اردو ادب کی دو صدیاں: تار یخ، تہذیب اور وطن

جاوید رحمانی

اٹھارہویں صدی سے آج تک کی تاریخ کو دوبارہ پڑھنے اور نئے سرے سے لکھنے اور اُسے نوآبادیاتی خیالات سے پاک کرنے کی سخت ضرورت ہے: شمس الرحمٰن فاروقی

اردو میں سمیناروں کے کلچر کو تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔۔ پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی

اردو کے قدیم ترین ادارے انجمن ترقی اردو (ہند) اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے مشترکہ اہتمام سے منعقد ہونے والا چہار روزہ بین الاقوامی سمینار بہ عنوان ’’اردو ادب کی دو صدیاں : تار یخ، تہذیب اور وطن‘‘ آج پانچ بجے شام کو ایوانِ غالب میں شروع ہوا جہاں یہ 18 جنوری تک جاری رہے گا جس میں ملک اور بیرونِ ملک سے شرکت کرنے والے تقریباً 50 مندوبین اردوادب میں ثقافت اور تاریخ کے گزشتہ دو صدیوں کے رشتوں پر ہونے والے مباحث میں حصہ لیں گے۔

سمینار کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے کلیدی خطبے میں عہد ساز نقاد شمس الرحمن فاروقی صاحب نے نہایت عالمانہ انداز میں کہا کہ قوم، قومیت، قوم پرستی وغیرہ تصورات ہمارے یہاں غیر ملک سے آئے ہیں اور وہاں بھی یہ یوروپین روشن فکری کے پیدا کردہ ہیں ۔ مشرقی اقوام میں تشخص، غیریت اور اپنی روایات کے خلاف حملہ آور ہونے والے لوگوں کو باہری تصور کرنا؛یہ خیالات ہمارے یہاں تہذیب اور تاریخ کا حصہ ہیں ۔

اٹھارہویں صدی تک ہمارے یہاں انگریزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے کئی شعرا خاص کر جرأتؔ ، مصحفیؔ وغیرہ کے یہاں انگریزوں کے خلاف جو سیاسی اور تہذیبی خیالات نظم کیے گئے ہیں اُن کی بنا پر ہم انھیں آج کے تصورِ قوم پرستی، قومیت کا سرنامہ قرار دے سکتے ہیں ۔ اٹھارہویں صدی سے ہماری تاریخ البتہ مجروح رہی ہے اور اٹھارہویں صدی کی ہر چیز کو خواہ وہ ادب ہو یا انتظامی و ملکی امور، انھیں ہر طرح سے خراب اور زوال پذیر قرار دیا گیا۔

فاروقی صاحب نے زور دے کر کہا کہ اٹھارہویں صدی سے آج تک کی تاریخ کو دوبارہ پڑھنے اور نئے سرے سے لکھنے اور اُسے نوآبادیاتی خیالات سے پاک کرنے کی سخت ضرورت ہے۔اس موقعے پر بولتے ہوئے اردو کے ایک شیدائی پروفیسر گوتم چکرورتی جو دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں اپنے طالبِ علموں کو مسلسل اردو سیکھنے اور اردو کے تعلق سے کسی موضوع پر ریسرچ کرنے کے لیے مہمیز کرتے رہتے ہیں ، نے کہا کہ اردو کے عظیم ادب کو خصوصاً ہندستان کی دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اردو ادب میں ثقافت کے مختلف رنگوں کی بوقلمونی ہندستان کی اس مشترکہ یتہذیبی وراثت کو کہیں زیادہ ثروت مند کرسکتی ہے جو مستقبل میں ہندستان کی سیاست کے رویے کا تعاون کرے گی۔صدرِ محفل پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ اردو اداروں کو اپنے سمیناروں کو بامعنی بنانے اور ان میں شرکا کی تعداد بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرنی چاہییں ۔

انھوں نے سمینار میں شرکا کی کم سے کم ہوتی ہوئی تعداد نیز مقالات کے معیار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندستانی معاشرہ گزشتہ 27 برسوں میں جس قدر تبدیل ہوا ہے اس کی کوئی مثال ماضی میں موجود نہیں ۔ نئی اقتصادی پالیسیوں کے زیرِ اثر آنے والی یہ تبدیلی کتنی مثبت یا منفی ہے، اس بحث سے قطعِ نظر حقیقت یہ ہے کہ وقت کے دھارے کو پیچھے کی طرف نہیں موڑا جاسکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اردو اداروں خصوصاً حکومت کے اداروں کے پاس آج وسائل ماضی سے کہیں زیادہ ہیں اور جن کا بڑا حصہ سمیناروں پر خرچ ہوتا ہے، اس لیے، سمیناروں کے ہر زاویے پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ سمینار میں تجربے کے طور پر سمینار کے اجلاس کے پرانے طریقے میں تبدیلی کرکے انھیں پینل ڈسکشن کے طرز پر کچھ اس طرح منعقد کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے کہ مقالہ نگاروں کو اپنی بات زیادہ موثر ڈھنگ سے کہنے کا موقع مل سکے۔

افتتاحی اجلاس میں پرنسٹن یونی ورسٹی کی پروفیسر فوزیہ فاروقی بھی موجود تھیں جو 17 مارچ کو 11 بجے نثری نظم پر شمس الرحمن فاروقی کی صدارت میں اس تجرباتی صنف پر اپنا عالمانہ مقالہ پیش کریں گی نیز نئی طرز کی فلموں کے موجد اور سنگاپور میں مقیم اقبالؔ کے نئے سوانح نگار ظفر انجم بھی تشریف فرما تھے جو بمبئی کی فلموں میں اردو کلچر کے سیشن میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے کہ تبدیل شدہ حالات میں اردو کلچر کی نمائندہ فلمیں کیسے بنائی جاسکیں ۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام کے بعد ثقافتی محفل آراستہ کی گئی جس میں رادھیکا چوپڑہ نے اپنی غزل گائکی سے سماں باندھ دیا۔

سمینار کے ورکنگ سیشن 16 مارچ کو صبح دس بجے سے شروع ہوں گے جس میں پہلا سیشن ’اردو ہے جس کا نام‘ میں آسیہ ظہور اور اے. جے. ٹومس اپنے مقالات پیش کریں گے۔ آسیہ ظہور نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے سماجی لسانیات میں ایم فل اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ. ڈی کی اور وہ کشمیر کے ایک کالج میں شعبۂ انگریزی کی صدر ہیں ۔ ساہتیہ اکادمی کے انگریزی مجلے ’انڈین لٹریچر‘ کے اڈیٹر پروفیسر اے. جے. ٹومس کیرالہ میں اردو زبان و ادب کے سفر پر اپنا مقالہ پیش کریں گے۔ مختلف سیشن کے انعقاد کے بعد شام کو سعید عالم کا پلے ’سراقبال‘ پیش کیا جائے گا جو علامہ اقبالؔ کی زندگی کے نئے تخلیقی زاویوں کی ایک منفرد ڈرامائی پیش کش ہے۔

تبصرے بند ہیں۔