عرض داشت: بہار کی یونیورسٹیوں میں نئے وائس چانسلرس کی آمد آمد

صفدرامام قادری
بہار کی یونیورسٹیوں میں نئے وائس چانسلرس کی آمد آمد؛ اصلاح کی توقّعات سے انکار نہیں
آتندہ تین برسوں کے لیے بہار کی تمام یونی ورسٹیوں کے اعلی انتظام کار یعنی وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کے انتخاب کا عمل آخری مرحلے میں ہے، خدا کرے ایسے لوگ منتخب ہو کر آئیں جو تعلیمی نظام میں اصلاح کی راہیں متعین کر دیں۔

بہار کا نظامِ تعلیم ہمیشہ سُرخیوں میں رہتاہے۔ اکثر امتحان میں کالا بازاری اور بے ایمانوں کے چنگُل میں نظامِ تعلیم کے پھنسنے کی کہانیاں ملک کے تمام اخباروں اور چینلوں کا حصّہ رہی ہیں۔ پیسے کے بل بوتے ٹاپ کرانا اور ناکام کو کامیاب بنانے والے سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں سرگرمِ کار نظر آتے ہیں۔ یونی ورسٹیوں کے مشہور اساتذہ جب کبھی اسکول اکزامینیشن بورڈ کے چیرمین یا یونی ورسٹی بورڈ کے وائس چانسلر یا پرو وائس چانسلر بنائے جاتے ہیں تو رہ رہ کر اِسی کے ساتھ ایسی خبریں بھی اخبارات کا حصّہ بنتی ہیں کہ اُن میں کوئی جیل میں ہے، کوئی ضمانت لے کر معاملات کو رفع دفع کرنے میں مشغول ہے۔ کوئی قانونی طور پر بھگوڑا مان لیا گیا اور کسی کو بھاگتے ہوئے پولیس نے دھر دبوچا۔اِن خبروں سے اکثر اساتذہ اور تعلیم یافتہ افراد کا سر جھُک جاتاہے اور سماج میں انھیں مذاق کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ ایسے معاملات میں سرکار کے وزرا اور بڑے بڑے افسران کی طرف سے بھی ان کی مزمّت ہوتی رہتی ہے۔
پہلا سوال ہمیشہ یہی ہوتاہے کہ آخر اِن وائس چانسلروں، پرو وائس چانسلروں، پرنسپلوں یا دیگر عہدوں پر موجود افراد کو منتخب کرنے والے کون لوگ ہیں۔ پچھلی بار سے وائس چانسلر کے امّیدواروں سے درخواست لینے اور ان کے انٹرویو کا بھی سلسلہ شروع ہوا۔ اب کی بار بھی فارموں کی خانہ پُری مکمل ہو چکی ہے اور انٹرویو یا انتخاب کا مرحلہ باقی ہے۔ سرچ کمیٹی جیسی چیز پچھلی بار بھی انتخاب کے مرحلے میں آزمائی گئی تھی۔ بڑے بڑے سابق اور موجود وائس چانسلروں کو نزدیک اور دور سے بلایا گیا تھا لیکن انتخاب کے بعد حالات یہ ہوئے کہ کم از کم چار ایسے وائس چانسلر تھے جنھوں نے دس برس تک کی پروفیسرشِپ کا دورانہ مکمّل نہیں کیا تھا۔ ہائی کورٹ کے حکم سے کچھ برخاست ہوئے اور کچھ پر اب بھی عدالت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ سرچ کمیٹی اور اُس کے لیے جن آئی ۔ اے۔ ایس ۔ افسر کو ممبر سکریٹری بنایا گیا تھا، ان میں سے کسی کو علم الحساب کے اعتبار سے کیا اتنی استعداد نہیں تھی کہ وہ بایو ڈاٹا میں سے دس سال کی گنتی مکمل کر لے۔ درخواست دہندہ کو انٹرویو کے لیے آخر بلایا ہی کیوں گیا۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن سے شبہات قائم ہوتے ہیں کہ حکومت کے اہالیان، سرچ کمیٹی کے ممتاز افراد اور وائس چانسلر امید واروں میں کچھ ایسی غیر اخلاقی ، غیر قانونی سانٹھ گانٹھ ہوئی اور اِسی کے نتیجے میں اُن کا انتخاب عمل میں آیا۔ یونی ورسٹی کے برامدوں میں اور اقتدار کے گلیواروں میں یہ خبر پھیلنے لگی کہ کسے اس عہدے کے حصول کے لیے کس حد تک خرچ کرنا پڑا۔ پچھلے تین برسوں میں اُن محترم وائس چانسلروں نے اپنی یونی ورسٹیوں میں جیسے جیسے معاملے نمٹائے، اس سے یہ ثابت بھی ہوتاہے کہ کوئی مالی جبر ہے جو اِس ڈھانچے کو کھوکھلا بنائے جا رہا ہے۔
جس زمانے میں عزّت مآب دیوآنند کنور بہار کی یونی ورسٹیوں کے چانسلر ہوتے تھے ، اُس زمانے میں ایوانِ بالا کے معزّز رُکن جناب شیوانند تیواری نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ چانسلر پر رشوت خوری کے الزامات عائد ہو رہے ہیں، سرکار کو اس معزّز عہدے کی پاک دامنی کا ہمیں بھروسا دینا چاہیے۔ وہ الزام قابل غور رہا اور چانسلر محترم بہار سے دوسرے صوبے کی طرف بھیج دیے گئے۔ لیکن وبائی امراض کا آسانی سے خاتمہ نہیں ہوتا اور پُرانے درخت جتنا سامنے سے نظر آتے ہیں، اُن کی جڑیں اُس سے زیادہ گہری اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔اس لیے ابھی وائس چانسلروں کے لیے انتخاب کی جو مہم چل رہی ہے اُس میں ایمان پر بٹّا نہ لگے، اس کا انتظام وزیرِ اعلا، چانسلر اور دیگر حکامِ عالیہ کو کرنا چاہیے۔
آٹھ نومبر کی رات سے وزیرِ اعظم ،ہند کے حکم سے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ جیسے ہی کالعدم قرار دیے گئے۔ ہزاروں نئے نئے لطیفے وضع ہونے لگے۔ بہار کے اعلا تعلیمی حلقے میں یہ بات کہی جانے لگی کہ اب جنھوں نے دیڑھ اور دو کروڑ کی رقم نکال کر اپنے گھر میں رکھ لی تھی اور کسی خاص مقام تک پہنچائے جانے کے انتظار میں تھے، اُن پر تو آفت ہی آگئی۔ کہتے ہیں کہ سب کا یہی حال تھا۔ لوگ ایسا بھی کہتے ہوئے سُنے جاتے ہیں کہ اس بار شرحِ امیدواری بہت مندی کا شکار ہوگی اور جب ہاتھ میں نقد نہ ہو تو ایک عام آدمی کے چولھے سے لے کر تعلیم کے اعلی عہدے تک اس مندی کو محسوس کیا جا سکے گا۔ واللہ اعلم باالصّواب۔
سیاسی انتظام نے اس طرح ہمارے معاشرے کو اس طرح اپنے اثر میں لے لیا ہے کہ جسے کوئی عہدہ حاصل ہو گیا وہ اب عام انسان نہیں ہے، خاص ہے۔ خاص کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ اپنے علم، کشف، ریاضت، دنیا اور زندگی کو گہرائی سے سمجھنے والاہوگیا ۔ کاش ! ایسا ہو جاتا۔خاص کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس جماعت سے آتاہے اُس سے خود کو الگ تھلگ کر لے۔ اِسی میں وہ دوسروں سے بڑھ کر خود کو پیش کر سکتاہے۔ ایک مکھیا اپنے گانْوں کے دوستوں سے خود کو علاحدہ کر لیتاہے تو وائس چانسلر اور وزیرِ اعظم کے لیے تو یہ لازم ہو جا تاہے کہ وہ پچھلی جماعت کی توقّعات اور شناخت سے دور کی نسبت بھی نہ رکھے۔ ژاں پال سارتر اسی مرحلے میں ایک بورژوا سماج کی تشکیل کی بنیادیں تلاش کرتے تھے۔ ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں کا تو یہ حال ہے کہ صدرِ شعبہ ہی ایک بدلا ہوا انسان ہوتا ہے تو آپ بتائیں کہ کالجوں کے پرنسپل، یونی ورسٹی کے پرو وائس چانسلر ، رجسٹرار اور وائس چانسلر خود کو بدلی ہوئی شکل میں کیوں کر نہ پیش کریں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ اُن کا حق ہے کہ وہ جس طبقے سے آتے ہیں اُس سے کچھ الگ ہو گئے ہیں۔ شاید اِسی کا یہ عتاب ہے کہ جب ایسے افراد اپنے عہدے سے رُخصت ہوتے ہیں تو خود نامطمئن اور اُداس ہوتے ہیں، اور اُن کے ساتھی خوش اور مطمئن ہوتے ہیں کہ ’خس کم جہان پاک‘۔ جب کہ وہی انتظام کار جب عہدے پر تازہ تازہ متمکن ہوتے ہیں، اس وقت اُن کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی لوگ خوش و خرّم نظر آتے ہیں۔ تین برس کی سربراہی میں پُرانے دوست چھوٹ جاتے ہیں اور ایسے نئے دوست ملتے ہیں جو عہدے کے آخری دور تک اپنے آپ الگ ہو جاتے ہیں۔
بہار کے نظامِ تعلیم بالخصوص اعلا عہدوں پر تقرری کے لیے جو طریقۂ کار ابھی تک روا ہے، اُس کے چور دروازوں کو سمجھنا چاہیے۔ اُنھی راستوں سے ایسے افراد آتے ہیں جو دیمک کی طرح سے ہمارے تعلیم نظام کو چاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ یا تو مکمّل طور پر قحط الرجال ہے کہ ہماری یونی ورسٹیوں کو چلانے والے معمولی سطح کے لوگ منتخب ہوتے ہیں۔ ایک دہائی سے پٹنہ یونی ورسٹی میں باہر کے ایسے لوگوں کو وائس چانسلر بنایا گیا جن کی کسی مضمون اور موضوع کی مہارت کے بارے میں آج تک کوئی نہیں جا ن سکا۔ وائس چانسلروں کو تعلیم کے کاموں میں بنیادی دلچسپی لیتے ہوئے کوئی شاید ہی دیکھتا ہو۔ اُن کے اِرد گِرد ایسی حلقہ بندی رہتی ہے جس میں مالی خُرد بُرد کے شائقین تو نظر آجائیں گے لیکن کبھی کسی مضمون کا ماہر یا نظامِ تعلیم کی اصلاح کا ذمہ داراور اپنی بہترین تعلیمی صلاحیتوں سے اُبھر رہے طلبا اور ریسرچ اسکالروں کو کسی وائس چانسلر ، کسی پرنسپل یا صدر شعبہ کے اِرد گِرد دیکھا ہے۔ یہ اگر ہو جائے تو واقعتا رام راجیہ آجائے گا۔
وائس چانسلروں کی بات ہو تی ہے تو ہمیں سرو پلّی رادھا کرشنن اور ذاکر حسین کی یاد آتی ہے۔ دونوں ہندستان کے نائب صد ر اور صدر ہوئے۔ لیکن انھیں اُستاد ہونے کا فخر رہتاتھا۔ اُسی حیثیت کو وہ مقدّم جانتے تھے۔ اُن سے کوئی ملتا تو اُس سے اپنی یونی ورسٹی کی اصلاح کی تجویزیں پوچھتے اور اپنے کام کاج کا احتساب کرتے تھے۔ کلکتہ اور بنارس ہندو یونی ورسٹی کو رادھا کرشنن اور جامعہ ملیّہ اسلامیہ یونی ورسٹی کو ذاکر حسین نے نئی زندگی دی تھی۔ یہ ایسے وائس چانسلر تھے جویونی ورسٹیوں کے مختلف شعبوں میں جاکر اپنے خاص مضمون کے کلا س لیتے تھے۔ اس میں باضابطگی رہتی تھی۔ وہ اساتذہ اور طلبا کو پڑھنے پڑھانے کی مہم میں لگا کر نئے سماج کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔آج کے وائس چانسلر اور تعلیمی انتظام کاروں کو اس ایک کام کو چھوڑ کر تمام کام عزیزہیں۔ یونی ورسٹیوں میں دو برس ریسرچ کونسل نہیں ہو کسی کو کیا غرض پڑی ہے۔ دس دس برس سے نصابِ تعلیم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، امتحانات وقت سے نہ ہوں اوراُن کے نتائج میں اور بھی دیری ہو، کسی وائس چانسلر کو اس پر شرمندہ ہوتے یا اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔ہونہار طالبِ علم دفتر دفتر مارے پھرتے ہیں، اُن کے لیے وائس چانسلر سرپرست کے رول میں نظر نہیں آتے۔ اساتذہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے لیے دفتروں کے چکّر کاٹتے ملیں،کسی عہدے دار کو اس سے دکھ نہیں ہوگا تو آخر یونی ورسٹیوں میں اعلا عہدے کس کام کے لیے ہوتے ہیں۔ جن کاموں میں مالی امکانات نہ ہوں، اُ ن کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔
سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ وائس چانسلروں کو سیاست دانوں کی نقل میں روزانہ افتتاح، صدارت اور تقریروں کی عادت سے خود کو دوٗر رکھنا چاہیے۔ سیاست دانوں کا مذاق اُڑتاہے کہ اُن کی زبان، اندازِ بیان اور علم کا ظرف معمولی ہے لیکن جب یونی ورسٹی کے وائس چانسلروں ، پرنسپلوں اور صدورِ شعبہ کی تقریروں میں زبان و بیان کی معمولی غلطیاں نظر آنے لگیں، کسی بھی تعلیم کے بنیادی سوال سے کوئی دلچسپی نہیں دِکھے اور طلبا اور اساتذہ کی طرف سے انقلاب زندہ باد اور ان عہدے داروں کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگنے لگیں تو سمجھنا چاہیے کہ سورج سوا نیزے پر آ پہنچا ہے۔ بِہار کے عزّت مآب گورنر اور وزیرِ اعلا ، پوری حکومت کم از کم اس بار ایسے وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کو منتخب کرے جنھیں اگر اُن کے مضمون میں مجمعے کے سامنے ایک گھنٹہ پڑھانے کے لیے موقعہ دیا جائے تو وہ نہ خود شرم سار ہوں اور نہ اپنے سماج کو شرم سار کریں۔ ہمیں امید ہے کہ موجودہ اندھیرے نظام میں روشنی کی کوئی کِرن ضرور آئے گی ورنہ گرفتاریوں، جیل، ضمانت اور بھگوڑوں کے پکڑنے کی مہم جاری رہے گی اور پڑھا لکھا طبقہ شرم سار رہے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔