عصر حاضر میں  منٹو کے افسانوں کی معنویت

محمد فرقان عالم

(مقام کولا،پوسٹ ٹولی کولا،وایا قصبہ، ضلع پورنیہ،بہار)

ادب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں زندگی کے مکمل خدوخال پورے طور پر ابھرتے ہیں۔ ادب ایک ایسا سانچہ ہے جس میں زندگی اس طرح ڈھلتی ہے کہ کبھی اس کی مسکراہٹیں نگاہوں کے سامنے رقصا ں نظر آتی ہیں۔ کبھی اس کے غمگین لمحے ذہن پر اثرانداز ہوتے ہیں تو کبھی خوشگوار ماحول اور مایوس کن فضا کی آمیزش سے ایسی صاف و شفاف اسکرین تیار ہوتی ہے جس پر زندگی جلتی اور بجھتی نظر آتی ہے۔

ایسے میں جب ایک فن کارادب کو اپنی تخلیقات میں برتتا ہے تو اس کی نگاہ زندگی کے ان تمام پہلوؤں پر بہت ہی گہری ہوتی ہے بلکہ گہری ہونی بھی چاہیے۔فن کار کسی بھی میدان کا ہو، اس کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ زندگی کو سب سے الگ نظریہ سے دیکھے۔ اس کے اندر مشاہدہ کی گہرائی خیالات کی بلند ی کے ساتھ حقیقت پسندی اور ذہنی وسعت بھر پور ہو اور یہ چیزیں فن کاروں کی تخلیقات میں جتنی زیادہ ہوں گی، فن پارہ اتنی ہی بلندی تک پہنچے گا۔یہی وجہ ہے کہ مغربی ادب کے ساتھ اردو ادب میں بھی فن کاروں کی بڑی تعداد نے ادب کو زندگی کے آئینہ کے طور پر اچھے انداز میں پیش کیا اور اپنی اپنی تخلیقات میں زندگی کے ہمہ جہت پہلوؤں سے نہ صرف یہ کہ بحث کی بلکہ خوب صورتی کے ساتھ روشنی ڈال کر ادب کا دامن کافی وسیع کر دیا۔

اردو افسانہ نگاری کے باب میں اہم ناموں میں ایک نام سعادت حسن منٹو(1912-1955) کا بھی ہے۔ ایسا نام جس نے اردو افسانہ کو ایک نیا اسلوب دیا،ایک نئی تکنیک عطا کی، زندگی اور سماج کو دیکھنے کا ایک الگ نظریہ دیا۔ان سب کے ساتھ ایسے موضوعات دئے جو ان سے پیش تر موضوعات کے دائرے سے باہر تھے۔گویا منٹو نے اردو افسانہ کو ایک نیا موڑاس طور پر دیا کہ وہ تمام اردو افسانہ نگاروں کی صف میں اپنی بے پناہ ذہانت اور بے شمار خصوصیات کے ساتھ سب سے ممتاز نظر آئے۔

منٹو بحیثیت فن کار:

بحیثیت فن کار منٹو کی شناخت کئی زاویو ں سے کی جاسکتی ہے۔

(1)        منٹو مواد کی تلاش میں ہمیشہ اپنی نگاہ وہاں رکھتا ہے، جہاں تک اور نگاہیں پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔

(2)        مواد کی پیش کش میں وہ کسی مصلحت اور رواداری کا پابند نظر نہیں آتابلکہ زندگی کے حقائق(تلخ و شیریں )کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔

(3)        کرداروں کے انتخاب میں ہمیشہ ان کرداروں کو ترجیح دیتا ہے جو سماج کے خاص پیمانہ کی وجہ سے نظرانداز کیے گئے ہوں۔

(4)        کرداروں کی زندگی کے تمام داخلی و خارجی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے اور ان کے خدو خال متعین کرنے پر اپنی پوری توانائی صرف کر تا ہے۔

(5)        زندگی اور سماج کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے اور بے باکانہ رائے رکھنے میں وہ کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔

یہ وہ خصوصیات ہیں جو بحیثیت فن منٹو کے یہاں مکمل طور پر پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ خصوصیات اسی وقت پائی جاسکتی ہیں جب فن کار کے اندر خیالات کی بلندی،مشاہدہ کی گہرائی کے ساتھ حقیقت پسندی اور بے باکی و بے خوفی جیسی صفات موجود ہوں۔ منٹو اس معاملے میں اپنے تمام معاصرین بلکہ اپنے میدان،میدان افسانہ نگاری میں سب سے آگے ہیں۔

ان کو مزید بہتر طور پر سمجھنے کے لیے منٹو کے ایک جملہ کو ذیل میں رقم کیا جاتا ہے:

’’زندگی کو اس شکل میں پیش کرنا چاہیے، جیسی کہ وہ ہے۔نہ کہ جیسی وہ تھی، یا جیسی ہوگی یا جیسی ہونی چاہیے۔‘‘

(خط بنام ندیم احمد قاسمی،نومبر 1938،ماخوذ ؎۔خیال کی مسافت۔ شمیم حنفی)

منٹو کے اس جملہ سے جہاں اس کی شخصیت زاویۂ نگاہ کی وجہ سے سب سے بالکل مختلف ہوجاتی ہے، وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ منٹو نہ ہی ماضی کا قصیدہ خواں اور مرثیہ گو بننا چاہتا ہے اور نہ ہی تمناؤں کے ذریعے مستقبل آباد کر نے کا آرز و مند۔ بلکہ اس کا سارا زور حال پر ہے۔حال پر زور دینے کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ منٹو ماضی اور مستقبل سے بالکل آزاد ہوکر اپنی پوری توجہ اس حال پر صرف کرنا چاہتا ہے جس میں وہ جی رہا ہے اور زندگی کی سانسیں لے رہا ہے۔ تاکہ اس کے مسائل کی باریکی کو وہ بخوبی سمجھ سکے۔اس کے اندر کے تہہ بہ تہہ حقائق کو محسوس کرسکے اور راکھ کے اندر چھپے ہوئے سونے اور سونے کے اندر چھپی ہوئی راکھ کومن و عن نگاہوں کے سامنے لا سکے۔

منٹو کا یہی وہ حال ہے جس نے اس کے اندر بے باکی کی صفت پیدا کی،حقیقت پسندی کا جذبہ بیدار کیا اور سماج سے لوہا لینے کی قوت عطا کی۔ نتیجتاً ان کی تمام تخلیقات کا مرکز حال ہی رہا۔ اس کے گرداُن کی کہانیاں گھومتی رہیں اور زندگی کے الگ الگ پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹ کر اپنا کینوس وسیع کرتی رہیں۔ ایسے میں کہیں ان کے افسانوں میں زندگی کا گہرا فلسفہ نظرآیا تو کہیں نفسیات نگاری اپنا دامن پھیلاتی نظر آئی اور کہیں سماجی ناگفتہ بہ مسائل سرابھارتے نظر آئے اور یہ ساری چیزیں سماج کے ان ہی کرداروں کے ذریعے سامنے آئیں جو سماج کا حصہ ہی تسلیم نہیں کیے جاتے تھے یا پھر سماج میں ان کی حیثیت ایک بد بو دار جانور سے زیادہ کی نہیں تھی۔بحیثیت فن کارمنٹو کا قد اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ انھوں نے جہاں ایک طرف نئے کرداروں کو جنم دیا وہیں ان میں نئی باتیں تلاش کر کے کہانی کو ایک نئی سمت اور ذہن کو سوچنے کے لیے ایک نیا زاویہ دے دیا۔جس کا اندازہ ’سلطانہ‘،’سوگندھی‘جیسی طوائفوں کی زندگی،ان کے روز مرہ کے واقعات،مسائل اور لفظ’بوندی‘و ’ہونہہ‘کے ذریعے ان کی زندگیوں میں خوشی و غم جیسی شکل میں آئی تبدیلیوں کے ذریعہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح موذیل کی آزاد مزاجی و آزادخیالی کے ساتھ انسانیت کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانا۔ایشر سنگھ جیسے سفاک اور ظالم انسان کے اندر غیر انسانی عمل پر ندامت کی چنگاری روشن ہونا جیسی چیزیں بھی اس کی بہترین مثالیں بن سکتی ہیں کہ منٹونے کرداروں کے اندر صفات تلاش کرنے میں ایک بالکل الگ اور اچھوتا انداز اختیار کیا جس سے فن کار کی حیثیت سے ان کی شخصیت تمام کے درمیان بالکل ہی مختلف نظر آئی۔

منٹو کا فن اور اس کی اہمیت:

کسی بھی فن پارے میں فن کی قدر کاتعین عمومادو سطحوں پر کیا جاتا ہے۔ (1) ہیئت(2)مواد۔ہیئت کی سطح پر فن پارے کی زبان اس کا اسلوب اور اس کی لفظیات کا جائز ہ اس طرح لیا جاتا ہے کہ فن کارنے فن پارے کو پیش کرنے کے لیے کیسا سانچہ تیار کیا ؟یا کیسے ظرف کی بنیاد رکھی ؟ مطلب پورا زور کیسے، کہا گیا؟ پر صرف ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مواد میں مضامین اور موضوعات پر اس اعتبار سے بات کی جاتی ہے کہ فن کار نے مضامین و موضوعات اختیار کر نے میں حقیقت بیانی، مشاہدہ کی گہرائی، زندگی کو بالکل قریب اور خاص نقطۂ نظر سے دیکھنے جیسے عوامل کا کتنا خیال رکھا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو فن کی اہمیت کا اندازہ لگانے اور فن پارے کی تفہیم میں معاون بنتی ہیں۔

منٹو کا فن ہیئت کے اعتبار سے:

یہ حقیقت ہے کہ مضامین کی گہرائی کے ساتھ الفاظ کی چستی اور جملوں کی ساخت سے ذہن پر ایک خاص اثر پڑتا ہے۔خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ فن کار موضوعات کو برتنے میں کافی ماہر ہو۔ ان کے ذریعے ذہنوں کو چونکاتا ہو،یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ فن کار کو لفظیات اور جملوں کی ترتیب پر کتنی دسترس ہے، وہ الگ طرح کے موضوعات کو خاص طرح کی لفظیات سے کتنا ہم آہنگ کر پارہا ہے؟دونوں میں توازن قائم کرنے میں وہ کامیاب ہے یا نہیں۔ اس اعتبار سے منٹو کا قد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں جگہ جگہ اس بات کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے محل کے مطابق بجااور موزوں الفاظ کے استعمال میں ذرا بھی گریز نہیں کیا ہے بلکہ ان کے جملے Situatoinکو اس انداز میں واضح کرتے ہیں کہ ذہن بالکل چونک پڑتا ہے اور حالات جملوں کے پردوں میں چھپے رہنے کے باوجود اپنے مکمل خدو خال کے ساتھ ذہن کی اسکرین پر نمودار ہونے لگتے ہیں۔ جس کا صحیح اندازہ ان کے بعض جملوں کی ساخت سے لگایا جاسکتا ہے:

’’جب نتھو گنجا پگڑی بغل میں دبائے اڈے میں داخل ہوا تو استاذ منگوبڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز میں کہنے لگا:’’لاہاتھ ادھر،ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہوجائے۔۔۔تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اگ آئیں ‘‘(نیا قانون۔ص:35، منٹو کے نمائندہ افسانے۔اطہر پرویز)

’’دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی، ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال چیز ٹپک رہی تھی۔ ‘‘( موذیل۔ ص:138،منٹو کے نمائندہ افسانے۔اطہر پرویز)

’’ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی لاش کی طرف دیکھا اور اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا:’’کھڑکی کھول دو‘‘ سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکادی۔ بوڑھا سراج الدین خاموشی سے چلایا:’’زندہ ہے——-میری بیٹی زندہ ہے۔ ‘‘(کھول دو۔،ص:178،منٹو کے نمائندہ افسانے۔اطہر پرویز )

مذکورہ جملوں کی ساخت اور لفظیات میں خاص بات یہ ہے کہ نہ ہی شگفتہ بیان پر زور ہے اور نہ ہی الفاظ کی بازیگری کا کھیل کھیلا گیا ہے اور اس سے بڑھ کر نہ ہی ڈکشنری کے چنندہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں بلکہ عام بول چال کے الفاظ اور سادہ جملوں میں ہی سادگی میں پر کاری کے ایسے نمونے پیش کیے گئے ہیں کہ قاری کے ذہن پر ایک وسیع منظر ابھر جاتا ہے اور کہانی ختم ہونے کے بعد ذہن کے پردے پر ایک نئی کہانی جنم لے لیتی ہے۔منٹو کے افسانوں کی یہی خاص بات ہے کہ ان کے افسانے مکمل ہونے کے بعد کیفیت پر نئے افسانے طاری کرجاتے ہیں۔

منٹو کے فن کی عظمت مواد کے تناظر میں :

مواد کے معاملے میں منٹو کئی حیثیتوں سے الگ ہے۔(1) وہ مواد سماج کے ایسے افراد کی زندگی سے اکٹھا کر تا ہے جو قابل اعتنا نہیں سمجھے جاتے۔(2) اپنے منتخب کردہ افراد میں ایسے پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو عام طور پر خاص سماجی پیمانہ اور تنگ نظری پر مبنی ایک خاص زاویۂ نگا ہ کی وجہ سے ضبط تحریر میں نہیں لایا جاتا۔(3)پہلوؤں کو واضح کر نے اور حقائق کو واشگاف کرنے میں منٹو کسی طرح کی مصلحت اور رواداری کو پیش نظررکھنے کا قائل نظر نہیں آتا۔یہ وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے ان کے افسانوں میں عام طور پر دو باتوں کا زیادہ اندازہ ہوتا ہے۔ (1) کرداروں کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر زور(2)آخری جملے میں ایسی تاثیر پیداکردینا کہ ذہن پھر پیچھے کی طرف مڑکر ایک خاص آسودگی کے ساتھ اپنے اندر ایک نیاافسانہ تخلیق کرلے۔ مذکورہ دونوں باتوں کے ساتھ ساتھ جزئیہ نگاری میں ایک خاص طرح کے طنز کو پیش کرنابھی منٹو کی تخلیق کا خاصہ ہے۔مثال کے طور پر’ٹھنڈا گوشت‘،’کالی شلوار‘،’موذیل‘،’ہتک‘،’نیا قانون‘اور’ ٹو بہ ٹیک سنگھ‘ جیسے افسانوں کی خصوصیات پیش کی جاسکتی ہیں۔ جن میں ذکر کی گئی تمام باتوں کومنٹو نے بخوبی برتا ہے۔ان کے علاوہ بھی منٹو کے افسانوں کی بڑی تعداد ہے جو مذکورہ خصوصیات کی مکمل حامل ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ منٹو نے ہیئت اور مواد دونوں سطحوں پر اپنے افسانوں میں جس کامیابی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس کی وجہ سے سچی بات یہ ہے کہ ا س کے افسانے باوجود ماضی کا حصہ ہونے کے عصر حاضر کے سیاسی و سماجی ناگفتہ بہ مسائل کے تناظر میں بھی اپنی مقصدیت کے اعتبار سے بھرپور ہیں بلکہ آج بھی ان کے افسانے نئے پیغام اور نئے زاویوں کے ساتھ ذہن کے پردے پر ابھرتے رہتے ہیں اور دیکھنے،سوچنے اور سمجھنے کے نئے انداز سے روشناس بھی کراتے ہیں۔

کتابیات

1          منٹو ایک مطالعہ، وارث علوی

2          شناسا چہرے۔محمدحسن

3          منٹو کا فن۔وقار عظیم

4          خیال کی مسافت۔شمیم حنفی

5          داستان سے افسانے تک۔وقار عظیم

6          منٹو کے نمائندہ افسانے۔اطہر پرویز

تبصرے بند ہیں۔