دعوتِ فکروعمل

تسلیم الدین حفاظ الدین

موجودہ حالات کی کشیدگی ہر کس و ناکس پر عیاں و بیاں ہے۔ ہر سو مسلمانوں کو مشق ستم بنایا جارہا ہے۔ ماب لنچنگ کی بہیمانہ واردات نے انسانیت دوست لوگوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص الم انگیز تفکرات کے ورطے میں ڈال دیا ہے۔ کب کون بے رحم ہجومی تشدد کا شکار بن جائے کسی کو نہیں معلوم۔ نہ سفر محفوظ ہے نہ حضر خطرے سے خالی۔ مسلمانوں کا وجود ہی ناقابل برداشت بنتا جارہا ہے۔ شرپسند عناصرنے ماحول کو بگاڑنے  میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا دیا ہے۔ سازشیں عروج پر ہیں،دسیسہ کاریاں اپنی انتہا کو پہونچ چکی ہیں۔ ہر طرف مکروفریب کے جال بنے اور بچھائے جا رہےہیں۔ تخریبی ذہنیت کی واہ واہی و آفرینی میں  ابلیس کا جتھاسرگرم عمل ہے۔ آئے دن ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ حالات کی ابتری نے امن پسندوں کو سڑکوں پر اتار دیا ہے۔ احتجاجات و مظاہروں کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ تشدد کے شکار ہوئے افراد کے وابستگان،انسانیت کے ہمدردان اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی سالمیت و بقا کے طلبگاران ظلم و ستم کے سد باب اور  ظالموں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی گوہار لگا رہے ہیں۔ سڑکوں پر اتر کے شرپسند عناصر کو لگام لگانے کی  دہائی دے رہے ہیں۔ لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ انصاف طلبی کی گوہار، مجرمانہ حرکتوں کے سد باب کی پکار صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے۔ احتجاجات کار عبث نظر آرہے ہیں۔ تشدد پسندوں کے حوصلے آئے دن بلند سے بلند تر ہوتے جارہے ہیں۔ جارحیت و سفاکیت امن پسندی کا منہ چڑھا رہی ہے۔ قوم مسلم کے کشتوں کے پشتے لگائے جارہے ہیں۔ معصوموں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی جارہی ہے۔ ایسا لگ  رہا ہے کہ مسلم دشمنی کے طوفان بد تمیز نے سفینۂ انسانیت کو بحرناپیدا کنار میں غرقاب کردیا ہے۔ ہر طرف ظلم و بربریت کا دہشت انگیز سماں بندھا ہوا ہے۔ دعویدارانِ انسانیت نے خونخوار درندوں کو بھی مات دے دیا ہے۔ درندے تو انسانوں کا شکار کسی ویران، انسانی آبادی سے دور  سنسان جگہ میں کرتے ہیں،لیکن یہ کس نوع کے درندے ہیں کہ اپنی ہی جنس کے کسی نہتے،لاچارو مجبور شخص کو سینکڑوں  انسانوں کے سامنے درندگی کا شکار بنا لیتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ ان انسان نما بھیڑ یوں  کی درندگیت و قہرمانیت کو دیکھ کر حقیقی بھیڑیے سبکی محسوس کرنے لگیں !

  ایک طرف تو پورے ملک کا یہ عام منظر نامہ ہے کہ شدت پسند عناصر  مسلمانوں اور اقلیتوں کو ہراساں کرنے کیلئے منصوبہ بند طریقے سے ماب لنچنگ  کی خونچکاں واردات انجام دے رہے ہیں تاکہ ان کے اندر مرعوبیت و مغلوبیت کا احساس پیدا ہو،یا پھر تصادم کا ماحول پیدا کرکے ملک کی فضا کو مکدر بنایا جاسکے اور اجتماعی طور پر حالات کو مسلم مخالف بنایا جا سکے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی بے حسی و بے غیرتی کی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ وہ حالات سے  کما حقہ سبق نہیں سیکھتے۔ اپنے عدم تحفظ کے ظہور کے وقت دو چار احتجاجات درج کراکے پھر خواب غفلت کے شکار ہو جاتے ہیں۔ امت کے واعظین و خطباء منبر و محراب سے زیادہ سے زیادہ اسلاف کی تاریخ کے ان گوشوں کو بیان کردیتے ہیں جن میں ان کی صبر آزما آزمائشوں کا ذکر  پایا جاتا ہے۔ بطور خاص جنگ بدر کا حوالہ دیتے ہیں کہ کیسے مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت نے کفار کے جم غفیر کے دانت کھٹے کر دئے۔ مخاطبین سے اسلاف جیسی ایمانی حرارت اور اسلامی غیرت پیدا کرنے کی اپیل بھی کیجاتی ہے لیکن یہ اپیل منبرومحراب اور اسٹیج تک ہی محدود ہوتی ہے،زمینی سطح پر منظم طریقے سے اس پر عمل در آمد بہت کم ہوتا ہے۔ منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے عظمت رفتہ پر نوحہ خوانی محض پدرم سلطان بود کی لن ترانی ثابت ہوتی ہے۔ تاریخ بیانی کا  حقیقی فائدہ تو اس وقت ہوگا جب تابناک ماضی میں روشن مستقبل کی تلاش اور اس کے مختلف گوشوں سے پندو نصائح اور عبرومواعظ کا جمع واستنتاج اصل ہدف ہو،مقصد محض لذت آشنائی اور تسکینِ گوش ہو تو اس سے لب و دہن کی واماندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جنگ بدر میں مسلمانوں  کی قلتِ تعداد اور بے سامانی کے باوجود فتح و کامرانی کی تاریخ جب بھی دہرائی جائے، ضروری ہے کہ قوم مسلم کو اہل بدر جیسا طرز حیات اختیار کرنے پر بھی ابھارا جائے۔ ملک میں جو عدم تحفظ کی صورت حال ہے اس سے نپٹنے کے لئے اسلاف کا سا اسلوب زندگی اختیار کر کے منبر و محراب سمیت زمینی سطح پر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے ۔

موجودہ ناگفتہ بہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ارباب زبان و قلم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھیں، آپسی اختلافات کو ختم کرنے کی تمام  ممکنہ تدابیر پر یکسوئی کے ساتھ غور وفکر کریں، کتاب وسنت کو اپنا مرجع و ماوی بنائیں، مسلکی نزاعات کی جکڑبندیوں سے آزاد ہوکر متحدہ پلیٹ فارم قائم کریں۔ قوم  مسلم کی ڈانواں ڈول کشتی کو ساحل مراد تک پہونچانےکے لئےاتحادامت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یقیناً اس طرح ذلت و رسوائی سے نجات اور عظمت رفتہ کی بازیابی ممکن ہو سکے گی۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان۔

تبصرے بند ہیں۔