ادراکِ زوال امت (جلد دوم)

محمدرضی الاسلام ندوی

ادراکِ زوال امت کی پہلی جلد ﴿571صفحات﴾ 2003ء میں منظرِعام پر آئی تھی۔ اس کے آٹھ سال بعد اتنی ہی ضخامت کی دوسری جلد شائع ہوئی۔ گیارہ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جو موضوعات اٹھائے گئے ہیں ان کا تجزیہ کیاجائے تو کم از کم اس کی دوگنی ضخامت کی کتاب تیارہوجائے گی۔ ان موضوعات کا صرف تعارف کرانے کے لیے بیسیوں صفحات درکارہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کا نہ یہ مقام متحمل ہے اور نہ تبصرہ نگار اس کی کچھ افادیت محسوس کرتا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی کہاجاسکتا ہے کہ امت کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے امت کا دانش ور طبقہ جو کچھ سوچ رہاہے، اس میں وہ کس حد تک کنفیوژ ہے، یہ کتاب اس کاایک نمونہ ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ کتاب ادراکِ امت کے زوال کی آئینہ دار ہے۔

فاضل مصنف کی بنیادی فکر یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی عظمت کاراز قرآن کریم سے وابستگی میں مضمر ہے۔ ماضی میں بھی اس کو عظمت قرآن کریم سے وابستگی کے نتیجے میں ملی تھی اور آئندہ بھی وہ دوبارہ اس سے اسی صورت میں ہم کنار ہوسکتی ہے جب وہ قرآن کریم کومضبوطی سے تھامے اور اسے حرزِ جان بنائے۔ مصنف کی یہ فکرقابل قدرہے۔ لیکن اس پر انھوں نے پوری کتاب کا جو ڈھانچہ تیار کیا ہے وہ سراسر ان کی پریشان خیالی کا مظہر ہے۔ جلد اول میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ نزولِ قرآن کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گزراتھا کہ اس کی اصل تعلیم پرحدیث، فقہ اور تصوف کے حجابات طاری ہوگئے اور وہ پردۂ خفا میں چلی گئی۔ جلد دوم میں انھوں نے مسلمانوں کے شیعی، اسماعیلی اور سنّی فرقوں کاتذکرہ کیاہے اور یہ دکھایا ہے کہ ان فرقوں کی وجہ سے اسلام کے متعدد قالب تیار ہوگئے، جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ وہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی عظمتِ رفتہ حاصل کرنے کے لیے پیچھے پلٹیں اور اُس دور میں جینے کی کوشش کریں جب نہ محدثین تھے، نہ فقہاء، نہ صوفیا، نہ شیعہ، نہ اسماعیلی ،نہ سنّی۔

ماضی قریب میں برصغیر ہند وپاک میں ایک فرقہ ’اہلِ قرآن‘ کے نام سے وجود میں آیاتھا۔ ان حضرات نے صرف قرآن کو مضبوطی سے تھامنے پر زور دیا اور دین کے دیگر ثانوی مآخذ کا بالکلیہ انکار کیا۔ پھرآیاتِ قرآنی کی دور ازکار اور من مانی تاویلات کرکے اسلام کا ایک ایسا ڈھانچہ تیار کیا جو اسلام دشمن مغربی طاقتوں کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے اُس وقت علمائے امت کا ایک طبقہ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اس کے تارو پود بکھیرکر رکھ دیے۔ مصنف نے حجّیتِ حدیث کے رد میں وہ تمام دلائل بیان کیے ہیں جو اہل قرآن اپنی کتابوں میں پیش کرتے رہے ہیں، لیکن علمائے اسلام نے ان کا رد جن پختہ دلائل سے کیا ہے ان کی طرف سے بالکل اعراض برتا ہے۔ مثلاً ان کے نزدیک وہ حدیث تو قابل استدلال ٹھہری، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے منع فرمایاتھا۔ ﴿ص578﴾ مگر دیگر وہ بہت سی احادیث ناقابل التفات رہیں جن میں صراحت ہے کہ یہ ممانعت صرف ابتدائی زمانے میں تھی، بعد میں خود آپﷺ  نے نہ صرف یہ کہ احادیث لکھنے کی اجازت دے دی تھی، بل کہ بہت سی احادیث خود لکھواکر صحابہ کو عنایت کی تھیں ۔

انھوں نے اس پر توتفصیل سے بحث کی ہے کہ سیاسی اغراض سے بہت سی احادیث گھڑی گئیں، لیکن وضع حدیث کے فتنے کی سرکوبی کے لیے محدثین نے جو زرّیں خدمات انجام دیں اور ضعیف وموضوع اور صحیح احادیث کو الگ الگ چھانٹ کر رکھ دیا، ان سے بالکل صرف نظر کرگئے ہیں۔ انھوں نے ان اقوال کو تو اہمیت دی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ  کی دست رس میں صرف 17/ حدیثیں تھیں اور موطا امام مالک میں معتبر روایتوں کی تعداد صرف تین سو تھی ﴿ص 478﴾ لیکن جن دلائل سے یہ دوباتیں غلط قرار پاتی ہیں ان کی طرف ہلکا سا بھی اشارہ نہیں کیا ہے۔ انھوں نے پوری جرأت اور بے باکی کے ساتھ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ محدثین اور فقہاء نے اسلام کے اصل قالب کو بُری طرح مجروح کیاہے۔ یہ ہماری تاریخ کا وہ پتھر ہے کہ جب تک اسے ہٹایا نہ گیا، وحی الٰہی کے چشمۂ صافی سے ہماری محرومی برقرار رہے گی۔ ﴿ص479﴾

محدثین اور فقہا کو راستے سے ہٹاکر وحی الٰہی کے چشمۂ صافی سے وہ کون سا اسلام مستنبط کرناچاہتے ہیں، اس کاایک نمونہ یہ ملاحظہ کیجیے کہ ان کے نزدیک اخروی نجات اور رحمتِ الٰہی کے استحقاق کے لیے آج کے دور میں آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں: ’انبیاء ے سابقین کے طائفے اپنے اوپر نازل ہونے والے ھدی و نور پر قائم رہیں تو بھی وہ خدا کی رحمت سے محروم نہ ہوں گے۔‘ ﴿ص521 و دیگر مقامات﴾ استدلال میں انھوں نے وہ آیتیں پیش کی ہیں جن میں صرف ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر کا بیان ہے، ایمان بالرسول کی صراحت نہیں ہے۔ جب کہ قرآن کے بہ کثرت بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تفریق بین الرسل کا قائل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک کسی ایک رسول کا انکار، خواہ وہ حضرت موسیٰؑ  ہوں یا حضرت عیسیٰؑ  یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، درحقیقت تمام رسولوں کا انکار ہے۔ پھرکیا موجودہ دور میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تسلیم نہ کرنے والے کا ایمان قرآن کی روشنی میں معتبر ہے؟

فاضل مصنف علماء سے للٰہی بغض رکھتے ہیں ۔ انھوں نے جابجا اس خیال کااظہار کیا ہے کہ جس طرح یہود نے اپنے علماء ﴿احبار﴾ کو ’رب‘ بنالیاتھا اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنے علماء کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے۔ ان کے لیے وہ ’احبارِ اسلام‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور پُرزور انداز میں کہتے ہیں کہ علماء کے فکری التباسات سے پیچھا چھڑاکر قرآن سے بہ راہ راست استفادہ کیاجائے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عالمی سطح پر امت کی اکثریت قرآن سے بہ راہ راست استفادے پر قادر نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اس زبان سے ناواقف ہیں جس میں قرآن نازل ہواتھا۔ لامحالہ انھیں کسی کو واسطہ بنانا اور کسی کی تعبیر پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ اب اگروہ طبقۂ علمائ سے دست کش ہوجاتے ہیں تو لازماً انھیں راشد شاز صاحب جیسے دانش وروں سے رجوع ہونا پڑے گا۔ پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شاذ صاحب دین کی جو تعبیر پیش کررہے ہیں وہ وحی الٰہی کی طرح قطعی ہے اور علماء کی تعبیرات ان کے ’فکری التباسات اور لغزشوں ‘ کانتیجہ ہیں ۔ ایک مثال اسی کتاب سے پیش ہے:

’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ اٰ تَیْنٰکَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْم   ﴿الحجر:78﴾

’ہم نے تم کو سات باربار دہرائی جانے والی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔‘

بعض علماءنے ’سبعاً من المثانی‘ سے سورہ فاتحہ مراد لی ہے اور دلیل میں بعض احادیث پیش کی ہیں ۔ دیگر علماء اس کے کچھ اور مفہوم بیان کرتے ہیں ۔ شاز صاحب کے نزدیک اس سے بائبل کی پانچویں کتاب المثانی (Deutronomy)میں مذکور سات اصولی احکام کی طرف اشارہ ہے۔ مگر اس میں تو ’احکام عشرہ‘ ﴿دس احکام﴾ مذکور ہیں ۔ اس کی توجیہ وہ یہ کرتے ہیں کہ ان دس احکام میں سے سات کی قرآن میں برقراری ان کے آفاقی ہونے کی وجہ سے ہے ﴿ص38﴾ سوال یہ ہے کہ شاذ صاحب کا بیان کردہ مفہوم کیوں واجب القبول اور دیگر علماءکی آراء کیوں قابل رد ؟

آخر میں دو باتیں عرض کرنے کو جی چاہتاہے۔ ایک یہ کہ مروّجہ تمام سائنسی علوم میں سابقہ تحقیقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اور انھیں آئندہ تحقیقات کے لیے بنیاد بنایا جاتاہے۔ پھر اگر علم دین کے سلسلے میں فاضل مصنف کا مشورہ ہے کہ تمام سابقہ تشریحات و تعبیرات سے صرف نظر کرکے ازسرنو غوروخوض کیاجائے تو اسے ایک دانش ور کا غیرسائنسی اور نامعقول مشورہ ہی کہاجائے گا۔ دوسری بات یہ کہ ہم اپنی زندگی کے تمام میدانو ں میں صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرتے ہیں ۔ مثلاً علاج معالجے کے میدان میں ماہر، ایمان دار اور مخلص ڈاکٹر بھی ہیں اور فراڈی، بے ایمان اور دنیادار ڈاکٹر بھی۔ اس بنا پر ہم بیمار پڑنے پر علاج ترک نہیں کرتے، بل کہ ان میں سے لائق و فائق ڈاکٹر کو تلاش کرکے اس سے علاج کراتے ہیں ۔ بازار میں خالص چیزوں کو مناسب قیمت پر بیچنے والے ایمان دار دوکان دار بھی ہیں اور ملاوٹی چیزوں کو مہنگے داموں بیچنے والے بے ایمان دوکان دار بھی۔ اس بنا پر ہم کھانے پینے کی چیزوں کی خریداری ترک کرکے گھر نہیں بیٹھ رہتے، بل کہ تحقیق کرکے جس دوکان سے خالص چیزیں ملنے کی امید ہوتی ہے وہاں سے سامان خریدتے ہیں ۔ پھراگر دین کی تعبیر و تشریح کا کام کچھ علماء نے ایمان داری اور اخلاص کے ساتھ انجام دیا ہے اور کچھ نے گم راہی کا سودا کیا اور دنیا کمائی ہے تو پورے طبقۂ علماء کو بدنام کرنے اور ان سے رجوع نہ کرنے کا مشورہ دینے کو کیوں کر درست رویّہ قرار دیاجاسکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ امت کو قرآن سے جوڑنے کی خواہش مبارک، لیکن اس کا جو طریقہ اس کتاب میں تجویز کیاگیاہے وہ بڑا گم راہ کن ہے۔ ایسی کتابوں کامطالعہ کرنے سے رہ نمائی کیا ملے گی، فکری انتشار ہی میں اضافہ ہوگا۔

مصنف: راشد شاز، صفحات :  542 ، قیمت: -/ 350روپے، ناشر:  ملّی پبلی کیشنز، نئی دہلی

1 تبصرہ
  1. محمد معاویہ سعدی گورکھپوری کہتے ہیں

    ما شاء اللہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کا یہ تبصرہ انتہائی متوازن، پر مغز، عام فہم اور جامع ہے۔

تبصرے بند ہیں۔