چپ چپ بیٹھے ہو، آخر کیا بات ہے؟

مدثر احمد شیموگہ

مسلمانوں کی نزدیک دنیا میں سب سے زیادہ عظمت و حرمت کے مقامات ہیں تو وہ حرمین شریفین یعنی کعبة اللہ اور مسجد نبوی ﷺ ہے اور ان مقامات کو مسلمان اپنی جانوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں ، انہیں دو مقامات کی وجہ سے مسلمان سعودی عرب اور سعودی حکومت کی قدر کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے حرمین شریفین کی سرزمین کو گناہوں سے پاک رکھنے کی ہدایت دی ہے اور جس قدر ان حرمت والی زمین پر نیکیوں کے بدلے ثواب لکھا گیا ہے اتنے ہی بڑے پیمانے پر بدیوں کے بدلے میں عذاب دیا جانے والا ہے۔ جس وقت مکہ کو فتح کیا گیا اس کے بعد آپ ﷺ نے مکہ کو امن کا مقام کہہ دیا اور وہاں سے بت پرستی و شرک کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام برائیوں کو بھی ختم کرنے کا اعلان کردیا، اسکے بعد وقتََا فوقتََا یہاں برائیاں پھیلانے کی کوششیں ہوئی ہیں لیکن جس نے بھی یہ مذموم کوشش کی ہے وہ تباہ و برباد ہواہے۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی بدلتے جارہے ہیں ، سعودی عرب میں جس حکومت کو ہم اسلامی حکومت کا درجہ دیتے ہیں اور جس کے پرچم پر لااِلہٰ اللہ کا کلمہ دیکھتے ہیں اور پرچم کو دیکھنے پر مسلمانوں کا سینہ پھیل جاتا ہے وہی حکومت آئے دن مسلمانوں کو اپنا سر نیچا کرنے پر مجبور کررہی ہے، مملکت سعودی عربیہ کی موجودہ پالیسیوں کو دیکھیں تو ایسا نہیں لگ رہاہے کہ اب مملکت سعودی عربیہ مزید دنو ں تک اسلامی حکومت کے طورپر باقی رہیگا اور جو حکمران اس ملک میں یہودی و عیسائی نظام کو رائج کرنے میں مصروف ہیں وہ باقی رہیں گے کیو نکہ انکی مادہ پرستی حد سے تجاوز کرنے لگی ہے۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل کی بہترین حکومت کے بعد جتنے بھی بادشاہ حکومت کرچکے ہیں ان میں مغربیت کی ہوا جھلکنے لگی ہے اور یہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے نہ صرف مملکت کو یہودیوں کے تابع کرنا شروع کیا ہے بلکہ یہودیوں کی پالیسیوں کو بھی اپنانے لگے ہیں ۔ موجودہ حکمران شاہ سلمان اور انکے بیٹے محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ شاہ سلمان اورمحمد بن سلمان نے پچھلے چند ہی سالوں میں سعودی عرب کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے نام پر جو تباہی مچا رکھی ہے اس کی وجہ سے ساری مسلم دنیا پریشان ہے۔

سال 2017 میں سعودی عرب نے سب سے پہلے تھیٹروں کی شروعات کی تھی جس پر مذہبی حلقے میں منفی ردعمل آیا، ابھی یہ سب کچھ ہو ہی رہاتھا کہ سعودی نے خواتین کو ڈرائیونگ کے لئے اجازت دی پھر اسکے بعد انہیں میدانوں میں بیٹھ کر کھیلوں کا مزہ لوٹنے کے لئے اجازت دے دی، یہ تبدیلیاں کچھ حد تک درست ہونے کی بات مان بھی لی جائیں لیکن حال ہی میں سعودی عرب نے فیشن شو کے لئے جو اجازت دی وہ سب سے بدترین بات ہے اور اب آنے والے دنوں میں یہاں پر ریزورٹس بھی شروع کئے جارہے ہیں اور ان ریزورٹس میں خواتین کو برہنہ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوگی۔ سعودی جیسے قابل احترام ملک نے فحاشی و عریانیت کو جس طرح سے بڑھاوا دینے کا عز م کیا ہے یہ اسلامی دنیا میں یقینا ناقابل قبول ہے مگر اسلام کے پاسدار اور نگران کہلانے والے علماءاس سمت میں خاموش کیوں ہیں یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

بات چاہے امام کعبہ کی ہو یا امام حرمین شریفین کی، علماءکاﺅنسل کی ہو یا پھر ایشیا ءکے ان تمام دارالافتاءاور دینی مدارس کی جہاں سے اسلام کی روشنی پھیل رہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ علماءخاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ سعودی حکومت کی جانب سے جو حرکتیں کی جارہی ہیں کیا وہ حرکتیں حرام نہیں ہیں؟ کیا انکی پالیسی اسلامی تعلیمات کے برعکس نہیں ہیں ؟۔ کیا سعودی عرب کے حکمرانوں پر لگام کسی نہیں جاسکتی؟ کیا علماءصرف اس وجہ سے خاموش ہیں کہ انکے وظیفے، انکے مدارس کے چندے اور انکے دینی مراکز کو فنڈنگ اسی حکومت کے ذریعے سے کی جارہی ہے اور انہیں کی سرپرستی میں لاکھوں کروڑوں ریال چندوں کے طورپر تقسیم کئے جارہے ہیں ؟

حالانکہ سعودی حکومت کے ارد گرد مختلف مسلکوں کے علماءگھومتے رہتے ہیں کیا انکے لئے سعودی حکمران ہی پالنہار ہیں ۔ جب کوئی عام آدمی کوئی غلط کام انجام دیتاہے تو اس پر علماءمتحد ہوکر اسے خارج اسلام قرار دیتے ہیں۔ کوئی اسلام کے خلاف فلم نکالتاہے تو اسے قتل کردینے تک کا فتویٰ جاری کردیا جاتاہے۔ کوئی مصنف اپنی کتاب میں تخیلی کردار کے تحت اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کرپیش کرتاہے تو علماءکاﺅنسل کی بیٹھکیں ہوتی ہیں اور اس مصنف کو کافر قرار دیا جاتاہے۔ لیکن سعودی حکومت کی کھلے عام اسلامی تعلیمات کی مخالفت کے باوجود ہمارے نامور علماءخاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ فقہہ کے نام پر بڑی بڑی کانفرنسوں کا انعقاد کیا جارہاہے کیا ان کانفرنسوں میں سعودی عرب کی ان پالیسیوں کی مخالفت نہیں کی جاسکتی ؟

دارالعلوم دیوبند، دارلعلوم ندویٰ اور جامعتہ الاظہر میں بڑے بڑے مفیتان، علمائے دین بیٹھے ہوئے جو دین کی باریکیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور سعودی عرب کی پالیسیوں پر آواز اٹھانے سے گریز کررہے ہیں۔ حالانکہ یو اے ای، بحرین جیسے ممالک میں بدکاریاں پہلے ہی آچکی ہیں لیکن وہ سعودی عرب کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے لیکن حرمین شریفین کے خادم کہلانے والے شاہ سلمان اور محمد بن سلمان نے یہودیوں کے اشاروں پر کام کرنا شروع کیاہے وہ قابل مذمت ہے اور اس سلسلے میں ہمارے علماءو اکابرین کو کھل کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ دجالی فتنہ کو بڑھا وادینے والوں کی نسل ہماری ہی ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔