ادھوری خواہش

محمد سیف الا سلام

(ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد)

 ہاں مجھے تم سے محبت ہے مجھے کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں با ر بار ہاں سوبار کہ سکتا ہوں لیکن تمہاری آنکھوں میں نہ خوف اور نا ہی پیروں میں کپکپی دیکھ دسکتا ہوں۔ چہرے پہ بدلتے رنگ ،کروٹیں لیتی چہرے پر سلوٹیں ایک عجب کشمکش میں پڑاہواتمہارا وجود مجھے ڈرا دیتا ہے۔ میں نے بدلے میں تم سے محبت تو نہیں مانگیں نا۔ رفعت

   ’’میں راحل کو نہیں چھوڑ سکتی…میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی… تم جانتے ہونا …‘‘

  ’’ہاں میں جانتا ہوں لیکن میں نے کب کہا تم اسے چھوڑدو۔پھر بھی تمہیں خیال رکھنا چاہئے تھا نثار…یہ کہنے سے پہلے تمہیں سوچنا چاہئے۔‘‘

   لائٹ چلی گئی wii fii  بھی of واٹس اپ بغیر وائی فائی کے تو کام نہیں کر سکتا۔ اف یہ لائٹ۔ ظفر نے کئی بار کہا نثارجیو سم لے لو۔چلتا پھرتا وائی فائی ہے لیکن میں کہا ں کسی کا سننے والا۔ میں تو بس اپنی دھن میں رہتا ہوں۔ ظفر اپنی jio  کا Hots Pot چالو کرو۔

 پچھلے کچھ دنوں سے ہر شام رفعت سے اسی موضوع پر بحث ہورہی تھی اور ہمیشہ مجھے شام ہونے کا انتظار رہتا۔ جس شام اس کا میسیج نہیں آتا اس شام سورج کی طرح دل ڈوب جاتا۔

                تکیے پر سر رکھے رکھے نیند نے اپنے آغوش میں لے لیا۔کال بیل سے آنکھ کھلی۔ ’’رفعت اس وقت …ایک بج رہا ہے سوئی نہیں آپ…‘‘

                ’’بس یونہی دل کیا آپ کو فون کرنے کا …آپ نہیں سوئے۔ ‘‘

                ’’ہاں بس ابھی آنکھ لگی تھی۔ لیکن اس وقت آپ کو کال نہیں کرنا چاہئے تھا۔ آپ دیر رات کیوں سوتے ہیں ؟عادت ہے۔ ‘‘دونوں طرف سے آوازیں بند ہوگئیں پل بھر کے لیے دونوں ٹھہر گئے۔

                ’’نثار آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ رفعت… اس وقت۔‘‘

                ’’نہیں پاگل۔ جب آپ فر صت کے لمحات میں ہوں۔ ‘‘

                ’’لیکن رفعت آپ سے ملنے کے لئے صدیاں چاہئے۔‘‘

                ’’اتنا چاہتے ہیں مجھے۔ ‘‘

                ’’پتہ نہیں۔ لیکن محبت کو نا تو لفظوں میں بیاں کیا جاسکتا ہے اور نا ہی الفاظ کے پیکر میں ڈھال کر سفید کاغذوں پر۔ خیر چلئے آپ آرام کیجئے۔ ‘‘

                ’’لیکن سنو نثار تم واقعی مجھ سے ……‘‘

                ’’کیا مجھ سے …پوری بات بولیں رفعت۔ ‘‘

                ’’وہ جو آپ بولتے ہیں۔ ‘‘

                ’’میں کیا بولتا ہوں۔ ‘‘

                ’’ وہی کہ آپ مجھ سے۔ ۔چلئے کل میں آپ کا انتظار کرونگی اور آپ میرے سامنے کہیں گے ‘‘

                ’’کیا کہونگا۔ ‘‘میں اس سے کہلوانا چاہ رہاتھا ،لیکن وہ شرما رہی تھی یا ڈررہی تھی پتہ نہیں۔

                چند مہینوں پہلے واٹس اپ پہ اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ پہلی بار کسی لڑکی سے اپنی محبت کی داستان چند لفظوں میں واٹس اپ کے ذریعہ بیاں کرتے ہوئے انگوٹھا کانپ رہا تھا۔ اور اس کانپتے انگوٹھوں سے محبت کے چند بول لکھ رہا تھا۔ میری محبت کے اظہار کا انداز بالکل الگ تھا۔ نہ ہاتھوں میں گلاب اور نہ لبوں پہ الفاظ۔

                رفعت سے بات کرنے کے بعد پوری رات نیند نہ آئی۔ ہر وقت نئے نئے خیالات۔ عجب عجب تصورات دل ودماغ میں آرہے تھے۔ فجر کی آذان نے وقت کے ہونے کا احساس دلایا۔ بے صبری سے وقت کے جلدی گزرنے کا انتظار کررہا تھا اور وقت تھا کی تھم سا گیا تھا۔ شام ہوتے ہوتے ایسا لگا کئی دن سے شام کا انتظار کر رہا ہوں۔ سورج ڈھلتے ہی میں اس کے بلا ئے ہوئے جگہ پر پہنچ گیا حیرانی اس وقت ہوئی جب خود سے پہلے اسے وہاں دیکھا۔ میں اس سے تھوڑی دور کے فاصلے پہ کھڑا اسے دیکھنے لگا۔ وہ کبھی اپنے موبائل کے اسکرین پر دیکھتی تو کبھی آتی جاتی گاڑیوں کی طرف تو کبھی بس اسٹوپ کی طرف قدم بڑھا کر بس سے اتر تے یاتریوں کے ہجوم میں ڈھونڈھنے کی کوشش کررہی تھی۔اب اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ اتنے قریب ہوکر میں اس کے چہرے کے ہر شکن کو آسانی سے دیکھ رہا تھا۔اب اس کی بے چینی چبھنے لگی میں خود دوڑتا ہوا جا پہنچا۔ چہرے پہ خوشی کے آثار لیکن زباں تلخ نظریں جھکی ہوئی لیکن ملنے کی تڑپ۔ میں اسے دیکھ رہا تھا اور خاموشی سے مسکرا رہا تھا وہ کبھی پلکیں اٹھاتیں آنکھیں ملانے کی کوشش کرتیں لیکن پھر پلکیں جھکا لیتی۔

                ’’چلو راحل سے تمہیں ملاتی ہو ں۔ ‘‘

                ’’نہیں رفعت مجھے تم سے بات کرنا ہے۔‘‘

                ’’چلو تو سہی وہیں بات کریں گے۔ ‘‘

                ’’راحل کے سامنے۔ ‘‘

                ’’ہاں کیوں ڈرتے ہو نثار ؟‘‘

                ’’نہیں۔ محبت جب ہوجاتی ہے تو سرحدیں کہیں کی بھی ہو وہ خو د بخود کھل جاتیں ہیں۔ ‘‘

                ’’بیٹھونثار۔ لیکن راحل کہا ں ہے۔ ‘‘وہ اس طرف دوسرے کمرے میں۔ تھوڑی دیر کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ میں کچھ بولنا چاہ رہا تھا لیکن الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ وہ خاموش کھڑی میری طرف غور سے دیکھ رہی تھی اور میں اب ڈر رہا تھا۔

                ’’نثار کیا یہ سچ ہے کی آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں ؟‘‘

                ’’ہاں۔ ‘‘

                ’’تو پھر میرے سامنے کہئے ،‘‘

                ’’اگر میں نے آپ کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کردیا تو پھر میں خود کو سنبھال نہیں پائونگا۔ اور تم برداشت نہیں کر پائوگی۔ ‘‘

                ’’لیکن نثار میں اپنے سامنے سنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

                ’’سچ۔ ‘‘

                ’’ہاں …‘‘

                میں نے دور رکھی ایک چیئر کھینچی اور اس کے قریب جا بیٹھا۔اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے قریب ہونے کے بعد ایک عجب خوشبو تھی جو مجھے اسکی طرف کھینچے جا رہی تھی۔،میں خود سے بے قابو ہورہا تھا میرے جذبات امنڈنے لگے گرم پانی کے بلبلے کی طرح۔ سانسیں تیز ہوگیئں آنکھیں بند ہونے لگیں ہاتھ خود بخود اس کے ہاتھ میں سما گیا انگلیاں ایک دوسرے میں منجمد ہوگئیں۔ جیسے برسوں سے ملنے کی تڑپ ہو ایک دوسرے کے ہاتھ دبانے لگے۔ میں نے آنکھیں کھو لی تو اس کی آنکھیں بند تھیں لبوں پہ کپکپی تھی لب ایک دوسر ے سے جدا کسی تیسرے لب کا منتظرمیرا کانپتا ہوا ہاتھ اس کی سرخ اور کانپتے ہوئے ہونٹ کی طرف خود بخود بڑھنے لگا۔ اب اتنے قریب تھے کہ ایک دوسرے کی سانسوں کی گرمی کومحسوس کررہے تھے۔سرحدیں ٹوٹنے کی قریب تھیں کہ را حل کی آوازنے چونکا دیا اور پھر مچھلیاں سمندر سے باہر تڑپنے لگیں۔ میں نے چیئر پیچھے کھینچا اور آنکھیں بند کرکے ایک لمبی سانس لی۔آنکھوں میں نہ جانے کیوں آنسوں آگیا اور خاموشی سے دور کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ راحل کی طرف پیار سے دیکھ رہی تھی اور اس کے کافی قریب تھی۔ میں وہاں سے اٹھا اور باہر کی طرف قدم بڑھانے لگا۔

                ’’نثار کہاں جارہے ہو ؟کافی تو پی لو۔ ‘‘ رفعت نے کہا۔

                ’’نہیں رفعت پھر کبھی۔ ‘‘

                ’’تم کافی تو کبھی نہیں منع کرتے پھر آج کیوں ؟‘‘وہ راحل کو چھوڑ میرے قریب آگئی۔ ’’جا رہے ہو ؟‘‘

                ’’ہاں۔ ‘‘

                ’’میری طرف دیکھ کے بولو۔‘‘

                ’’پلکیں نہیں اٹھ رہی ہیں رفعت ،اگر پلکیں اٹھ گئیں تو نہ جانے کتنے موتی گر جائیں گے۔ ‘‘

                ’’ادھر میری پلکوں کے نیچے تو دیکھو یہاں تو آنسو چھپائے نہیں چھپ رہے ہیں۔ ‘‘

                شام ڈھل چکی تھی سورج کی سرخی بھی ختم ہوگئی تھی چاند اپنی مدھم روشنی ستاروں کے ساتھ پھیلا رہا تھا آسماں چاند ستاروں کے درمیاں دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ ہوائیں خوشبوئوں سے معطر تھیں اچانک موسم بدلنے لگاآسماں کی خوبصورتی کو کالے بادل نے ڈھانپ لیا۔ مسکراتے چاند ستارے کالے بادل میں چھپ گئے خو شبو دار فضائیں گرد آلود ہوگیئں۔ بادل بے انتہا برسنے لگا ،لوگ بادل کے برسنے سے بے خبر تھے چھت کے نیچے مطمئن تھے۔ لیکن کھڑکیوں سے بارش کے قطرے اور اس کی بوندیں گھر کے اندر داخل ہورہی تھیں۔ اس وقت تاریک رات کے تقریباََ 1:45بج رہے تھے۔ میں بستر پر لیٹا بارش کا شور سن رہا تھا اور گرد آلود فضا کو محسوس کر رہا تھا کہ کس قدر وہ فضا کوگندہ کر چکا تھا۔ میں نے واٹس اپ آن کیا اور لکھنا شروع کیا۔

                پیاری رفعت۔

                صدا سلامت رہو ،پاکیزہ ہوائیں تمہارے جسم کو چھوئے۔یہ آوارہ بادل اور گرد آلود فضازندگی میں نہ آئے۔ہمیشہ تم چاند ستاروں کے درمیاں خوبصورت آسماں کی طرح رہو۔

                رفعت محبت کی آگ ایک طرفہ ہو یا پھر دونوں طرف ہوتی محبت ہی ہے محبت صرف دوجسموں اور دو گرم سانسوں کے ٹکرانے کا نام نہیں ہے۔ محبت تو وہ پاکیزہ رشتہ ہے جہاں صرف اورصرف یقین اور اعتماد ہے اور یقین کی آخری حد ہی محبت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔

                رفعت مجھے اتنے قریب مت آنے دو جہاں تم کسی کا یقین توڑ دو جہاں میں خود سے بے قابو ہو جائوں مجھے خود سے اتنے قریب مت کرو جہاں میں کمزور اور بے بس ہو جائوں اگر ایک بار سانسیں ٹکراگئیں تو پھر الگ الگ سانسیں لینا مشکل ہو جائیگا۔ رفعت میں تمہارے جذبات سے کھیلنا نہیں چاہتا میں تمہاری اس دنیا کو تباہ کرنا نہیں چاہتا۔ جہا ں تین کی سال کی انعم تمہاری دنیا کو خوشیوں سے بھر رہی ہے۔ دو سال کا راحل تمہاری گود کی زینت ہے۔ میں تمہاری اس دنیا میں نہیں آنا چاہتا جہا ں تمہارا شوہر تمہاری ہر خوشی کے لئے خود کو قربان کررہا ہے میں تمہاری اس دنیاں میں اس آوارہ بادل اور گرد آلود ہوائوں کی طرح آنا نہیں چاہتا جو کبھی کبھی ایسی عمارتوں کو بھی لے اڑتا ہے جہاں خواب غفلت اور اعتماد کے ساتھ لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں۔ میں تمہاری اسی دنیا میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کہنا میرے لئے مشکل ہے اور خود کو تم سے الگ کرپانا اور بھی مشکل۔ لیکن اگر میں نے خود کو نہیں روکا تو خود کے ہاتھوں گھر میں آگ لگا بیٹھونگا اور گھر جلانے کا الزام کس کو دونگا۔ رفعت میں نے جس خواب کو سجایا ہے اس کی تعبیر مجھے معلوم ہے۔ دیکھونا اب بارش تیز ہونے لگی ہے بادل گرج رہاہے مجھے ڈر ہو رہا ہے میں کس کے بانہوں میں اپنی بانہیں ڈالوں ؟لیکن رفعت اب مجھے اس آوارہ بادل اور بدبودار فضاکو ختم ہوتے دیکھنا ہے مجھے وہ چاند اورستاروں کے اوپر خوبصورت آسماں اورخوشبودار ہوائیں اچھی لگتی ہیں۔ تم اسی آسماں کی طرح رہنا اور مسکراتے رہنا۔

                رفعت یہ آخری واٹس اپ میسج ہے میں ان تمام راستوں کو بند کرنا چاہتا ہوں جہاں سے گرد آلود ہوائیں تمہاری پاکیزہ روح کو گندہ کر دے۔

                ’’نثار کال ریسیو کرنا۔ ‘‘

                ’’تم ابھی تک …‘‘

                ’’میں اس وقت آنسؤں سے لپٹے پلکوں خشک گلہ اور ہچکیوں کے بیچ ہوں۔ ‘‘

                ’’نثار میری طبیعت زیادہ خراب ہے plz کال ریسیو کرو ‘‘

                ’’تم یونہی بہانا بنا کر مجھ سے باتیں کرنا چاہتی ہو ‘‘

                نثار میرے نمبر سے کال کہیں نہیں لگ رہا ہے پلیز تم مجھ سے ایک بار بات کرو۔ ‘‘

                آخری میسیج میں نے اگلی صبح پڑھی۔ لیکن مذاق لگا اور دن بھر یونہی اداس اداس گزرا۔شام کال کا انتظار کیا میسج کا انتظار کیا۔ کوئی بھی میسج آتا فوراََمبائل کی اسکرین پر نگاہ جاتی۔ ہر وقت موبائل کا وائی فائی آن رہتا۔ نا جانے کب اس کا میسج آجائے۔ انتظار میں دو دن گزرگیا لیکن نہ کال آیا اور نا ہی میسیج۔ کیا واقعی اس کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ نہیں وہ بہانا کر رہی ہوگی۔ شاید وہ میرے صبر کا امتحان لے رہی ہو۔ نہیں میں بھی اب کال نہیں کرونگا ،میں اس کا انتظار کرونگا۔ وہ بھی تو مجھ سے محبت کرتی ہے ہاں لیکن کہتی یہی ہے ہمیشہ میں جنت تمہا رے ساتھ مانگتی ہوں اپنے رب سے۔ آج تیسرا دن ہے ،آج بھی اس کی کوئی خبر نہیں ،ایک انجان نمبر سے ایک میسیج ملا’’خدا کرے تم رفعت کو جنت میں ملو اور تمہاری محبت بھی پاک رہے ‘‘۔

                میں نے فوراَ َ کال کیا۔ یہ کیا بے ہودہ مذاق ہے۔ آپ کون دوسری طرف سے آواز آئی۔ میں نثار بات کرہا ہوں ،رفعت کو کیا ہوا۔ وہ جنت آپ کے ساتھ مانگتی تھی اپنے رب سے اوررب نے اسے بلا لیا۔ اور ہاں رفعت نے آوارہ بادل اور پاگل ہوائوں سے خود کو بچا کر کسی کے اعتماد کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ آپ کون ہیں اور مجھے کیوں بتا رہی ہیں۔ اور ہاں رفعت سے بات کرایئے۔ رفعت دو دن سے ہاسپٹل میں تھی اور اس کا موبائل میرے پاس تھا میں نے اس کے ان تمام میسیج کو جو ادھورے خواب کے نام سے سیو تھاپڑھا ہے اور جانتے ہو اس کا status   کیا ہے۔ تم جنت میں ضرور ملنا۔ اور جانتے ہو اس نے موبائل کے memo میں کیا لکھا ہے ؟اس نے لکھا ہے میں پاگل ہوائوں سے بچ کر۔ اور اس کالے باد ل سے دور رہ کر جو خوبصورت آسماں کو چھپا لیتا ہے اپنی روح کو پاک رکھونگی۔ یہ وعدہ رہا۔لیکن تم جنت میں ضرور ملنا……

                 لیکن اسے ہوا کیا تھا۔ ’’لرزتی ہوئی آواز میں میں نے پوچھا۔ ‘‘

                ’’کیا اس نے کبھی تم سے نہیں بتایا۔ ‘‘

                ’’نہیں۔ ‘‘

                ’’plzآپ ضرور بتائیں ،آپ خاموش کیوں ہیں بولئے‘‘ اس طرف سے آواز آنی بند ہوگئی ؛

                ’’ہیلو ہیلو……‘‘

                ’’ہاں سن رہی ہوں۔ ‘‘

                ’’تو آپ بتا کیوں نہیں رہی ہیں ،دیکھئے آپ مجھ سے جھوٹ نا بولیں ورنہ اچھا نہیں ہوگا ‘‘

                ’’آپ نثار ہیں ‘‘

                ’’جی ہاں۔ ‘‘

                ’’اسے برین ہیمریج تھا۔ ‘‘

                کیا۔ جیسے میری آواز صدیوں سے بند ہو یا پھر قوت گویائی ہی نا ہو۔ دوسری طرف سے آواز آرہی تھی اسے برین ہیمریج تھا لیکن اس کی خبر اس کو بھی نہ تھی دو دن پہلے رات کے آخری پہر میں اس کے سر کے آدھے حصے میں درد شروع ہوا۔ہلکی ٹریٹ مینٹ کے بعد وہ گھر واپس آگئی لیکن اگلی صبح اسے خون کی الٹی شروع ہوئی اور ہوتی ہی چلی گئی جب الٹی رکی تو اس کی سانسیں رک گئیں اور کچھ بدبو دار اور آوارہ خون یہیں چھوڑ گئیں اور مکمل پاکیزہ روح کے ساتھ جنت میں کسی کا انتظار کررہی ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔