اُردو زبان و ادب کا مردِ مجاہد: رشید حسن خاں

ابراہیم افسر

(میرٹھ، یوپی)

            اگر ہم ہندوستان کی تاریخ کا اجمالی جائزہ زبانوں کے اعتبار سے لیں تو پائیں گے کہ زبانوں کی ترقی میں عوام کا کردار نمایاں رہاہے۔ عوام نے اگر کسی ایک لفظ کو غلط طریقے سے استعال کیا تو یہی لفظ تاریخ کے اوراق میں سنہرے لفطوں میں درج ہو گیا۔ اگر ہم موجودہ دور میں دیکھیں تو ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں اُردو کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ جنگِ آزادی کی تحریک میں اس زبان کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ اُردو زبان کی شیرنی اور چاشنی کا ہی کمال تھا کے’ جے ہند‘ اور’انقلاب زندہ باد‘جیسے فلک شغاف نعرے ہماری تہذیب اور ثقافت کااٹوٹ حصہ بنے۔ یہی نہیں انڈین پینل کوڈکا ترجمہ تعذیراتِ ہند کے نام سے کیا گیا۔ 1835میں اُردو کو انگریزوں نے باقاعدہ سرکاری زبان قرار دیا۔ تقسیمِ وطن کے بعد اس زبان کو شک کی نظروں سے دیکھا گیا۔ لیکن ہر دور میں ایک ایسا طبقہ موجود رہا جس نے اپنے خون پسینے سے اُردو زبان و ادب کی خدمت کی بل کہ اس کی ترقی و ترویج کے لیے قربانیاں پیش کیں۔  اُردو کے اس طبقے میں بھی معدودے چند افراد نے رات دن ایک کر کے اس زبان کی آبیاری کی۔  ایسے ہی معدودے چند افراد میں ایک نام خدائے تدوئن رشید حسن خاں کا بھی،جنھوں نے اپنی ذاتی کاوشوں سے اُردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کرادر ادا کیا۔

            یہ سُن کر آپ لوگوں کو حیرانی اور استعجاب ضرورہو گا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے کردار میں محقق، مدون، ناقد،زبان و املاکے شیدائی رشید حسن خاں کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہی ہیں کہ رشید حسن خاں جیسے محقق و مدون اور نابغہ روزگار شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جو اپنا کردار خاموشی کے ساتھ ادا کر کے اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔  ان شخصیات کے کارنامے اتنے عظیم ہوتے ہیں کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔  خیر !یہ تو اُردو زبان و ادب کا بڑا المیہ ہے کہ کسی عظیم شخصیت کے کارہائے نمایاں کو اس کی زندگی میں سند کا درجہ حاصل نہیں ہو پاتا۔ یہ خوش نصیبی کم لوگوں کے مقدر میں آتی ہے۔ رشید حسن خاں،  اُردو ادب کی ایسی ہی قد آور شخصیت کا نام ہے جس کا ذکر کے بغیر اُردو تحقیق و تدوین، املا زبان و قواعد اور تبصراتی ادب کا باب ہمیشہ نا مکمل رہے گا۔ ان کے ادبی کارناموں کاپتھر اتنا بھاری ہے کہ اسے اُٹھا نے کے لیے ہمیں دوسرا رشید حسن خاں بننا پڑے گا۔ بات در اصل ملک کی تعمیر و ترقی میں اُردو زبان و ادب کے کردار کی ہو رہی ہے۔  میں اس حوالے سے آپ لوگوں کو رشید حسن خاں کے اُن کارناموں سے واقف کرانا چاہتا ہوں کہ جن کی وجہ سے ہندوستان کا نام اُردو دنیا میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔ بے شک رشید حسن خاں نے اسکول اور کالجوں میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، صرف مشرقی علوم کے بوتے ہی انھوں نے اُردو زبان و ادب کی خدمت کے علاوہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

            1939میں جب رشید حسن خاں شاہ جہاں پور میں آرڈیننس کلودنگ فیکٹری میں کام کرتے تھے تو اِسی زمانے میں اِن کے اندر علمی و ادبی ذوق و شوق پیدا ہوا۔ انھوں نے تین تین شفٹوں میں کام کرتے ہوئے طلسم ہوشربا کی تمام جلدیں پڑھ ڈالیں۔  اس کے علاوہ انھوں نے شوقین بک ڈپو، شاہ جہاں پور سے کرائے پرر کتابیں لے کر ان کا مطالعہ کیا۔ ان کے مطالعے کے شوق نے ان کے اندر اُرود ادب کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا۔ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے صرف پچیس برس کی عمرمیں انھوں نے اپنا پہلا مضمون ’’شبلی کی فارسی شاعری ‘‘ عنوان سے رسالہ’نگار‘مئی 1950میں تحریر کیا۔  انھیں دنوں انھوں نے احمد ندیم قاسمی کے قطعات کے مجموعے’’رم جھم‘‘پر بھی تبصرہ نما مضمون ’ندیم کے قطعات‘لکھا جو رسالہ ’شاعر ‘میں جولائی1950کے شمارے میں شائع ہوا۔ رسالہ’ شاعر‘، نومبر 1950میں ہی’ صفیؔ کی شاعرانہ قدر و قیمت‘عنوان سے مضمون تحریر کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد وہ ہندوستانی اور پاکستانی رسائل کا پابندی کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ رسالہ’ الحمرا‘، ’المنصور‘، ’نگار‘ اور’ نقوش‘، ’اُردو ادب‘، ’شاعر‘کے علاوہ’ سیارہ‘ میں شائع ہونے والے مضامین پر ان کی گہری نگاہ رہتی تھی۔ رشید حسن خاں اپنے ابتدائی زمانے سے ہی رسائل میں شائع ہونے والے مضامین کی زبان و بیان کے مسائل کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بعدان پر گرفت کرتے تھے۔ اُردو زبان میں در آئے غلط لفظوں کے استعمال کے تعلق سے انھوں نے رسالہ الحمرا، لاہور میں نومبر1952سے لے کر جون1953تک ایک قسط وار مضمون ’’اُردو ہماری زبان، ترتیبِ نو‘‘تحریر کیا۔ رشید حسن خاں کے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعدبہت سے ہم عصر ادیب ان سے خفا ہو گئے۔ چوں کہ خاں صاحب نے اُردو میں رائج غلط العام اور غلط العوام لفظوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کے استعمال کے طریقۂ کار کو مع مثالوں کے تحریر کیا تھا۔ اس مضمون کے اختمام پذیر ہوتے ہی مدیر رسالہ حامد علی خاں نے ’’اُردو کی ترتیب ِ نو‘‘کے عنوان سے باقاعدہ ایک بحث کا آغاز کیا۔ اس بحث میں شریک ہوتے ہوئے اکتوبر 1953کے الحمرا میں جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی نے ایک طویل مضمون ’’زبان کی ترتیبِ نو میری نظر میں ‘‘تحریر کیا۔  در اصل جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی نے اپنے مضمون میں رشید حسن خاں کے ذریعے پیش کی گئی اصلاحات پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ اثرؔ لکھنوی نے اپنے مضمون میں مثالوں اور دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ رشید حسن خاں اُردو زبان کی ترتیبِ نو کے سہارے شاہ جہاں پور کی زبان کو ہم پر لادنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  اثرؔ لکھنوی کے علاوہ پروفیسر سراج احمد علوی،ڈاکٹر تابشؔ، ڈاکٹر سلیم نے بھی رشید حسن خاں کے مضمون کے خلاف قلم اٹھاتے ہوئے رسالہ الحمرا کے مدیر کے نام خطوط ارسال کیے۔ لیکن رشید حسن خاں نے ان تمام اہل قلم کے اعتراضات کو جواب دیتے ہوئے مدیر رسالہ الحمراکے نام ایک مختصر لیکن جامع خط تحریر کیا جس میں انھوں نے دعوا کیا کہ جن صاحبان نے میرا مضمون پڑھ کر زبان و ادب،غلط العام اور غلط العوام کے حوالے سے جو سوالات قائم کیے ہیں انھیں میرا مضمون از سرِ نو پڑھنا چاہیے۔

            رشید حسن خاں نے اپنے بے لاگ تبصروں سے بھی اُردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ 1954کے بعدفیضؔ، مجروح ؔ،فراؔق، اثرؔ،،جوشؔوغیرہ کے علاوہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعروں اور افسانہ نگاروں کی زبان و بیان پر رشید حسن خاں نے طویل تبصرے رقم کیے۔  ان تبصروں میں شعرا و ادباکے کلام و کام کو زبان و بیان اور اسلوب کی کسوٹی پر پرکھا گیا۔ رشید حسن خاں کے تبصروں کی وجہ سے نئے شعرا نے اپنے اسلوب اور زبان و بیان کے مسائل کی جانب توجہ مبذول کی۔ غالب صدی اڈیشن (مرتب مالک رام) پر بھی ان کے تبصرے نے خوب شہرت حاصل کی۔  رشید حسن خاں نے اُرود زبان و ادب کی ترقی کے لیے اُردو ادب کی تاریخوں پر بھی خوب لکھا۔ ان تاریخوں میں تاریخ ِ ادب اُردو علی گڑھ کی پہلی جلد پر کیے گئے ان کے تبصرے نے اس تاریخ کی اہمیت اور افادیت پر سوالیہ نشان قائم کیے۔ یہاں تک کہ علی گڑھ تاریخ ادب اُردو کو بازار سے واپس منگوالیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ ادب اُردوپرکیے گئے ان کے تبصرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ رشید حسن خاں نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ ادب اُردو میں در آئی تاریخی سنین کی غلطیوں اور غلط واقعات و حوالوں پر گرفت کی۔

            رشید حسن خاں نے اُردو زبان و ادب کی تعمیر و ترقی کے لیے ’’اُردو املا‘‘اور’’زبان اور قواعد‘‘جیسی کتابیں تصنیف کیں۔  اُردو املا کتاب کورشید حسن خاں نے مسلسل 12سال کی محنت کے بعد لکھا تھا۔ اس کتاب میں رشید حسن خاں نے اس بات کو واضح کیا کہ’’ املا اور رسم الخط دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔   رسم خط نام ہے روش کا اور املا نام ہے لفظوں میں حرف کے تعین کا اور اس کے لکھنے کے طریقے کا۔  سات صفحوں کی اس کتاب میں،  میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اس میں سارے مسائل یکجا ہو جائیں ‘‘۔ رشید حسن خاں کی متذکرہ دونوں کتابوں میں اُردو املا،زبان، بیان،لفظوں کی بناوٹ،اس کے تلفظ اور استعال کے مسائل پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ موصوف نے بچوں کے لیے بھی ’’اُردو کیسے لکھیں ‘‘،،’’عبارت کیسے لکھیں ‘‘،’’انشا اور تلفظ‘‘وغیرہ کتابیں تحریر کیں۔  رشید حسن خاں کا ان کتابوں کو تحریر کرنے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ نئی نسل اُردو زبان و ادب کو بہتر طریقے سے لکھنا اور پڑھنا سیکھ جائے۔ اُردو املا میں کی گئی ان کی سفارشات کو ہندوستان اور پاکستان کے اُردو اخبارات و رسائل کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں نے اپنایا۔ مشہور افسانہ نگار انور خاں اور انور قمر نے سب سے پہلے رشید حسن خاں کے املا کے مطابق اپنے افسانے تحریر کیے۔   دونوں نے بعد میں اپنے افسانوی مجموعوں کو رشید حسن خاں کی خدمت میں ارسال کیا۔  املا کے باب میں رشید حسن خاں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آج زیادہ تر اشاعتی ادارے، اُردو کادمیاں اور اُردو کے فروغ کے لیے کام کرنے والی انجمنوں میں رشید حسن خاں کے املا کے مطابق کام ہوتا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اُرود زبان،نئی دہلی،اور انجمن ترقی اُردو ہند (نئی دہلی)اور غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے اپنی اشاعتوں میں رشید حسن خاں کے املا کو ترجیح دی ہے ساتھ ہی پاکستان کے اشاعتی اداروں نے بھی رشید حسن خاں کی املائی اصلاحوں اور سفارشات کو اپنے یہاں رائج کیا۔  ہم رشید حسن خاں کی املائی سفارشات سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن ان کی تجاویز سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔

            رشید حسن خاں نے اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کا واضح اشارہ کیا کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو اُردو زبان و ادب سے روشناس نہیں کرائیں گے تب تک اُردو زبان و ادب کی ترقی ممکن نہیں۔  ڈاکٹر صاحب علی نے جب رشید حسن خاں سے یہ سوال دریافت کیا کہ ’’نئی نسل کو اُردو زبان کی طرف کیسے راغب کیا جا سکتا ہے ؟تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا:

’’بیش تر اُردو والے اپنے بچوں کو اُردو پڑھانا ضروری نہیں سمجھتے۔  اس سلسلے میں سب سے اندوہ ناک صورتِ حال یہ ہے کہ اُردو کے جو بڑے اور مشہور لکھنے والے ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں اور اُستاد ہیں ان میں سے بیش تر کے بچے اُردو سے ناواقف ہیں۔  اسی طرح ہم اُردو والے ہی اُردو زبان کا دائرہ چھوٹا کرتے جا رہے ہیں۔  نئی نسل، اُردوزبان کی طرف راغب ہو سکتی ہے بہ شرط یہ کہ نئی نسل کے والدین اور اساتذہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔  ‘‘

(رشید حسن خاں کے انٹر ویوز،مرتب راقم الحروف،کتابی دنیا،نئی دہلی،2019،صفحہ149)

1970کے بعد جب اُردو زبان کے رسم الخط کو بدلنے کی بات منظر عام پر آئی تو ایک محبان اُردو اور شیدائی کی طرح رشید حسن خاں اس بات سے ہمیشہ نالاں رہے کہ کچھ اُردو والے ہی اُردو کا رسم الخط بدلنے پر آمادہ ہیں۔  رسم الخط بدنے کی بات کو انھوں نے ’’اُردو زبان کے لیے گالی‘‘قرار دیا۔ اپنے پاکستانی دورے کے دوارن رشید حسن خاں سے محمد طفیل، ڈاکٹر اکرام چغتائی، ڈاکٹر معین الرحمن، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،تحسین فراقی عطاء الحق قاسمی اور بیدار سرمدی نے ایک طویل انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں خاں صاحب سے سب سے زیادہ سوالات اُردو املا اور رسم الخط کے حوالے سے کیے گئے۔ جب عطاء الحق قاسمی نے رشید حسن خاں سے معلوم کیا کہ’’ہم بات کر رہے ہیں املا کی اور آپ نے ہندوستان میں بیٹھ کر یہ کام مکمل کیا،میرے ذہن میں کچھ اور خدشات بھی ہیں کہ ہم املا کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں لیکن وہاں رسم خط بھی محفوض ہے کہ نہیں ؟‘‘تو رشید حسن خاں نے اس تعلق سے جو باتیں کہیں وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔  خاں صاحب نے اپنے جواب میں کہا کہ اگر رسم خط کو بدلا گیا تو زبان ہی ختم نہیں ہو گی بل کہ تہذیب بھی ختم ہو جائے گی۔ رسم خط تہذیب کی نمایندگی کرتا ہے۔ رشید حسن خاں کا مکمل جواب ملاحظہ کیجیے:

’’یہ بہت اچھا سوال ہے۔ یہ عجیب صورت حال ہے کہ اب سے پہلے رسم خط کی اہمیت کا احساس اُردو والوں کو اتنا نہیں تھا جتنا اب ہے۔ ۔ ۔ یہ احساس اب شدت اختیار کر یا ہے۔ کہ اگر رسم خط ختم ہو گیا تو صرف زبان ہی ختم نہیں ہو گی بل کہ تہذیب ہی ختم ہو جائے گی۔ اس کی خوش گوار صورت یہ ہے کہ ساؤتھ میں جنوبی ریاستوں اور مہاراشٹر وغیرہ میں انہوں نے زبان اور رسم خط کو تہذیب سے جوڑ لیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر شخص اصرار کرتا ہے کہ رسم خط یوں ہی رہے گا،کیوں کہ اگر یہ نہ رہا تو وہ تشخص ختم ہو جائے گاجو زبان اور اس زبان کو بولنے والوں کی تہذیب کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ خیال اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا کہ رسم خط تہذیب کی نمایندگی کرتا ہے۔ اب جب سے یہ خیال آیا ہے بعض حالات کی بنا پر تب سے یہ خطرہ کم ہو گیا ہے ۔  ‘‘

(رشید حسن خاں کے انٹر ویوز،مرتب راقم الحروف،کتابی دنیا،نئی دہلی،2019،صفحہ99)

رشید حسن اُردو اکادمیوں کے نا اہل اور ناکارہ ذمہ داروں سے ہمیشہ خفا رہتے۔ ان کا اس ضمن میں ماننا تھا کہ جب تک اُردو اکادمیاں اپنا کردار صحیح ڈھنگ اور بہتر طریقے سے ادا نہیں کریں گی تب تک صوبائی سطح پر اُردو کی ترویج اور اشاعت ممکن نہیں۔   رشید حسن خاں ادب کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ موصوف اپنے سیاسی تبصروں سے اپنے ہم عصرادیبوں کو با خبر رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سیاست دانوں سے ہمیں اُردو کے فروغ کے لیے کام کرانا چاہیے۔ لیکن خود رشید حسن خاں سیاسی لوگوں اور سیاست دونوں سے دور رہنا پسند کرتے تھے۔ رشید حسن خاں ہندوستان میں اُردو زبان کے مستقبل کے لیے فکر مند رہتے تھے۔  وہ چاہتے تھے کہ اُردو زبان کے پُرانے مراکز میں اُردو زندہ و تابندہ رہے ساتھ ہی اُردو کے نئے مراکز جہاں ابھی یہ زبان انگڑائی لے رہی ہے ان پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ ان تمام باتوں کو وہ اپنے خطوط اور انٹرویوز میں دہراتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب علی نے جب ان سے معلوم کیا کہ’’ اُردو زبان کے آپ ایک بڑے اسکالر ہیں۔  اس کا آپ کے نزدیک ہندوستان میں مستقبل کیا ہے؟‘‘تو رشید حسن خاں نے اُردو زبان کے پرانے اداروں اور مراکز کی زبوں حالی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

’’یہ بڑی عجیب صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ جو اُردو کے پُرانے مراکز رہے ہیں، مثلاً شمالی ہندوستان میں وہاں اُردو سمٹ رہی ہے اور اس کا دائرہ چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور جو زبان کے غیر روایتی مر کز ہیں جیسے ممبئی، گجرات اور کرناٹک وغیرہ،یہاں اُردو زبان کو فروغ مل رہا ہے اور ہاں بِہار میں بھی یہ باقی رہے گی اور فروغ پائے گی۔ کیوں کہ بِہار کے لوگوں نے بڑی جد و جہد کی ہے اور سیاسی ذریعوں کو استعمال کیا ہے اس زبان کی حفاظت اور فروغ کے لیے اور اس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔  ‘‘

(رشید حسن خاں کے انٹر ویوز،مرتب راقم الحروف،کتابی دنیا،نئی دہلی،2019،صفحہ148)

 رشید حسن خاں طلبہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ طلبہ کی مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرنا موصوف اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ جہاں ایک جانب انھوں نے اپنے ملنے والوں سے کہہ رکھا تھا کہ ’ملنے سے قبل فون کر لیا کرو،‘وہیں دوسری جانب طلبہ کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ طلبہ کو وہ اُردو کاروشن مستقبل گردانتے تھے۔ دہلی یونی ورسٹی کے گائر ہال میں ان سے ملنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد طلبہ کی ہوتی تھی۔ ہندوستان کی مختلف یونی ورسٹیز میں دیے گئے ان کے خطبات کو سننے والوں میں اساتذہ کے علاوہ کثیر تعداد طلبہ کی ہوتی تھی۔ ان کے ادبی و علمی، املا وزبان کے مسائل پر دئے گئے خطبوں کو سُن کر جواں ہوئی نسل موجودہ دور میں ہندوستان کی مختلف دانش گاہوں،  اکادمیوں، انجمنوں میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور بہت سے لوگ تو اپنا کردار ادا کرنے کے بعد رٹائر بھی ہو چکے ہیں۔  شاہ جہاں پور منتقل ہونے کے بعد بھی انھوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ ہندوستان کے کسی بھی گوشے سے طلبہ کو اُردو زبان و ادب کے سلسلے میں کوئی دشورای در پیش آتی ہے تو وہ ان سے کسی بھی وقت مل سکتا ہے یا رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ رشید حسن خاں اپنے گھر پرچھوٹے بچوں کو اُردو زبان سکھاتے تھے۔

            رشید حسن خاں کے خطوط کی ورق گردانی کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اُردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کتنے فکر مند تھے۔ اپنے ادب نواز دوستوں کو ہمیشہ صحیح اُردو لکھنے اور بولنے پر آمادہ کرتے تھے۔ رشید حسن خاں کے خطوط میں سب سے زیادہ باتیں اُردو املا اور زبان کے مسائل پر ہی ہیں۔  اگر ان کے کسی شاعردوست نے خاں صاحب سے شاعری سے متعلق کچھ دریافت کیا تو بقول مرزا غالب  ؎

بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھُلا

رکھیوں یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھُلا

کے مصداق لاتعداد اشعار بیک وقت رقم کر دیے گئے۔ ان کی سفارشات کو ان کے نیاز مند شاعروں نے تسلیم بھی کیا۔ رشید حسن خاں عمر کے آخری دور میں کلامِ اقبال، غرائب الغات اور امراؤ جان ادا کی تدوین کرنا چاہتے تھے۔ ان کاموں کے لیے انھوں نے کارڈس اور نوٹس تیار کررکھے تھے۔ لیکن ان کی عمر نے وفا نہ کی۔ اور یہ کام ادھورے ہی رہ گئے۔ البتہ ان کی زندگی میں، غالبؔ کے حوالے سے جو کام یعنی ’گنجینۂ معنی کا طلسم ‘ نا مکمل تھااُسے انجمن ترقی اُردو، ہند اور غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی نے باہمی اشتراک سے مکمل کیا ہے۔  گنجینۂ معنی کا طلسم رشید حسن خاں کا ڈریم پروجیکٹ تھا۔ اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل ہی انھوں نے اس کام کو مکمل کرکے ڈاکٹر خلیق انجم کی خدمت میں ارسال کیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر خلیق انجم کی زندگی میں بھی یہ کام منظرِ عام پر نہ آ سکا۔ رشید حسن خاں کے نیاز مند اور انجمن ترقی اُردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی کی کاوشوں اورغالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر رضا حیدر کی غالب شناسی کی وجہ سے یہ اہم کام تین جلدوں میں منظرِ عام پر آیا۔

            رشید حسن خاں نے اپنی تدوینی خدمات کے ذریعے بھی اُردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمت کی ہے۔ باغ و بہار،فسانۂ عجایب، مثنوی سحر البیان،مثنوی گلزارِ نسیم،مثنویاتِ شوق،کلیاتِ جعفر زٹلی،دہلی کی آخری شمع،نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی،گذشتہ لکھنؤ،مقدمہ شعر و شاعری،دیوانِ حالی، مصطلحاتِ ٹھگی،انتخابِ ناسخ،انتخابِ مضامین شبلی وغیرہ کلاسکی متون کی تدوین نے اُردو زبان و ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف اداروں نے رشید حسن خاں کی ادبی خدمات کے صلے میں انھیں انعامات و اعزازات سے بھی نوازا ہے۔ یہاں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ آج دنیا کے کسی بھی خطّے یا گوشے میں کوئی اُردو ادارہ،کالج یا یونی ورسٹی قائم ہے وہاں پر رشید حسن خاں کے ادبی کارناموں بالخصوص ان کی تدوینات کو انھوں نے اپنے نصاب میں شامل کیا ہوا ہے۔ یہ بات ہامرے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔

            رشید حسن خاں، بے شک ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان کے افکار،نظریات،ترجیحات و توضیحات سے نئی نسل روشناس ہو رہی ہے۔ جدیداُردو تحقیق میں حافظ محمود خاں شیرانی،قاضی عبدالودو اور ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے بعد رشید حسن خاں کا نام نہایت ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔  رشید حسن خاں تا حیات دامے، درمے، قدمے اورسخنے اُردو ادب کی زلفوں کو سنوارتے رہے بالخصوص ان کے ادبی کارناموں نے ملک کی تعمیر و ترقی کے ساتھ اُردو زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔