حرّیت کے شجر کا ثمر امن ہے
افتخار راغبؔ
حرّیت کے شجر کا ثمر امن ہے
ہم ہیں آزاد لیکن کدھر امن ہے
۔
قوم و ملت سلامت، اگر امن ہے
جسمِ انسانیت کا جگر امن ہے
۔
قریہء جاں سے شہرِ بدن تک یہاں
دبدبہ خوف کا دربدر امن ہے
۔
ڈھونڈتے ہو کہاں بوئے امن و اماں
جس طرف ہے اخوت اُدھر امن ہے
۔
اہلِ امن و اماں خوف میں مبتلا
ایسا لگتا ہے اب داو پر امن ہے
۔
اُن کی آنکھوں میں ہے عینکِ امن کیا
جن کو آتا ہر اک سو نظر امن ہے
۔
رقص دہشت کا آنکھوں میں راغبؔ ہے کیوں
قریہء جسم و جاں میں اگر امن ہے
تبصرے بند ہیں۔