دو روزہ بین الا قوامی دا ستان گو ئی اور کہانی ورکشاپ کا انعقاد

 ’داستان ہجرتوں کی‘ جا وید دانش کے ذریعہ پیش کی جانے والی ایک جدید داستان ہے جس میں انہوں نے ہجرت کے کرب کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ داستان میں ان نو جوانوں کا درد و غم اور زندگی موجود ہے جنہوں نے تلاش معاش میں اپنے ملک ہندو ستان سے ہجرت کی۔ یہ خیالات تھے ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن،میرٹھ ڈاکٹر وضا حت حسین رضوی کے جو شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ اور فخرالدین علی احمد میمو ریل کمیٹی کے با ہمی اشتراک سے منعقدہ دو روزہ بین الا قوامی دا ستان گو ئی اور کہانی ورکشاپ کے شاندار آ غاز کے مو قع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جا وید دانش خود بھی مہا جر ہیں اور وہ ہجرت کے درد سے گذرے ہیں ۔ تبھی ان کی پیش کش اتنی شاندار اور انوکھی ہے۔ انہوں نے داستان گوئی کو نئی زندگی دی ہے۔

اس سے قبل پرو گرام کا آغاز ڈا کٹر محمد خا لد نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔بعد ازاں شو بی رانی نے ہدیۂ نعت پیش کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی استقبال اور کہا نی ورکشاپ کا تعارف صدر شعبۂ اردو ڈا کٹر اسلم جمشید پوری،داستان گو کا تعارف مدیحہ اسلم اور شکریے کی رسم ڈا کٹر شاداب علیم نے انجام دی۔پرو گرام کی صدارت کے فرا ئض کناڈا سے تشریف لائے معروف داستان گو جا وید دانش نے فر مائی۔مہمانان ذی وقار کی حیثیت سے پرو فیسر وائی وملا(ڈی ایس ڈبلو،سی سی ایس یو نیورسٹی)، ڈا کٹر جمال احمد صدیقی(ڈپٹی لا ئبریرین، چودھری سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ اور ڈا کٹر معرا ج الدین احمد(سابق وزیر حکو مت اتر پردیش) نے شر کت کی۔

 اسی دوران دا ستان گوئی کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے جاوید دانش کو بین الاقوامی انتظار حسین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ساتھ ہی جاوید دانش اور دیگر مہمانان کے ہاتھوں ڈا کٹر اسلم جمشید پو ری کی نئی کتاب’’تجزیے‘‘ کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈا کٹر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ داستا نیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں ۔ یہ داستانوں کا جدید دور ہے۔ اب ان داستانوں میں ماضی کی طرح مافوق فطرت عنا صر نہیں بلکہ گوشت پوست کے انسان، ان کے غم، ان کی خو شیاں ، تیج تہوار، کھیل تما شے اور زندگی کی باریکیاں ہیں ۔جا ویددانش بھی دور حاضر کاداستان گوئی کے حوالے سے نہایت مقبول اور معتبر نام ہے اور ان کا کا ر نامہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ درجنوں ملکوں میں اس فن کو فروغ دیا ہے۔ چو نکہ انتظار حسین کا تعلق بھی دا ستانوں سے رہا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں یہ ایوارڈ دیتے ہو ئے بڑی خوشی ہو رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں بھی اس فن کے فروغ کے لیے کام کرتے رہیں گے۔

پروگرام کے آخر میں معروف داستاں گو، جاوید دا نش نے دا ستان پیش کرنے کے بعد عوام کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ داستان ہما ری زندگی کا حصہ ہے اور یہ آج کے نو جوانوں کا مستقبل بھی بن سکتا ہے۔ یہ ایک پیشے کے طور پر پو ری دنیا میں مقبول ہو رہی ہے۔شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی نے داستان اور کہانی کو از سر نو زندہ کر نے کا کام کیا ہے۔

 اس مو قع پر ڈا کٹر ایس کے دتہ، ڈا کٹر ہا شم رضا زیدی، ڈا کٹر عا بد زیدی، ڈا کٹر ہما مسعود، ڈا کٹر عفت ذکیہ، ڈاکٹر فرحت خاتون، ڈا کٹر نسرین، ڈا کٹر دیش وال، ڈا کٹر سرا ج الدین احمد، ڈا کٹر ارشاد سیانوی،ڈاکٹر ارشد اقبال ڈاکٹر محمد علیم، انجینئر رفعت جمالی،جی ایم مصطفی،محمد شاہد سیفی، محمد زاہد سیفی، اسرار احمد، تنظیر انصار، مختار صدیقی،اسرار گاندھی، بشیر مالیر کوٹلوی، بھا رت بھو شن شرما، پر بھات رائے، ار وند شرما، انل شر ما، سنیل شر ما،ساجد علی، عدنان آصف، شنا ور اسلم، خوش نورسمیت کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات اور عما ئدین شہر نے شر کت کی۔

تبصرے بند ہیں۔