اذان اور دعوت میں  تعلق (آخری قسط)

 مفتی کلیم رحمانی

  چونکہ دنیا میں  ہر دور میں  ابلیس اور انسان کی بڑائی کا مسئلہ ہی سب سے زیادہ خطر ناک رہا ہے، اسلئے اللہ تعالیٰ نے ابلیس اور انسان کی بڑائی کے تصور کو ختم کرنے اور اپنی بڑائی کا نقش بٹھانے کے لئے اسلام کی دعوتی، تعلیمیاور عباداتی نظام میں  بڑی اولیت، اہمیت اور تکرار کے ساتھ اپنی کبریائی کے تذکرہ اور حکم رکھ دیا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید کی دوسری وحی میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی کبرائی کا اعلان کرنے کا حکم دیا، چنانچہ سورئہ مدثر میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  یَایُّھَا الْمُدَّثّر قُمْ فَاَنْذِرْہ وَ رَبَّکَ فَکّبِّرْہ۔

 (ائے چادر اوڑھنے والے اٹھئے اور ڈرائیے اور رب کی بڑائی بیان کیجئے۔)

نزول کے لحاظ سے یقینا دوسری وحی ہے لیکن دعوتی لحاظ سے یہ پہلی وحی ہے۔ اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام میں  اللہ کی کبریائی کی کتنی اہمیت ہے، اسی طرح ماہ رمضان کے روزوں  کی فرضیت اور مقصدیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وَ لِتُکَبَّرُوا اللہِ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُروْنَ (بقرہ ۔185)

(تاکہ تم اللہ کی کبریائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں  ہدایت دی ہے۔ اور تاکہ تم شکر گزار بنو)

اسی طرح سورئہ حج میں  قربانی کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبَّرُوا اللہَ عَلٰی مَاھَرٰکُمْ وَ بَشّرِالمُحْسِنِیْنْ (حج 37)

 اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قربانی کے جانور مسخر کردیئے ہیں  تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں  ہدایت دی اور بھلائی کرنے والوں  کو خوشخبری سنا دیجئے۔ یہی وجہ ہے کہ جانوروں  کو ذبح کرتے وقت جو کلمات کہہ جاتے ہیں  ان میں  اللہ کی بڑائی کا کلمہ بھی شامل ہے ۔ چنانچہ کسی بھی جانور کو  بِسمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْکہہ کر ذبح کیا جاتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام نظام زندگی کے تمام شعبوں  میں  اللہ تعالیٰ کے حکم کو سب بڑا رکھنا چاہتا ہے۔

غرض یہ کہ اذان کے پہلے کلمہ اللہُ اَکْبَرْمیں  اسلام کے سیاسی نظام کے غلبہ کی دعوت ہے، اور تمام غیر اسلامی نظام بشمول جمہوری نظام کے غلبہ کا انکار ہے، یقینا جب معاشرہ میں  اذان فہمی کی تحریک چلے گی تو ضرور باطل پرستوں  کی طرف سے خصوصاً غیر اسلامی نظام کے حاملین کی طرف سے مخالفت بھی ہوگی، لیکن بہت سے افراد کی طرف سے حمایت بھی ہوگی، کیونکہ اسلامی نظام کے غلبہ کی بات عین عدل پر مبنی ہے، اور بہت سے انسانوں  کی ضمیر کی آواز ہے، اور پھر اللہ کی یہ سنت ہے کہ جب کوئی فرد اور قوم اللہ کی  بڑائی کی دعوت پہونچنے کے بعد اس کا انکار کرے، اور اہل حق کے پاس طاقت و قوت نہ ہوتو اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں  کو خود ہی اس دنیا میں  سزا دیتا ہے، اور اہل حق کو غالب کرتا ہے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خود بھی  اللہُ اَکْبَرْ کے پیغام سے جڑے اور غیر مسلموں  کو بھی اس کے پیغام کی دعوت دیں ، ابھی تو اذان کے متعلق بہت سے غیر مسلموں  کی غفلت اور غلط فہمی کا عالم یہ ہے کہ وہ  اللہُ اَکْبَرْ کے متعلق یہ سمجھتے ہیں  کہ مسلمان دن میں  سے پانچ(5) مرتبہ اذان میں  اللہ کے ساتھ، اکبر بادشاہ کو بھی یاد کرتے ہیں ، اور پکارتے ہیں ، ان بیچارے غیر مسلموں  کو کیا معلوم کہ جن مسلم بادشاہوں  نے ہندوستان میں  اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ان میں  اول نمبر پر اکبر بادشاہ کا نام ہے، یہاں  تک کہ اُس نے دین الٰہی کے نام سے ایک نیا دین ایجاد کیا تھا، لیکن وہ دین بہت جلد ختم بھی ہو گیا۔

اللہُ اَکْبَرْ کے کلمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جہاں  لوگوں  کے زیادہ مجمع کا امکان اور موقع ہے وہان یہ کلمہ زیادہ مرتبہ رکھا گیا ہے، کیونکہ جہاں  زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں ، وہاں  اختلاف اور جھگڑے کا امکان زیادہ بڑھ جاتاہے، اور اختلاف اور جھگڑے کی بنیاد زیادہ تر اپنے حکم کو بڑھا سمجھنا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع پر اللہُ اَکْبَرْ کی تلقین و تکرار کو زیادہ مرتبہ رکھ دیا ہے، تاکہ ہر ایک کی توجہ زیادہ سے زیادہ اللہ ہی کے حکم کی بڑائی کی طرف لگی رہے۔

چنانچہ دنیا میں  مسلمانوں  کا سب سے بڑا اجتماع حج کے موقع کا اجتماع ہے، اسی لیے حج کے ارکان و افعال کی ادائیگی میں اللہُ اَکْبَرْ کے کلمہ کا ورد زیادہ رکھا گیا ہے، تاکہ کوئی اپنی بڑائی کا مظاہرہ نہ کرے، اور نہ کوئی اللہ کے سوا کسی اور انسان کی بڑائی کو تسلیم کرے، بلکہ ہر حاجی اپنی زبان سے ہر وقت اللہ ہی کی بڑائی کا ورد کرتے رہے، جیسے تکبیر تشریق ہی کو لے لیا جائے جو ذی الحج کی نو تاریخ کی فجر کی نماز سے تیرہ ذی الحج کی عصر تک ہر فرض نماز کے پڑھی جاتی ہے، تکبیر تشریق میں  چار (4)مرتبہ اللہُ اَکْبَرْکے کلمہ کا ورد ہے، مثلاً:

اللہُ اکْبَر، اللہُ اَکْبَرْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبرْ وَ لِلٰہِ الْحَمْدْ۔

(اور یہ تکبیر تشریق دنیا کے تمام مسلمانوں  کے لئے ماہ ذی الحج کی نویں  تاریخ کی فجر سے تیرہویں  تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین ہے تاکہ حج کے ایام میں  عام مسلمانوں  کی توجہ بھی صر ف اللہ ہی کی بڑائی کی طرف لگی رہے۔

حج کے اجتماع کے بعد دنیا میں  مسلمانوں  کے دو بڑے اجتماعات ہیں ، ایک عید الفطر، اور دوسرا عید الاضحی، چنانچہ ان دونوں  اجتماعات میں  بھی خصوصیت کے ساتھ اللہُ اَکْبَرْ کی تلقین زیادہ رکھ دی گئی ہے، چنانچہ ہدایت ہے کہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے اور آتے ہوئے، تکبیر تشریق کا ورد زیادہ سے زیادہ کیا جائے، اسی طرح عیدین کی نماز میں  چھ(6) زائد تکبیرات رکھ دی گئی ہیں ، تاکہ عیدین کے اجتماع کا پورا کا پورا مجمع زیادہ سے زیادہ صرف اللہ ہی کی بڑائی کی طرف متوجہ رہے، اسی طرح، نماز جنازہ کا اجتماع بھی ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے، چنانچہ نماز جنازہ میں  بھی اللہُ اَکْبَرْ کا کلمہ زیادہ مرتبہ رکھا گیا ہے، ایک طرح سے نماز جنازہ تکبیرات پر ہی مبنی ہے، دیگر اذکار اور دعائیں  اس میں  سنت کے درجہ میں  ہیں ، اسی طرح ہر اہم خبر اور خوشی کے موقع پر اللہُ اَکْبَرْ کا کلمہ کہنے کا حکم ہے تاکہ اللہ ہی کی بڑائی کی طرف توجہ رہے، روایات   میں  ہے، کہ جب حضرت عمرفاروقؓ نے ایمان کا اعلان کیا تو اللہ کے رسولؐ اور صحابہ کرامؓ نے ایسے زور سے اللہُ اَکْبَرْکے کلمہ کی صدا بلند کی کہ مکہ کے پہاڑ گونج اٹھے۔

نمازکی تکبیر تحریمہ اللہُ اَکْبَرْ کہتے وقت دونوں  ہاتھوں  کو کانوں  تک اٹھانے کی جو سنت ہے، اس سے بھی یہی چیز ظاہر ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کی بڑائی کے سامنے پست سے پست رکھے اور اپنی ظاہری ہیئت سے بھی اسے ثابت کرے، چنانچہ تکبیر کے وقت دونوں  ہاتھ کانوں  تک  اٹھاتے ہوئے ایک نمازی کی وہی شکل بنتی ہے، جو ایک مجرم کی بادشاہ کے سامنے بنتی ہے۔یا کسی استاذ کے سامنے ایک غلطی کرنے والے شاگردگی کی بنتی ہے، لیکن جس طرح ایک بادشاہ اور استاذ اپنے سامنے دونوں  ہاتھوں  کو کانوں  تک اٹھائے ایک مجرم اور شاگرد کو کھڑا دیکھ کر خوشی ہو جاتے ہیں ، اور اسے معاف کر دیتے ہیں ، اس سے کہیں  زیادہ اللہ اس بندہ سے خوش ہوتا ہے جو اس کے سامنے نادم ہو کر پست ہو کر کھڑے ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ پستی صرف ظاہری ہیت اور جسم ہی کی نہ ہو، بلکہ دل و دماغ کی بھی ہو، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے نمازی جو برسوں  سے تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے اپنے دونوں  ہاتھوں  کو کانوں  تک اٹھاتے چلے آرہے ہیں ، وہ میدان سیاست میں  اپنے سروں  کو باطل نظام کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں ، اور اسلامی نظام کی مخالفت میں  سینہ تان کر کھڑے ہوئے ہیں ، اس کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ابھی مسلمانوں  نے اذان اور نماز کے پہلے کلمہ اللہُ اَکْبَرْ  کو سمجھنے کی کوشش نہیں  کی، یہی اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب فرعون کی بیوی آسیہ نے سمجھ لیا تو اس کے لئے فرعون کی مخالفت آسان ہوگئی اور یہی  اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب جب فرعون کی دعوت پر آئے ہوئے جادو گروں  نے سمجھ لیا تو ان کے لیے بھرے مجمع میں  فرعون کے جان سے مارنے کی دھمکی کے باوجود اللہ پر ایمان لانا آسان ہوگیا، اور یہی  اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب جب حضرت سمیہؓ نے سمجھ لیا تو ایمان کی حفاظت کی خاطر ابوجہل کے نیزہ سے مرنا اس کے لیے آسان ہوگیا، یہی اللہُ اَکْبَرْ کا مطلب جب حضرت خبابؓ اور حضرت بلالؓ نے سمجھ لیا اور قبول کر لیا تھا، تو ان کے لیے سردار ان قریش کا مار کھاتے ہوئے’ احد احد‘کہنا آسان ہو گیا تھا، اور آج کے مسلمانوں  کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ انہوں  نے     خاص طور سے میدان سیاست میں  اللہُ اَکْبَرْ کے مطلب کو، نہ سمجھنے کی کوشش کی ہے اور نہ قبول کرنے کی کوشش کی ہے، ہاں  کلمہ کفر کی بڑائی کو میدان سیاست میں  مسلمان سمجھے ہوئے بھی ہیں ، اور قبول بھی کیے ہوئے ہیں ، جس کی بناء پر لاکھوں  کروڑوں  مسلمانوں  کی ہلاکت کے باوجود میدان سیاست میں  کلمہ کفر کی سر بلندی کے لئے جان و مال کی قربانی آسان ہو گئی ہے، واضح رہے کہ آج کے دور میں  میدان سیاست میں  سب سے بڑا کلمئہ کفر، جمہوری نظام ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں  آج تک میدان سیاست میں  جتنے مشرکانہ، کافرانہ اور ظالمانہ نظام زندگی وجود میں  آئے ہیں  ان میں  سب سے زیادہ ہلاکت خیر اور ظلم و ستم پر مبنی جمہوری نظام ہی ہے، چنانچہ جب سے عالمی سطح پر اس نظام کا غلبہ ہوا ہے، تب سے دنیا میں  کہیں  بھی اور کبھی بھی میدان سیاست میں  امن و امان، اور عدل و انصاف قائم نہیں  ہو سکا.

چنانچہ دنیا میں  1914ء سے 1918ء تک پہلی جنگ عظیم جمہوری نظام کے غلبہ کی سرپرستی میں  ہوئی، جس میں  ڈھائی کروڑ نا حق انسان مارے گئے، اسی طرح 1940ء سے 1944 تک دوسری جنگ عظیم بھی جمہوری نظام کے غلبہ کی سرپرستی میں  لڑی گئی جس میں  چار کروڑ ناحق انسان مارے گئے، اور اس کے بعد بھی ہر ملک ایک طرح سے میدان جنگ بناہوا ہے، جن میں  اب تک کروڑوں  تاحق انسان مارے گئے ہیں ، اور مارے جا رہے ہیں ، واضح رہے کہ ہر وہ نظام زندگی اسلام کی نظر میں  کافرانہ نظام زندگی ہے، جس میں  اللہ کا حکم کی سب سے بڑا نہ ہو، اور وہی نظام زندگی اسلام کی نظر میں  حق ہے، جس میں  اللہ کے حکم کی بڑائی ہو، اور اس کے بعد رسول اللہﷺ کے حکم کی بڑائی، اور تیسرے نمبر پر امیر المومنین کے حکم کی بڑائی، لیکن امیر المومنین کی اطاعت مشروط ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے ساتھ، مطلب یہ کہ اگر کوئی امیر المومنین، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت میں  کوئی حکم دے تو اس کا حکم نہیں  مانا جائے گا۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ جس دین نے اپنے ماننے والوں  کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں  امیر المومنین کی اطاعت کی اجازت تک نہیں  دی، آج اسی دین کے ماننے والے میدان سیاست میں کافر اور بے دین حکمرانوں  کی اطاعت کو ضروری سمجھ رہے ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے منہ موڑ کر حکمرانی کر رہے ہیں ، اور طرفہ تماشہ یہ کہ ان باطل حکمرانوں  کی اطاعت کو قرآن سے ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے، ایسے ہی درباری علماء اور عوام کے متعلق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ۔

خود بدلتے نہیں  قرآن کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

ان غلاموں  کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب

کہ سکھاتی نہیں  مومن کو غلامی کے طریق

تبصرے بند ہیں۔