اردو زبان کا مستقبل: امکانات اور اندیشے

جب ہم زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو  دراصل زبان کے خول میں کسی قوم،  علاقے یا نسل کے عروج و زوال کی داستان پڑھ رہے ہوتے ہیں۔  تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غالب و حکمران قوموں کی تہذیب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور انکی زبان کو بلا چوں چرا ترقی اور کامیابی کا زینہ مان لیا جاتا ہے۔ لیکن اردو کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس زبان کو کسی ایک قوم،  علاقے یا نسل نے جنم نہیں دیا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اردو نے مختلف قوموں کے رحم سے اپنی ایک قوم تخلیق کی ہے جو اس کی اداؤں کی گرویدہ اور اس کی نزاکتوں  کی دلدادہ ہے، اس گل اندام نے جغرافیائی اعتبار سے بکھرے ہوئے خطوں کو اپنے رنگ میں ایسا رنگا کہ چینی اور ہندی کا فرق مٹا دیا،  ایک ایسی نسل تیار کردی جس نے اسکی زلفیں سنوارنے کے لئے اپنی بہترین صلاحتیں صرف کردیں اور کالی راتوں کو خون جگر سے روشن کردیا۔

یہ اردو کا کرشمہ ہے کہ اس کو شاہ و گدا کی یکساں محبت ملی،  عوامی گلیوں سے شاہی درباروں تک ہر کوئی اسکا دیوانہ نکلا،  نہ امیری غریبی  کو منہ لگایا نہ طبقاتی کشمکش کی پرواہ کی،  نہ مذاہب کی تقسیم کو درخور اعتنا سمجھا اور نہ سیاسی اختلافات سے دامنِ دل آلودہ کیا۔ اردو سب کی رہی اور سب کو اپنا بنائے رکھا اور یہ سلسلۂ الفت اب بھی جاری و ساری ہے۔

دنیا کی بہت سی زبانوں کے مقابلے میں اردو کم سن ہے مگر یہ اسکا عیب نہیں بلکہ خوبی ہے، بھلا کون نہیں جانتا کہ کم سنوں کا ہر دور میں راج رہا ہے۔ آج برصغیر کی پروردہ لاڈلی اپنے محل ظہور سے تجاوز کرکے دنیا کے سو سے زائد ملکوں میں بسیرا کررہی ہے، مغربی دنیا ہو یا مشرقی اور افریقی ممالک، ہر جگہ اردو کے بولنے سمجھنے اور چاہنے والے موجود ہیں جنکی تعداد ایک ارب کے آس پاس ہے، ایسے میں ببانگ دُہل کہا جاسکتا ہے کہ اردو کا مستقبل عوامی سطح پر بالکل محفوظ بلکہ انتہائی تابناک اور روزافزوں روشن ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر زبان کی طرح اردو اور اردو والوں کے بھی کچھ مسائل ہیں جنمیں چند ایک اہم اور قابل توجہ ہیں۔

اردو میں یہ ایک عجیب صلاحیت ہے کہ یہ دوسری زبانوں کے کلمات کو بآسانی اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے اور فی زمانہ ان نوواردوں کی مدد سے خود کو اپڈیٹ کر لیتی ہے البتہ کبھی کبھار اس ضمن میں اسکے ساتھ زیادتی بھی ہوجاتی ہے اور آج کی انگریزی گزیدہ اور ہندی زدہ نوجوان نسل اس شنیع عمل میں پیش پیش ہے۔ وہ اردو کا حال کچھ ایسا ہی کرتی ہے جیسے کوئی اطالوی انگریزی کا کرتا ہے یا کوئی انگریز عربی کا۔

کسی بھی زبان کا خاصہ اسکا تلفظ اور لہجہ ہوتا ہے،  لہجہ لفظوں کو رچاؤ عطا کرتا ہے اور تلفظ اس رچاؤ کو چاشنی۔ ذرا غور کیجئے کیا "کُھدا” سنتے ہی ایسا نہیں لگتا جیسے خدا کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے ؟ کوئی "مِجاز” پوچھے تو مزاج خراب ہوجاتا ہے،  کوئی "مجاک” کرے تو سنجیدگی طاری ہوجاتی ہے، کوئی "سئر” سنائے تو زبان کھینچ لینے کو دل چاہتا ہے۔  لہذا یہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو یہ زبان لہجے کی شُستگی اور تلفظ کی چاشنی کے ساتھ منتقل کی جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انکو اردو رسم الخط سے واقف کرایا جائے،  بھلا رومن میں آپ "ط ع ق ض” کیسے لکھیں گے، "ڑ”اور "ڈ” میں صوتی فرق کہاں سے لائیں گے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ رسم الخط سے واقفیت اور صحیح تلفظ کی ادائیگی لازم و ملزوم ہے۔ تلفظ کی درستی املا کی صحت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اردو کا مستقبل ان دونوں کے اتحاد کے ساتھ منسلک ہے۔ کبھی کبھار املا درست ہوتا ہے مگر ادائیگی میں جھول سے اچھے بھلے الفاظ سماعت پر گراں گزرتے ہیں،  اسطرح کی غلطیاں بہت عام ہیں اور بڑے بڑے غیرشعوری طور پر ان کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔  میں نے ایک مقرر شعلہ بیان کو یہ کہتے سنا "آج کا یہ جلسہ آپ کی ذات والا صفات  سے |مَعْنُون| ہے حالانکہ صحیح تلفظ |مُعٓنْوَنْ| ہے، اسی طرح مصحف پہ لکھے لفظ |مُتٓرجٓم| کو لوگ بڑی شان سے |مُترٓجّم| پڑھ دیتے ہیں۔ دونوں مثالوں میں کلمات ایک جیسے حروف سے مرکب ہیں لیکن تلفظ بالکل مختلف ہے بلکہ بسا اوقات تلفظ میں ہیر پھیر سے معانی تک تبدیل ہوجاتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ رسم الخط اور املا کے ساتھ ساتھ صحیح تلفظ کو بھی امانتاً اگلی نسل کے حوالے کیا جائے تاکہ اردو، تحریری اور صوتی، دونوں شکلوں میں اصل ہیئت کے ساتھ مستقبل کا سفر طے کرے۔

مجھے اس امر کا شدت سے احساس ہے کہ یہ مشورہ دینا جسقدر آسان ہے اس پر عملدرآمد اتنا ہی مشکل ہے۔

کہتے ہیں کہ زبان و تلفظ تو ماں کے دودھ کی دھاروں کے ذریعے بچے کی رگوں میں منتقل ہوجاتا ہے مگر اب ایسی مائیں عنقا ہوتی جارہی ہیں اور فیڈر میں تاحال یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوسکی،  لہذا اس ضمن میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں :-

1- سب سے پہلے گھریلو ماحول کو اردو آشنا بنایا جائے،  ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچے میں ایک ساتھ تین زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے،  کیا ہی اچھا ہو کہ ان میں سے ایک زبان اردو ہو۔

2- اسکولوں میں دوسری یا تیسری زبان کے طور پر اردو کو منتخب کیا جائے اور بچوں کو تقریری و تحریری مقابلوں اور مناظروں میں حصہ لینے کی ترغیب دی جائے اور اس ضمن میں انکی تیاریوں میں ذاتی دلچسپی لی جائے۔

3- بچوں کو اردو کے قریب لانے کے لئے جدید ترین وسائل کو بروئے کار لایا جائے اور شاندار لب و لہجے کے فنکاروں کی آوازوں کا سہارا لیکر کارٹون تخلیق کئے جائیں اور کہانیاں رکارڈ کی جائیں۔ اس ضمن میں دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے طریقۂ کار سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

بچوں کے علاوہ بڑوں پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں،  مثال کے طور پر :-

1-  اپنے اردو داں حلقۂ احباب میں مختصر برقی پیغامات SMS ہمیشہ اردو میں لکھیں۔

2- اردو محفلوں میں غیر ضروری اور بیجا انگریزی سے پرہیز کریں۔

3- اپنے رویّے سے نئی نسل کو یہ پیغام نہ دیں کہ غیر زبان میں مہارت ہی کمالِ شخصیت ہے۔ ہاں جب آپ غیر اردو طبقے کے ساتھ ہوں تو شوق سے حسب ضرورت و ذائقہ دیگر زبانوں کا بھرپور استعمال کریں۔

4- کبھی کبھار برقی ڈاک (ایمیل) اپنی محبوب زبان میں بھی لکھیں اور خطوط لکھنے کی دم توڑتی روایت کو زندہ کریں۔ خطوط و مکاتیب اردو زبان و ادب کا لازمی حصہ ہیں بلکہ ادب کی ایک مستقل صنف ہیں۔

 اردو کا ایک مسئلہ اسکی جڑوں کو بزورِ جہالت دین اسلام سے جوڑنا بھی ہے،  اسمیں شک نہیں کہ اردو کی خدمت کرنے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے لیکن اسکے خادموں میں لاتعداد غیرمسلم ادبا شعرا اور عوام بھی شامل ہیں۔ اردو تو اس خوشبو کا نام ہے جو بلا تفریق مذہب و ملت اپنے ہر عاشق کے زبان و بیان کو مہکا دیتی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ حالی و فراق کی لسانی شناخت کو مذہبی خانوں کی ڈراؤنی تقسیم سے بچایا جائے اور اسکی ہمہ جہت وابستگی اور مافوق المذاہب طبیعت کو باقی رکھا جائے۔ اردو کی بقا کے لئے اور بالخصوص ہندوستان میں اسکے مخالفین کو زیر کرنے کے لئے یہ پہلو انتہائی اہم ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ غیر مسلم شعرا اور ادبا کی عزت افزائی کی جائے اور انکی تخلیقات کو سراہا جائے تاکہ نئے نام سامنے آتے رہیں اور گنگا جمنی تہذیب کی یہ شمع تاقیامت روشنی پھیلاتی رہے۔

اردو کے ساتھ ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اسکی مخالفت بھی اردو میں ہوتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسکی حلاوت اور شیرینی کے قصے کسی فرنگی زبان میں سنائے جاتے ہیں۔ لیکن میر کی اس لاڈلی کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ وہ سیاسی شخصیات جو ہنوستانی معاشرے کی اس مشترکہ وراثت کو مغل تاجداروں کی آخری نشانی سمجھتے ہیں اپنی تقریروں میں بے تحاشہ اردو اشعار کی مدد لیتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو حزب مخالف پر چوٹ کرنے کے لئے اور اپنے موقف کی وضاحت اور مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لئے ان کو اسی زبان کی چوکھٹ پہ ماتھا ٹیکنا پڑتا ہے اور ایوان پارلیمان میں ندا فاضلی کی غزل اردو کی عظمت کا جھنڈا گاڑ دیتی ہے ۔

 سفر مِیں دھوپ تو ہوگی، جو چَل سکو تو چَلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

 اردو کو عوامی سطح پر زوال کا کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ سرکاری سطح پر اس کو یقیناً وہ پذیرائی نہیں ہو رہی ہے جو اسکا حق ہے۔ ہندوستان میں تو خیر یہ ڈیڑھ درجن قومی زبانوں میں سے ایک ہے البتہ پاکستان کی تنہا قومی زبان ہونے کے باوجود اسکو علاقائی اور لسانی تعصب کا سامنا ہے۔ سرکاری سطح پر اردو کو اسکا جائز منصب دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اسکو دینی،علاقائی اور نسلی تعصب سے دور رکھا جائے اور برصغیر کی مشترکہ تہذیبی شناخت کے اعتبار سے اسکی ترویج و تشہیر کی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سیمینار، مذاکرے اور مشاعرے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں جہاں مختلف العقائد افراد ایک چھت کے نیچے صرف اردو کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ گزارش ضروری ہے کہ تجارتی ادب پائیدار تخلیق پیش نہیں کرسکتا لہذا حتی الامکان ان تقریبات کو تخلیقی بنیادوں پر ترتیب دیا جائے تاکہ اردو زبان اور تہذیب دونوں کو سطحیت اور ابتذال اور "اردو نُما زبان” کے چرکوں سے محفوظ رکھا جائے۔

ایک زمانہ تھا جب مشاعرہ تہذیب کا عکاس اور اردو روایتوں کا امین تھا اور زبان چشیدہ حضرات اس یقین کے ساتھ آتے تھے کہ اردو تہذیب سیکھیں گے، زبان کی اٹھکیلیوں سے لطف اندوز ہونگے اور کچھ نئے رویے سیکھ کر یا آباء کی روایات تازہ کرکے لوٹیں گے لیکن افسوس کہ اب ادبی محفلیں پژمردگی اور تنزلی کا شکار ہوتی جارہی ہیں، لہذا اس طرف بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

قابل صد مبارکباد ہیں وہ لوگ اور وہ ادارے جو اس طرح کی معیاری تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور خاموشی کے ساتھ اپنے حصے کی شمع جلاتے جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔