اردو تحریک اور ملک زادہ منظور

ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی
اعظم گڑھ ۔19،نومبر
اپنی نثر اور شاعری کے علاوہ اردو تحریک سے وابستگی کے لیے بھی ملک زادہ منظور احمد ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو تگ و دو کی اور جس طرح جاں فشانیوں سے کام لیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے ۔نیز مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے ملک زادہ منظور احمد نے ہندوبیرون ہند جو شہرت و قبولیت حاصل کی اس میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ۔ان خیالات کا اظہار پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے یہاں فاطمہ گرلز کالج داؤد پور اعظم گڑھ میں ’’ملک زادہ منظو ر احمد شخصیت اور فن ‘‘کے موضوع پر بین الاقوامی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ کے دوران کیا۔افتتاحی اجلاس کی صدارت شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر پروفیسر خالد محمود نے فرمائی جبکہ افتتاح خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر خان مسعود نے کیا ۔مہمانوں کا استقبال کالج کے سکریٹری اور سمینار کے چیرمین ڈاکٹر نیاز احمد داؤدی نے کیا ۔اس موقع پر سمینار کے مقالوں پر مشتمل کتاب ملک زادہ منظور احمد :شخصیت اور فن ‘‘کی رسم رونمائی کی گئی ،جسے ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی نے مرتب کیا ہے ۔کالج کی طالبات نے منظوم خیرمقدم پیش کیا جبکہ افتتاحی اجلاس کا اختتام کالج کے ترانے پر ہوا ۔اس موقع نظامت کے فرائض ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیے ۔سمینار کے کنوینر ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی نے شکریے کے کلمات ادا کیے ۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے کلیدی خطبہ کے دوران کہا کہ ملک زادہ نثر کی طرح شاعری میں بھی منفرد طرز اظہار کے مالک ہیں۔ انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں اور غزلیں بھی۔ لیکن وہ اصلاً غزل کی روایت کے امین ہیں۔ وہ غزل کی مانوس لفظیات اور رموز و علائم کے ذریعے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ انھوں نے اپنے مجموعۂ کلام کا نام ’شہرستم‘ رکھ کر یہ ظاہر کردیا ہے کہ ان کی شاعری لب و رخسار کا افسانہ نہیں بلکہ قدروں کی پامالی کا مرثیہ ہے۔
انھوں نے ملک زادہ منظور احمد کی متعدد تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حیثیت سے اہمیت کی حامل ہے، لیکن ان میں شاہکار کا درجہ’رقص شرر‘ کو حاصل ہے۔ بلاشبہ یہ ایک عہد آفریں کتاب ہے۔ اس کا سب سے پہلا امتیاز اس کا دلکش نثری اسلوب ہے۔ وہ ساحرانہ اسلوب جس کے ابتدائی نمونے ہمیں ’شہرسخن‘ میں نظر آتے ہیں ’رقص شرر‘ اس کا نقطۂ عروج ہے۔انھوں نے کہا کہ کہ اردو کی نمائندہ اور قدر اول کی حامل آپ بیتیوں کی کتنی ہی مختصر فہرست کیوں نہ بنائی جائے ’رقص شرر‘ کا نام اس میں ضرور شامل ہوگا۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادبیت کی جو شان ’رقص شرر‘ میں جلوہ گر ہے وہ ’خواب باقی ہیں‘ (از آل احمد سرور) ’ورود مسعود‘ (از مسعود حسین خاں) اور ’اس آبادخرابے میں‘ (از اخترالایمان) میں بھی موجود نہیں۔ حالانکہ ان کے مصنفین آسمان ادب کے آفتاب و ماہتاب ہیں۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے مزید کہا کہ ’رقص شرر‘ میں پیش کردہ کوائف و واقعات حق و صداقت پر مبنی ہیں۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے کہا کہ خود نوشت میں معجزہ فن کی نمود اس وقت ہوتی ہے جب اسے اسلوب بیان، واقعات کی پیش کش اور جزئیات نگاری وغیرہ کے لحاظ سے افسانوی ادب کا ہم رنگ بنادیا جائے۔ اس پہلو سے دیکھاجائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ملک زادہ نے ’رقص شرر‘ میں فن کی بلندیوں کو چھولیا ہے۔ یہ کہنے کو خودنوشت ہے لیکن اس میں ناول جیسی تاثیر اور دلکشی پائی جاتی ہے۔ٹھوس حقیقتیں ادب پارہ کس طرح بن جاتی ہیں اس کے نمونے بھی’رقص شرر‘ میں ملتے ہیں
اس سے قبل بین الاقوامی سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے پروفیسر خان مسعود نے کہا کہ ملک زادہ منظور احمد صاحب کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ ان کے کارناموں پر گفتگو کئی زاویوں سے کی جاسکتی ہے اور ہر زاویہ ان کے فضل و کمال کے نئے باب کھولتا جائے گا۔ مثال کے طور پر وہ اردو زبان وادب کے پروفیسر اور استاد تھے، اردو کے علاوہ انگریزی زبان وادب سے بھی ان کا گہرا رشتہ تھا۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی ایام میں انھوں نے انگریزی کے لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ ایک شاعر اور فکشن نگار کے طور پر بھی انھوں نے اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے تو وہ عالم گیر شہرت کے مالک اور قابلِ صدرشک شخصیت کے حامل تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کے تحفظ و بقا کے لیے انہوں نے جو جدوجہد کی وہ تاریخ میں ہمیشہ تابندہ رہے گی۔ انہیں صحیح معنوں میں مجاہد اردو کہا جاسکتاہے۔ وہ ایک بہترین نثرنگار بھی تھے۔ لیکن ہر بڑے ادیب کے ساتھ جوستم ظریفیاں ہوتی رہی ہیں، وہ ملک زادہ صاحب کے مقدر میں بھی آئیں۔
پروفیسر خالد محمود نے ملک زادہ منظور احمد کو ایک مثالی شخصیت قرار دیا اور کہا کہ ان کی مقبولیت اور شہرت صرف مشاعروں کی رہین منت نہیں ہے بلکہ انھوں نے جو نثری یاد گار چھوڑے ہیں اس نے بھی ملک زادہ کی شہرت اور ناموری میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔پروفیسر خالد محمود نے اس موقع پر کالج کے ارباب مجاز کو مبارک باد پیش کی اور ان کی تعلیمی کوششوں کو سراہا ۔ڈاکٹر نیاز احمد داؤدی نے مہمان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بے حد مسرت ہورہی ہے ۔انھوں نے ملک زادہ صاحب نے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تعلق کا یہ ایک معمولی اظہار ہے ۔ہم نے جب بھی انھیں کالج کے کسی بھی پروگرام کے لیے دعوت دی انھوں نے نہ صرف بخوشی قبول کیا بلکہ تشریف بھی لاتے تھے ۔ڈاکٹرنازش احتشام نے سمینار کی تیاریوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ایک محنت بھری کوشش ہے جو اللہ کا شکر ہے کامیاب ہوگئی۔قرب وجوار کے شائقین علم و ادب کے ساتھ ساتھ کالج کی طالبات اور اساتدہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی ۔

تبصرے بند ہیں۔