کے برعکس رسول پاک ﷺاپنی سنتوں سے اعراض کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں : ’’ فمن رغب عن سنّتی فلیس منّی‘‘یعنی ’’جو میری سنت سے اعراض کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح،باب استحباب النکاح لمن استطاع، بروایت انس رضی اللہ عنہ)۔

 یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ سنت کی بھی وضاحت کردی جائے۔سنّت عربی کے لفظ ’’السُنَّۃُ ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس کا لغوی معنی ہے ’’ طریقہ خاص، اصول مقررہ، ضابطہ، طرز عمل، روش زندگی یا سیرت، فطرت، عادت وغیرہ‘‘۔ اس کے لئے عربی میں لفظ’’ الھَدْیُ ‘‘ کا استعمال بھی رائج ہے جس کا لغوی معنی بھی سیرت، نقش قدم یا طریقہ کے ہی آتے ہیں، اس لئے حدیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ د ینی اصطلاح میں ’’سنت‘‘ نبی کریم ﷺ کے طریق عمل اور طرز زندگی کو کہتے ہیں جو قرآنی نظام حیات کی عملی تفسیر و تعبیر ہے اور احادیث و آثار صحیحہ سے ثابت ہے۔یہ ظاہر ہے کہ اس طرز حیات کے عینی شاہد اوررسول اللہ ﷺ سے براہ راست عملی تربیت حاصل کرنے والی جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت تھی، اس لئے ان کی روش زندگی بھی راہ ہدایت قرار پائی۔آپؐ نے اپنی اور اپنے صحابہ کی سنت کو ہی راہ نجات قرار دیا۔ عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ بنی اسرائیل کے اکہتر فرقے بن گئے تھے جب کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی جو ایک کو چھوڑ کر سب کے سب جہنم میں جائیں گے، اس پر یہ پوچھا گیا کہ وہ ایک کون سا ہوگا ؟ فرمایا : ’’ ما أنا علیہ الیوم و أصحابی‘‘ یعنی ’’وہ جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں ‘‘۔ ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب العلم)۔ اس لئے اہل سنت و الجماعۃ کی جو اصطلاح رائج ہے اس میں ’’جماعت‘‘ سے مراد ’’ جماعت صحابہؓ  ‘‘ ہے اور اس کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جن کے اعتقادات، عبادات، اصول حیات، اخلاقیات، معاملات اور معاشرت کا محور نبی کریم ﷺ کی سنت صحیحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثر مبارک ہو۔پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں خلفاء راشدین کا خاص مقام ہے، اس لئے ان کی سنتوں کو لازم قرار دیا گیا۔ آپ ؐ نے وصیت فرمائی تھی کہ ’’  جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین (ہدایت یافتہ) کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں ) سے مضبوط پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہوکیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ (سنن ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، بروایت حجر بن حجر بحوالہ عرباض بن ساریہؓ )۔پیارے نبیﷺ کی ان ہدایات کی اگر تھوڑی بھی وقعت دل کے اندر ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین خصوصاً خلفاء راشدین کی سنتوں تک ہی خود کو محدود رکھیں اور اس سے تجاوز نہ کریں۔ اصحاب رسول ﷺ ایمان، علم، تفقہ،تقویٰ، فکر آخرت، حب رسول ﷺ و جانثاری، اخلاق و کردار ہر اعتبار سے اس امت کے بہترین افراد تھے جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی ترویج و اشاعت کے لئے چن لیاتھا اور انہیں رضی اللّٰہ عنھم و رضوا عنہ (راضی ہوا  اللہ ان سے اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ) کا مژدہ دنیا ہی میں سنا دیا تو ان سے زیادہ ہدایت پر اور کون ہوسکتا ہے اور جب ان کے طریقوں میں کامیابی اور نجات کی ضمانت مل گئی تو دوسروں کے طور طریقوں کو اپنانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟

 خودصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بدعات کے سلسلہ میں احتیاط بھی قابل توجہ اور قابل اتباع ہے۔ ’عبداللہ بن عمرؓ کی موجودگی میں ایک آدمی نے چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہکہا تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس پر رد کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ کہنے کی تعلیم دی ہے، نہ کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ کی۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب الأدب)۔غور کیجئے کہ یہ کس درجہ کا احتیاط ہے ؟ایک مسنون دعا میں تبدیلی رسول پاک ﷺ پر سلامتی کے الفاظ کے ساتھ کی گئی تھی لیکن پھر بھی عبداللہ بن عمرؓ نے اس کا رد کیا۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ نعوذ باللہ گستاخ رسول تھے؟ اسی طرح عبداللہ بن مسعودؓ نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ حلقوں میں بیٹھ کر اجتماعی طور پر کسی ایک شخص کی ہدایت پرکنکریوں پر سو سو مرتبہ تسبیح (سبحان اللّٰہ)، تہلیل (لا الٰہ الا اللّٰہ) اور تکبیر (اللّٰہ اکبر) پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے انہیں بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولنے والا قرار دے کر ملامت کیاجبکہ ان لوگوں نے اللہ کی قسم کھا کر انہیں (یعنی عبداللہ ابن مسعودؓکو) یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ ان کا ارادہ صرف بھلائی کا تھا۔( دیکھیں سنن دارمی، با ب فی کراھیۃ أخذ الرأی،نوٹ: راقم نے طوالت سے بچنے کے لئے اس روایت کو من و عن نقل نہیں کیاہے)۔ذرا غور کیجئے کہ ان کلمات میں کیا برائی تھی لیکن چونکہ ان کا پڑھنا انفرادی طور پر ثابت ہے اجتماعی طور پر نہیں اس لئے عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے بدعت قرار دے کر اس کا رد فرمایا۔اس اثر سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ عبادت کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنایا ثابت شدہ عبادتوں میں اپنی طرف سے حدود و قیود متعین کرنا اور نئی شرطیں عائد کرنامثلاًان کی ادائیگی کو کسی خاص وقت یا طریقہ سے مخصوص کرنا جسے شارع نے نہیں کیاشریعت محمدیہ ﷺ میں ترمیم و تحریف کے مترادف ہے اور باعث ضلالت و گمراہی ہے۔اسی لئے عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سخت نوٹس لیا۔کیا کسی کو عبداللہ بن مسعودؓ کی فقاہت پر شک و شبہ ہوسکتا ہے؟ یہ وہ عبداللہ بن مسعودؓ ہیں جن کو رسول پاک ﷺ کی حیات میں ہی فتوے دینے کا اختیار ملا ہو ا تھا اور جن کے بیشتر اقوال پر ہی حنفی فقہ کی بنیاد ہے۔انہیں عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: ’’اتبعوا و لا تبتدعوا فقد کفیتم‘‘ یعنی ’’(سنّت کی ) اتباع کرو اور بدعت مت نکالو،تمہیں یہی کافی ہے‘‘۔(سنن دارمی، با ب فی کراھیۃ أخذ الرأی، بروایت عبد الرحمٰن)۔انہوں نے یہ بھی فرمایا: ’’القصد فی السنۃ خیر من الاجتھادفی البدعۃ ‘‘یعنی ’’سنّت میں درمیانی چال چلنا، بدعت میں بہت کوشش کرنے سے بہتر ہے‘‘۔(سنن دارمی، با ب فی کراھیۃ أخذ الرأی، بروایت عبد الرحمٰن بن یزید)۔ظاہر ہے جو چیز اللہ کے نزدیک غیر مقبول ہو اس میں بہت زیادہ مجاہدہ کرنے کا بھی کیا فائدہ ہے۔

 اب زیر بحث مسئلہ پر ذرا ان کی بھی رائے معلوم کرلیں جن کا نام لے لے کر ابلیس کے آلہ کار دنیا پرست علماء اور اولیاء و صوفیاء کا لبادہ اوڑھنے والے جہلانے دین کے اندر کیا کیا خرافات پیدا کردیں۔ راقم کی مراد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ہے۔وہ فرماتے ہیں :’’ہر دانش و عاقل صاحب ایمان کو چاہیے کہ وہ سنت رسول ؐ کی اطاعت کرے، بدعات سے راہ فرار اختیار کرے، دین میں مبالغہ،غلو تکلف و عمق سے احتیاط کرے مباداکہ صراط مستقیم سے گمراہی کے ساتھ پھسل کر ہلاک ہوجائے‘‘۔ (غنیۃ الطالبین اردو، نعمانی کتب خانہ، لاہور، صفحہ ۲۰۴)۔ آگے فرماتے ہیں : ’’ہرصاحب ایمان پرسنت رسول ؐ اور جماعت کی پیروی کرناضروری ہے۔سنت سے مراد رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے اور جماعت کی پیروی سے مرادخلفائے اربعہ کے ادوار کے متفقہ مسائل ہیں۔ بدعتیوں سے بحث و مباحثہ، رکھ رکھاؤ،دعا سلام درست نہیں۔ ‘‘ (ایضاً)۔ ایک جگہ بدعات کے فروغ کے اسباب میں سے ایک بڑے سبب کا قلع قمع کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ ان صلحاء و اولیاء کے اقوال و افعال کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی طرف توجہ کرنا چاہیے کیوں کہ احادیث ہی باعث اعتماد ہیں جن پر عمل کرکے انسان کو دوسروں (یعنی حدیث کے مقابلہ میں بزرگوں کے اقوال و افعال کو ترجیح دینے والوں ) سے ممتاز ہوجانا چاہیے‘‘۔ (ایضاً، صفحہ ۴۹۴)۔ یہاں عربی عبارت بھی نقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ کسی کو ترجمہ میں خیانت کا شبہ نہ ہو۔ عبارت اس طرح ہے: ’’و لا ینظرالی أحوال الصالحین (و أفعالھم) بل الی ما روی عن الرسول و الاعتماد علیہ حتی یدخل العبد فی حالۃ ینفرد بھا عن غیرہ‘‘۔یہ ظاہر ہے کہ ترجمہ میں الفاظ کے انتخاب میں مترجم کی زبان دانی کا اہم رول ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی دوسرا شخص اس عبارت کا ترجمہ کرے توالفاظ بدل جائیں گے مثلاً اس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے :’’ صالحین (علماء و مشائخ )کے احوال وافعال کو پیش نظر نہ رکھا جائے بلکہ اس چیز کو پیش نظر رکھا جائے جو آنحضرت ؐ سے مروی ہے اور اسی مروی (حدیث) پر اعتماد کیا جائے حتیٰ کہ ( اس طرح کرنے سے) کوئی شخص اس حال کو پہنچ جائے جو اسے دوسروں سے منفرد ہی کیوں نہ کردے‘‘۔ لیکن اس میں کوئی تردد نہیں کہ عبارت اسی خیال کی ترجمانی کر رہی ہے جو اوپر گزری۔ حقیقت یہ ہے کہ کتنا ہی بڑا عالم، فقیہ اور ولی اللہ کیوں نہ ہو علمی، تحریری، تقریری اور عملی سہو سے کوئی بھی مبرا نہیں سوائے رسول اللہ ﷺ کی ذات اطہر کے اور صوفیاء سے تو غلبہ حال میں قولی و عملی سہو کی سیکڑوں مثالیں ہیں، تو انسان اگر ان کی اتباع ان کی باتوں کو قرآن و سنت کے میعار پر پرکھے بغیر کرے گا تو خطا کا شکار ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ بدعات کی راہ کھولنے والابھی بن جائے۔ اسی اندھی تقلید کی طرف حضرت شیخ علیہ الرحمۃ نے یہاں توجہ دلائی ہے۔ امام غزالی علیہ الرحمۃجنہیں حجۃ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے نے تو اس سے بھی وزنی بات کہی ہے۔ بقول ان کیـ ’’ جو بات سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ماثور نہ ہو ایسی نئی بات پر ایک زمانہ کا اتفاق ہونا بھی تجھے دھوکہ میں نہ ڈالے اور تو اسی طریقہ سلف پر مضبوطی اختیار کر۔(نقل کردہ مولانا سیّد امیر علیؒ مترجم فتاویٰ ہندیہ، مقدمہ فتاویٰ عالمگیری جدید اردو، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاہور، جلد ۱، صفحہ۱۰۰)۔ اس سے زیادہ ٹھوس بات کوئی کیا کہہ سکتا ہے ؟ ان نفوس قدسیہ نے تو اپنی طرف سے حجت قائم کردی، اس کے بعد بھی اگر کوئی کسی کی اندھی تقلید کرے تو ظاہر ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہی ہوگا۔

  اب ذرا بدعات کو جاری یااختیار کرنے کے نقصانات کا بھی ملاحظہ کیجئے۔رسول اللہ ﷺ  نے فرمایاکہ ’’ جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہوچکی تھی تو اس کے لئے بھی اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کے لئے باوجود اس کے ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کی بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کا رسول ﷺ پسند نہیں کرتے تواس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا ارتکاب کرنے والوں پر اور اس سے ان کے گناہوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘‘۔ (جامع ترمذی، ابواب العلم، باب الاخذ بالسنۃ و اجتناب البدعۃ، بروایت کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی)۔حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ صاحب بدعت کا اللہ تعالیٰ روزہ، نماز، صدقہ، حج، عمرہ، جہاد، فرض، نفل ( غرض کوئی بھی نیک عمل) قبول نہیں فرماتے، وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح بال آٹے سے نکل جاتا ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب اتباع سنۃ رسول اللّٰہ، باب اجتناب البدع و الجدل)۔ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ اس وقت تک بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جب تک کہ وہ بدعت نہ چھوڑدے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب اتباع سنۃ رسول اللّٰہ، باب اجتناب البدع و الجدل)۔ان دونوں روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بدعات اصل ایمان میں خلل انداز ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ بدعتی اللہ کے رسول ﷺکے طریقہ سے ہٹ کر کسی اور کے طریقہ میں کامیابی دیکھتا ہے پھر جب ایمان میں ہی خلل آگیا توکوئی بھی عبادت کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ بدعات کی طرف قدم بڑھانے کی ایک نحوست یہ بھی ہے کہ مبتدی یعنی صاحب بدعت کو توبہ نصیب نہیں ہوتی کیوں کہ وہ اپنے گناہ کو گناہ ہی کب سمجھتا ہے جو اس سے توبہ کرے، اسے تو وہ دین سمجھ کر کرتا ہے اس لئے اسے توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے سارے گناہوں میں بدعات شیطان کو زیادہ پسندیدہ ہے۔

  مذکورہ بالا مباحثہ سے قارئین گرچہ سمجھ گئے ہوں گے کہ بدعت کیا ہے لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ اس کی ایک جامع تعریف یہاں کردیجائے تاکہ اللہ کے مخلص بندے اور رسول کریم ﷺ کے سچے متبعین  انہیں پہچان سکیں اور ان سے اپنے آپ کو بچا سکیں کیونکہ تمام بدعات کی نشاندہی یہاں ممکن نہیں معلوم ہوتی۔ بدعت عربی کے لفظ ’’اَلْبِدْعَۃُ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس کالغوی معنی ہے ’’کسی نمونہ کے بغیر بنی ہوئی چیز‘‘ یعنی بالکل نئی چیز۔ عربی میں اس کا ایک مترادف لفظ ’’اَلْمُحْدَثُ ‘‘ (ج : مُحْدَثَات) بھی ہے جس کے معنی بھی وہی ہیں یعنی نئی ایجاد کردہ چیزیا نئی نکالی ہوئی بات۔ شریعت کی اصطلاح میں بدعت، عبادت کے طور پر، ثواب اور رضائے الٰہی کے حصول کی نیت سے دین اسلام کے عقائد یا اعمال میں کسی ایسی چیزکی ایجادیا اضافہ کو کہتے ہیں جس کا داعیہ اور سبب رسول پاک ﷺ اور صحابہ کے عہد مبارک میں موجود ہونے کے باوجود اس کی کوئی اصل شریعت میں موجودنہ ہو یعنی نہ تو وہ بات قرآن سے ثابت ہو اور نہ ہی اس کا ثبوت رسول پاک ﷺ یا صحابہ سے قولاً ہو نہ فعلاًنہ صراحتاً نہ اشارۃً۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بدعت دین میں وہ نیا عقیدہ، نیا عمل یا نئی رسم ہے جس کی کوئی اصل یا نظیر قرون ثلاثہ مشہور و لہا بالخیر میں نہ ملے۔یہ بات بھی صحیح ہے کیوں کہ جس بات کی کوئی اصل شریعت میں موجود نہ ہوگی اس کی نظیر قرون ثلاثہ مشہور و لہا بالخیر میں کہاں سے ملے گی؟ مثال کے طور پر وہ تمام رسومات جو شادی بیاہ،اموات، یوم عاشورہ، ۱۲؍ ربیع الاول، ۱۱؍ ربیع الثانی (گیارہویں شریف)، شب ۱۵؍ شعبان کے مواقع پررائج ہیں بدعت قرار پائیں گی جن کا ثبوت عہد رسالت و عہد خلفاء راشدین میں نہ ملتا ہو کیوں کہ ان کا سبب اور داعیہ اس دور میں بھی موجود تھا۔ ہاں ایسی چیزیں اور ضرورتیں جوسائنسی اور معاشی ترقیات کی پیداوار ہیں اور جو عہد صحابہ میں نہ تھیں مثلاً بلڈ بینک، اعضا کی پیوندکاری،بینک ولائف انسورنس وغیرہ کے سلسلہ میں فقہاء کی اکثریت کا اختیار کردہ موقف اسلامی قرار پائے گا اور اس کا شمار بدعات میں نہیں کیا جائے گا۔اگر ہم لوگ تحقیق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ہر عمل سے پہلے علماء حق سے صرف یہ معلوم کرلیا کریں کہ اس عمل کا ثبوت عہد رسالت و عہد خلفاء راشدین میں ہے یا نہیں، تو بہت سی بدعات سے اپنی حفاظت کرسکتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ اس خاکسار کو بھی ان باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت کرے اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کی سنتوں کو زندہ کرنے کے سلسلہ میں کی گئی بندہ کی اس حقیر کوشش کو درجہ قبولیت عطا کرے۔آمین!

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    محسن انسانیت سرور کائنات ،فخر موجودات ،سید المرسلین ،امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی کی تعلیمات کل عالم انسانیت کیلئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ،جن پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ،حضور کی جلوہ گری سے کائنات کا ذرہ ذرہ منور ہوا ،اور ظلم کی چکی میں پستی تڑپتی ،سسکتی ہوئی انسانیت نے سکھ کا سانس لیا،۔۔

تبصرے بند ہیں۔