ارتقائی سوچ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

محبوب ومحب کے درمیان جوباہمی ارتباط اورقلبی لگاؤہوتاہے، اس سے وہی شخص واقف ہوسکتاہے، جس نے کبھی کسی سے محبت کی ہو، کبھی کسی کودل دیاہو، ہرایرے غیرے نتھوخیرے کے بس میں نہیں ہے کہ وہ بے دھڑک اس ’’اہم موضوع‘‘ پراظہارخیال فرماناشروع کردے؛ لیکن رفتارزمانہ کے شانہ بہ شانہ چلنے کی سعیِ لاحاصل کرنے والے موضوع سے ناواقف کچھ ’’من چلے ‘‘اس اہم موضوع پر لب کشائی کرنااپنے لئے ’’سرمایۂ سعادت‘‘اورکچھ تو’’باعث نجات‘‘بھی سمجھ بیٹھے ہیں ؛ چنانچہ ہرگلی کوچے اورنکڑ پرایسے من چلے ’’دن ہویارات، ہم ہیں تمہارے ساتھ‘‘ پرعمل پیرا نظرآتے ہیں اورہرگزرنے والی اقابلا کواس طرح گھور گھور کر دیکھتے ہیں کہ خواہ دوہ تہہ درتہہ چادرکے اندرہو، اس جسمِ نازک چھلنی چھلنی ہوکررہ جاتاہے، کچھ پرتوعجیب قسم کے جملے بھی کس دیتے ہیں، جس سے کوئلے جیسی کالی اقابلہ کادماغ خواہ مخواہ ساتویں آسمان پرجاچڑھتاہے۔

ایسے ہی کچھ من چلوں سے ایک دومرتبہ میرابھی سابقہ پڑااورمیراذاتی خیال ہے کہ اچھاہی ہوا، ورنہ آپ تواُن کے حوصلے دیکھنے سے رہے، نیز ان کے کارہائے نمایاں کوسن کر رشک ؛ بل کہ حسد اورجلن کے مارے راکھ کے ڈھیرمیں تبدتل بھی نہیں ہوسکتے۔

ہوایوں کہ ایک دفعہ میں اپنے محلے کی ایک گلی گزررہاتھا، اتفاق دیکھئے کہ اسی وقت نل بھی آنے لگا، محلہ کی بچبن سے لے کرپچپن تک کی خواتین، دوشیزائیں اوربچیاں اپنے اپنے گھروں سے گھڑے لے لے کردوڑپڑیں اورپانی بھربھرکرلوٹنے لگیں، کچھ دوشیزاؤں نے گھڑے اپنے کندھوں پراٹھارکھے تھے، ایک من چلے کابھی ادھرسے گزرہوا، اس نے ایک نئے، مگردل چیرانداز میں اظہارعشق کرتے ہوئے کہا: ’’کاش! میں گھڑاہوتا، تیرے کاندھے پردھراہوتا‘‘، میں تواس منھ جلے عاشق نامرادکے اِس دل چیراندازپربلبلااُٹھاکہ ’’ہائے کم بخت! تونے کیسا اظہارعشق کیا؟‘‘۔

دوسری مرتبہ محلہ سے نکاسی والی سڑک سے گزررہاتھا، کچھ ’’قتالہائے عالم‘‘’’ہوائی نقاب‘‘پہنے ہوئے راستہ سے گزرتی ہوئی ملیں، ہوائی نقاب کے دونوں پلوآوارہ ہواؤں میں آوارہ گردی کررہے تھے، اتفاق سے ان کا سدھایاہواکتابھی مستی میں جھومتے ہوئے ان پلوؤں سے اٹکھیلیاں کرنے لگا، یہ دیکھ کرایک دل جلے کادل جلنے لگا، پھرنم ناک آنکھوں اورغم ناک آوازمیں اس طرح گویاہوا، جیسے اب تب آسمان ٹوٹ کرگرنے اورزمین پھٹ پڑنے کے لئے تیارہو، کہنے لگا: ’’کاش! میں کتاہوتا‘‘، اس غم ناک آواز سے نہ توآسمان گراورناہی زمین ہی پھٹی؛ البتہ وجدانِ عشق کرچی کرچی ہوکررہ گیا، اورمیں سوچتارہ گیا کہ واقعی انقلابی تحریکِ ترقی نے ذہنی، دماغی اورعقلی سوچ کوارتقاکی اس منزل تک پہنچادیاہے، جہاں تک ارسطواورکنفیوشش کی روح نہ پہنچی ہوگی۔

ارتقائی سوچ کے حامل انھیں جیسے عاشقوں کی زبانی سنتے سنتے میں نے بھی سناہے(شایداپنے لئے وہ جواز نکالناچاہتے ہوں )کہ لیلیٰ کامجنوں قیس لیلیٰ کی گلی کے کتوں کوچوماکرتاتھا، چلئے مان لیتاہوں ؛ لیکن یہ تومعلوم ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے(اورآج توبہری اورگونگی بھی ہونے لگی ہے)قیس کولیلیٰ سے شدیدمحبت تھی؛ بل کہ یوں کہہ لیجئے وہ لیلیٰ کی محبت میں اندھاتھا، یہی وجہ ہے کہ سفرحج میں بھی خداکویادکرنے کے بجائے لیلیٰ کی ہی دہائی دیتارہاتھا، یہ بھی معلوم ہے کہ لیلیٰ سیاہ رات کی طرح کالی تھی، شایدقیس نے جس کتے کوچوماہو، وہ کالاہی رہاہو، اندھا دیکھ توسکتانہیں، کالے کتے کوہی لیلیٰ سمجھ کربوسہ دے مارا، بعد میں معلوم ہواکہ یہ توکتاتھا، اب مجبوراً یہ کہناپڑاکہ محبت اتنی شدیدتھی کہ لیلیٰ کی گلی کاکتابھی پیاراتھا۔

بات جب کتے کی آہی گئی ہے تویہ بھی بتاتاچلوں کہ ’’آقائے فیشن‘‘ مغرب میں کتے کوبڑی اہمیت حاصل ہے؛ حتی کہ وہاں کی خواتین اپنے شوہروں کی جدائی کوگواراکرلیتی ہیں ؛ لیکن کتے کی جدائی کاغم انھیں پاگل بنادیتاہے، یہ توان کے نزدیک قابل برداشت ہے کہ انسانوں پرظلم وستم کے پہاڑتوڑے جائیں ؛ لیکن یہ قطعاً ناقابل قبول ہے کہ کسی کتے کوخراش بھی آئے، کتے کومعمولی خراش لگانے پرجیل کی ہوابھی کھانی پڑسکتی ہے، جب کہ انسان کوقتل کرنے پراُف بھی نہیں کیاجاتا، یہ خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک ہماراملک اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوسکاہے؛ لیکن یقینِ کامل ہے کہ جلدہی یہاں بھی کتے کووہی اہمیت حاصل ہوجائے گی،ہمارے یہاں آج بھی کسی کوگالی دینی ہویانفرت کااظہارکرناہوتواسے کہتے ہیں : کتاکہیں کا، لیکن شایدیہ جملہ اگرمغرب میں کہاجائے تووہاں کے لوگ خوشی سے تالیاں بجانے لگیں اورہوسکتاہے کہ کہنے والے کوکندھے پراٹھاکرناچنے بھی لگیں، اپنے یہاں جب کوئی کسی سے بہت زیادہ پیارجتاناچاہتاہے توکہتاہے: میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتاہوں ؛ لیکن وہاں محبت کوبتانے کے لئے کہناپڑتاہے: میں تم سے اتناہی ہیارکرتاہو، جتنااپنے کتے سے کرتاہوں۔

یہ ہے انقلا بی تحریکِ ترقی کی ارتقائی سوچ، اب دیکھئے ’’آگے آگے ہوتاہے کیا؟‘‘۔

1 تبصرہ
  1. Ms saqib کہتے ہیں

    بھت اچھا لگا، بس اقا بلہ کے معنی نہیں سمجھ آیا اسکو بتا دیجئے اور اسکا ما لہ و ماعلیہ کیا ہے، بہت بہت شکریہ

تبصرے بند ہیں۔