امریکہ اوردنیا مسلمانوں سے کیا مطالبہ کررہی ہے؟

گزشتہ دنوں پوری دنیا پر اپنی کھوکھلی طاقت اور معیشت کا دھونس جمانے والے امریکہ کے سکندر ناہنجار نے 7مسلم ممالک کے افراد کو امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی ہے۔ حالانکہ وہاں کی ایک ذیلی عدالت نے اس فیصلہ پر ایک ماہ کے لئے روک لگائی ہے۔ بعد ازاں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں یہ وضاحت کی کہ میرا فیصلہ اپنے ملک کی سکیورٹی اور تحفظ کے لئے ہے یہ فیصلہ عارضی ہے۔ آئندہ تین مہینوں کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا۔ اس پر دانشوروں کے بے شمار تبصرے بھی آئے ، ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے اس فیصلہ کی تاویل وتوضیح کی ہے۔ کسی نے اس پر تنقید کی ہے تو کسی نے اس کی تائید بھی کی ہے۔ مملکت اسلامیہ میں ایک بڑا نام متحدہ عرب امارات (یواے ای) کا آتاہے۔ جس کے ایک بڑے عہدہ دار نے ٹرمپ کے فیصلہ کی یہ کہتے ہوئے حمایت کی ہے کہ ’’امریکہ ایک آزاد ملک ہے، اس کو اپنے تحفظ اور سکیورٹی کے لئے ہر طرح کے اقدامات کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ امریکہ میں کسی ملک کے باشندوں کے داخلہ پر اگر پابندی عائد کی جارہی ہے تو وہ اس فیصلہ کے لئے آزاد ہے اور وہ ایسا کرسکتاہے۔‘‘ ہم ان تبصروں پر تبصرہ کرکے آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے، ہم تو صرف آپ کو حقیقت کاآئینہ دکھانا چاہتے ہیں کہ امریکہ جو ہرجگہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا فریضہ بتاتاہے اور چیخ چیخ کر یہ اعلان کرتاہے کہ جو ملک اور جو قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑے اس کے لئے ہمارے دروازے ہر وقت کھلے ہوئے ہیں بشرطیکہ وہ مسلمان نہ ہو اس ملک اور اس قوم کی ہم دامے، درمے، قدمے ، سخنے مدد کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔

یہ ایک دعویٰ ہے اس دعویٰ میں کتنی حقیقت ہے یہ اظہر من الشمس ہے۔ گزشتہ 25 یا اس سے زائد عرصہ سے امریکہ نے دنیا کے عظیم براعظم ایشیا میں اسی دہشت گردی کو ختم کرنے کی ٹھانی ہے اور مسلسل برسرپیکار ہے۔ اس میں کتنی کامیابی ملی ہے؟ یہ الگ بحث ہے۔ لیکن پانچ برسوں تک عراق کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد صدام حسین اور اس کی فوج کا قلع قمع کرنے کے بعد خود امریکہ نے اعتراف کیا کہ عراق پر حملہ امریکہ کی ایک بڑی غلطی تھی۔اس اعتراف سے کیا ہوا، کیا وہ ہزاروں جانیں جو اس میں تلف ہوئیں، وہ واپس آگئیں، کیا وہ ہزاروں مائیں جن کی گود سونی ہوگئی ان کو اس کا بدل مل گیا، کیا وہ ہزاروں بہنیں جن کی دنیا اجڑ گئی وہ پھر سے آباد ہوگئی، وہ ہزاروں بچے جو یتیم ہوگئے جن کے سروں سے والدین کا سایہ اٹھ گیا یا اپاہچ اور مجبور ومعذور ہوگئے ان کو سہارا مل گیا؟

افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کو بہانہ بناکر ملک کو تباہ کردیاگیا، وہاں ایسی انسانی تباہی مچائی گئی کہ تاریخ عالم کانپ اٹھی ، خود ظلم کو ظلم سے شرم آگئی۔ لیکن شرم اگر نہیں آئی تو امریکہ کو نہیں آئی یا اس کے ان پٹھوؤں کو جو انسانیت اور انسان دوستی کا دعویٰ کرتے ہوئے کسی دم نہیں تھکتے ہیں۔ لیکن زبان تو انسان کی ہوتی ہے مگر دل بھیڑیوں کے دل سے بدتر اور سنگ سے بھی زیادہ سخت ہوتاہے۔ امریکہ کی خود تحقیقاتی رپورٹ اور وہاں کے وزراء اور عہدہ داروں کی جانب سے آرہے بیانات نے اس بات کی کھل کر وضاحت کردی ہے کہ القاعدہ خود امریکہ کی پشت پناہی میں پلا اور بڑھا اور اسی کی پشت پناہی میں کام کرتا رہا۔ اب جبکہ القاعدہ کا نام پرانا ہوگیا ہے اور اس کی حقیقت سے دنیا آشنا ہوچکی ہے تو ایک نیا نام داعش کا سامنے لایا گیا اور دہشت گردوں کی ایک ٹولی جمع کی گئی، ہوسکتا ہے کہ اس ٹولی میں کوئی اسلام کا نام لیوا بھی ہو۔ لیکن ایسا بعید از قیاس ہے۔ اس جماعت کے تعلق سے بھی سابق امریکی وزیر ہلیری کلنٹن نے خود وضاحت کی ہے کہ داعش کو امریکہ نے خود پید اکیا ہے۔
دہشت گردی کی عجیب وغریب تعریف:۔ امریکہ نے دنیا کے سامنے دہشت گردی کی جو تعریف کی ہے، وہ بھی بہت عجیب وغریب ہے۔ اس نے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کا دوسرا نام دہشت گردی ہے، اور مسلمانوں کی دوسری شکل دہشت گردوں کی ہے۔ چیچنیا کے مسلمان اگر روس کے ظلم وتشدد کے خلاف آواز اٹھائیں اور علم بغاوت بلند کریں تو دہشت گردی ہے ۔ روس اگر بمبار طیاروں کے ذریعہ ان کے گھروں ، تعلیم گاہوں، اسپتالوں کو مسمار اور خاکستر کردے تو دہشت گردی نہیں ہے۔ ہزاروں، لاکھوں چیچن مسلمانوں کو خود ان کے گھروں سے بے گھر کردیا جائے تو دہشت گردی نہیں ہے۔ افغانستان میں عام لوگوں کے گھروں پر بم برسائے جائیں تو دہشت گردی نہیں ہے۔ لیکن اس کے رد عمل کے لئے ایک بھی شخص اپنی زبان کھولے تو دہشت گردی اور دہشت گرد ہے۔

1947-49ء کے دوران فلسطین سے خود ان کے اپنے ذاتی گھروں اور اپنے وطن سے 780000 لوگوں کو اسرائیل بے گھر کردیتاہے اور ان کو لبنان میں پناہ لینے پر مجبور کردیتاہے یہ دہشت گردی نہیں ہے۔ بعد ازاں انہی فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستیوں پر 1996میں میزائل اور بم برساکر اس وقت تہ تیغ کردیا جاتاہے جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب اقوام متحدہ کی پناہ میں آچکے ہیں۔ اس حادثہ کے تعلق سے ایک امریکی صحافی روبرٹ فیس اپنی ایک رپورٹ میں خون کے آنسو روتا ہوا نظر آتاہے، وہ لکھتا ہے: جنوبی لبنان میں معصوم انسانوں کی جوہلاکتیں میں نے دیکھیں ایسی میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھیں، عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے سب مردہ پڑے ہوئے تھے، کسی کا بازو غائب تھا، کسی کی ٹانگ ، کہیں لاش کا سرجد ا تھا تو کہیں سر تھا جسم کا دوسرا حصہ نہیں تھا۔ یہ دہشت گردی نہیں تھی، کیوں کہ اسرائیل کررہاتھا۔

اپریل1948 میں 416 دیہات کو مکمل ختم کردیا گیا۔ فصلوں اور پھلوں کے باغات کو تباہ وبرباد کرکے اس کی جگہ ہوٹلس، شراب خانے، سیر وتفریح گاہیں تعمیر کی گئیں، وہاں کے مکینوں کو جلاوطن کردیا گیا، اور یہ قانون نافذ کردیا گیا کہ جلاوطن افراد دوبارہ فلسطین نہیں آسکتے ہیں۔ کیا یہ سب انسانیت اور انسان دوستی ہے؟ اقوام متحدہ تو یہودیوں کا پارلیمنٹ ہے ہی، اس کی کیا؟ لیکن امریکہ جو دہشت گردی کو دنیا سے ختم کرنا چاہتاہے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر لاکھوں انسانوں کا اب تک خون بہا چکا ہے اس کو یہاں دہشت گردی نظر نہیں آتی؟ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حقوق انسانی میں جب فلسطین کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں تو غنڈوں اور غاصبوں اور انسان دشمن ممالک اس پر ویٹو کا استعمال کرکے ان مسائل کو منظور ہونے سے پہلے سرد خانہ میں ڈال دیتے ہیں۔
کیا شام میں اسرائیل اور ایران وروس کی مدد سے حزب اللہ کی بمباری ، ٹینکوں اور توپوں سے حملے، گھروں پر آتشیں یلغار، معصوموں کی جان سے کھلواڑ، بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں کا قتل عام دہشت گردی نہیں ہے؟ مسلم ممالک ماضی میں بھی ان کا تماشا دیکھ رہے تھے ، اب بھی دیکھ رہے ہیں، سوائے ترکی کے کوئی شام کی مدد کو آگے نہیں آیا۔ شام، لبنان، حلب جلتا رہا، وہاں سے معصوموں کی چیخیں بلند ہوتی رہیں، بوڑھوں کی آہ وبکا فضاء کو غمناک کرتے رہے، عورتوں کی عصمت تارتار ہوتی رہی،سرزمین ابنیاء لہولہان ہوتا رہا، میں کہاں تک بتاؤں، کلیجہ منہ کو آرہاہے، ہمت جواب دے رہی ہے، آگے بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں، آسمان خود ان حوادث کو رورہاہے، زمین ان بچوں کی لاشوں کو اپنے سینہ میں چھپانے کی کوشش کررہی ہے، تاریخ انسانی کا بدترین قتل عام ہورہاہے۔ لیکن یہ دہشت گردی نہیں ہے۔ آج امریکہ نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی اس لئے عائد کی ہے کہ اس کی نگاہ جیسا کہ میں ابتدا میں بیان کیا کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب اور ہر مسلمان دہشت گرد ہے، تو مسلم ممالک پہلے کی طرح آج بھی خاموش ہے، اگرکسی نے زبان کھولی تو مسلمانوں کے زخم پر مرہم کی بجائے جلتی میں تیل ڈالا ہے، اور یہ کہتے ہوئے ٹرمپ کی حمایت کی ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ اپنی جگہ صحیح ودرست ہے۔
لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کا فیصلہ کتنا ہی مناسب کیوں نہ ہو۔ لیکن اسلام کے حق میں انتہائی مناسب فیصلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام اس وقت زیادہ روشنی میں آیا اور اس میں داخل ہونے والے جوق درجوق اس وقت داخل ہوئے جب اس کو مٹانے کی بہت زیادہ کوشش کی گئی ، آپ کو یاد ہوگاکہ تاتاریوں نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن کیا ہوا خود انہوں نے ہی اسلام قبول کرکے اسلام کی وہ خدمت کی کہ تاریخ اس کی مثال سے قاصر ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا :
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
سندھ میں جب راجا داہر نے ایرانیوں کے ساتھ مل کر مسلم حکمرانوں کو چیلنج کیا اور کچھ مسلم خواتین کوقیدی بناکر اسلام کے خلاف آواز بلند کی تو محمد بن قاسم ثقفیؒ کی شکل میں اللہ نے ایک مسیحا کو بھیج دیا اور پھر اسلام وہاں پہنچا جہاں کےلوگ اسلام کے الف سے واقف نہیں تھے۔ لیکن ان تمام کارناموں اور معجزوں کے لئے مسلمانوں کو تیار ہونا پڑے گا۔ اخلاق وکردار کے وہی جوہر دکھانے ہوں گے جو نبی اکرمؐ نے دکھائے تھے اور جس کا سبق اپنے صحابہؓ کو سکھایا تھا اور شاید امریکہ نے اسلام کے لئے اپنے سینہ کو وا کردیا ہے، راستے صاف ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ عیسائیت تو کب مردہ ہوچکی ہے، مسیحیت نے اپنا وجود کھودیا ہے، بت پرستی میں اس طرح ضم ہوچکی ہےکہ وہاں ایک اللہ اور اس کی عبادت جس میں سکون دل ہے اس کا دور دور تک کوئی نشان وتصور نہیں ہے، اس پر طرہ یہ کہ یوروپی اور مغربی دنیا کے اخلاقی فساد، انسان دشمنی نے انسانیت کو شرمسار کردیا ہے، لوگ تڑپ رہے ہیں ایرکنڈیشنوں میں رہ کر بھی ان کا جسم جل رہاہے، آنکھ نہیں بلکہ دل خون کے آنسو رورہاہے، انسان بے سہارا وادی تیہہ میں بھٹک رہاہے۔انسانیت کو ایک سہار ا کی ضرورت ہے، ایک مسیحا کی ضرورت ہے اور یہ سہارا اورمسیحا اسلام ہی ہوسکتاہے، اور انسانیت کی مسیحائی صرف امت محمدیہؐ ہی کرسکتی ہے۔ یہی تو امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانیت کا مطالبہ ہے، یہی تو وہ مسلمانوں سے چاہتی ہے، اور اس کی مانگ کررہی ہے اور اسی کے لئےتو یہ امت مبعوث ہوئی ہے ۔ قرآن نے صاف لفظوں میں کہا ہے :
’’کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس ۔۔۔۔۔ کہ تم بہترین امت ہو تم کو لوگوں (کی نفع رسانی اور بہتری وہدایت ) کے لئے نکالا (مبعوث کیا) گیاہے۔‘‘(سورۃ البقرۃ: لیکن ہم اس کو نہ سمجھیں تو یہ ہماری بد نصیبی نہیں تو اور کیاہے۔اللہ ہم کو توفیق سے نوازے۔ آمین
جادۂ زیست کا ہر ذرہ سنور جاتا ہے تو مہ وسال کی یورش سے نکھر جاتاہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔