اردو صحافت اور ہماری ذمہ داری

 وصیل خان

صحافت کسے کہتے ہیں اور صحیح معنوں میں اس کی تعریف کیا ہے، اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں، سماج اورمعاشرے میں اس کی ضرورت کا پیمانہ کیا ہے۔ سماج پر اس کے اثرات کتنے مفید وکارآمدہوتے ہیں اس کی تفہیم بہت ضروری ہے۔کیوں کہ یہ سمجھے اور جانے بغیر ہم نہ اس کا درست طور پر تجزیہ کرسکتے ہیں نہ ہی اس کے صحیح خدوخال ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔

 اس ضمن میں ہم ہندستان کے ایک مشہور خبر رساں ادارے یواین آئی کے سابق جنرل منیجر جی جی میر چندانی کا ایک قول پیش کرتے ہیں، جو اپنے معانی ومفاہیم کے اعتبار سے صحافت کی جملہ خصوصیات پر محیط ہے۔ جس کی روشنی میں ہم بخوبی یہ طے کرسکتے ہیں کہ صحافت کا معیار کیا ہوناچاہیے اور یہ بھی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ موجودہ صحافت اپنے بنیادی اصول اور مقاصد سے کس درجہ منحرف وبرگشتہ ہوچکی ہے۔جس کے سبب کافی نقصانات اٹھائے جاچکے ہیں،اورمستقبل میں بھی اس کے کس قدر ہولناک نتائج نکل سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔

’’صحافت ملک وقوم کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ صحافت تہذیب وتمدن، ثقافت وسماجی قدروں کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘

 اسی طرح مولانا محمد علی جوہر جن کی ذات جامع الکمالات کہی جاتی تھی وہ بیک وقت عالم وفاضل، مورخ ومفکر، دانشوروسیاستداںاورصحافی وشاعرتھےانہوںنےصحافی اور صحافت کی ذمہ داریوں اور معاشرے میں ان کے مقام ومرتبہ کے تعلق سے اپنے اخبار کامریڈ میں لکھا تھا کہ ’’صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت کے ساتھ درج کرے۔ اسے خیال رکھناچاہیے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مورخ اس کی تحریروں کی بنیاد پر تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے۔ صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں، راہ نما بھی ہوتا ہے اسے صرف عوام کے دعاوی کی تائید وحمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ صحافتی میز سے عوام کو درس بھی دیناچاہیے‘‘۔ اظہار رائے کسی بھی انسان کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح سے اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا غرضیکہ ہر فعل میں انسان اپنی مرضی ومنشاء کو مقدم رکھناچاہتا ہے اسی طرح مختلف معاملات میں بھی وہ اپنے خیالات اوررائے کو آزاد رکھناچاہتا ہے۔ ڈاکٹر ماجد قاضی نے اپنی کتاب ممبئی کے اردو اخبارات میں ڈاکٹرعبدالسلام خورشید کے حوالے سے ایک اقتباس نقل کیا ہے جس سے آزادیٔ اظہار اور اس کی ضرورت واہمیت پر نہ صرف بھر پور روشنی پڑتی ہے بلکہ فن صحافت اور صحافیوں کے جملہ اصول وفرائض کے معیار کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

’’آزادی اظہار کے کئی روپ ہیں ان میں سے ایک روپ آزادیٔ صحافت کا ہے جس کے تقدس میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا سوائے ان لوگوں کے جن کا دماغ بے حس ہے اور ضمیر مردہ۔ جب سے صحافت معرض وجود میں آئی ہے آزادی صحافت اس کا بنیادی اصول رہا ہے اور جن صحافیوں کا ضمیرسلامت رہا انہوں نے اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دی ہے۔ انہوں نے صحافت کی کھیتی کو اپنے خون سے سینچا ہے‘‘۔

یہی نہیں اس ضمن میں مولانا محمد علی جوہر کے بتائے ہوئے کچھ رہنما اصول یہاں درج کیے جارہے ہیں جو صحافت یا کسی بھی اخبار یا صحافی کے لیے شہ رگ کا درجہ رکھتے ہیں جن پر عمل کیے بغیر صحافتی حقوق کی ادائیگی ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ ’’۱۔ اخبارات کو ذاتیات سے مبرا ہونا چاہیے۔ نہ کسی دشمن کے خلاف زیادہ لکھا جائے نہ کسی کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جائیںاور مخالفت اصول کے دائرے میں محدود رہے۔ ۲۔ جو کچھ لکھا جائے عبارت آرائی کے خیال سے نہیں، نہ لوگوں کی چٹکیاں لینے کی غرض سے۔ ۳۔ اخبارکا مقصد یہ ہو کہ اپنی قوم کو فائدہ پہنچایا جائے نہ کہ کسی دوسری قوم کو نقصان پہنچایا جائے۔ مذہبی مباحث سے بھی اخبارکو معرا ومبرا ہوناچاہیے۔ ۴۔ اخبار خبروں کا مجموعہ ہوتا ہے، لہذا زیادہ تر خبروں کا حصہ ہوناچاہیے۔ ۵۔ ایڈی ٹوریل محض بھرتی کے لیے نہیں بلکہ کسی اہم اور تازہ واقعے پر لکھا جائے اور اس کے لیے پوری محنت، تحقیق اورمطالعے سے کام لیا جائے۔ ‘‘

یہ چند اقتباسات اس غرض سے شامل مضمون کیے گئے ہیں تاکہ صحافت، اس کے اصول وضوابط اور صحافتی ذمہ داریوں کی تعیین کی جاسکے۔ اب اس تناظر میں ہم یہ دیکھیں گے کہ آج کی اردو صحافت اپنے طے شدہ اور مقررہ معیاری اصولوں سے کس درجہ منحرف ہوچکی ہے۔ اس سے قبل ہمیں یہ بھی جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صحافت خواہ وہ کسی بھی زبان سے متعلق ہو فی الوقت اس کا معیار کس درجے پر ہے۔ دلائل وقرائن کی رو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موجودہ صحافت اپنے معیار سے اتر کر اس مقام پر پہنچ چکی ہے جسے اب زرد صحافت کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے یعنی ایک ایسی صحافت جو اپنے تمام تر بنیادی اصولوں اور معیار سے یکسر منحرف ہوچکی ہے جو عام انسانوں کے لیے راہ نما سے زیادہ شر نما بن گئی ہے۔

موجودہ صحافت نے آج جو رخ اختیار کرلیا ہے، اس تعلق سے ماہرین صحافت نے مختلف تحریروں کے ذریعے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، اس ضمن میں مولاناوحیدالدین خان کی تحریرسے ایک اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس کی روشنی میں صحافتی زوال کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

’’اخبار یا میڈیا کی حیثیت انڈسٹری جیسی ہے، اس کا مقصد نیوز فروخت کرنا ہے۔ ایسی حالت میں وہ انہی خبروں کوسامنے لاتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ قابل فروخت ہوں، اور عام انسانی مزاج یہ ہے کہ اس کو سنسنی خیز خبروں سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے وہ اچھی خبروں سے کم دلچسپی لیتے ہیں اور بری خبروں کو زیادہ شوق کے ساتھ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ عوام کے اسی مزاج نے اخبار اور میڈیا کو بری خبروں کی اشاعت کی ایجنسی بنادیا ہے میڈیا اور اخبار کے تازہ اصول کے مطابق اچھی خبر کوئی خبر نہیں۔ Good News Is Not News ” ــ ــ

ایسے میں اردو صحافت کا تجزیہ بڑی حد تک آسان ہوجاتا ہے کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی اچھی خاصی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ 1988میں پاکستان کے مشہورانگریزی اخبار ’ڈان‘ کے مدیر صبیح الدین غوثی جب ممبئی کے دورے پر آئے تھے، اس وقت اردو اخبارات کے تعلق سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ’’ آج اردو اخبارات مسلم اخبار بن کر رہ گئے ہیں ‘‘۔ وہ صرف احتجاج ومطالبات کی زبان جانتے ہیں۔ اس تبصرے میں اتنی معنویت ہے جس سے اردو صحافت کے تمام سیاق وسباق کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔

 اخلاقی سطح پر جس زوال کاشکار عام صحافت ہوئی ہے اردو صحافت پر بلا شبہ اس کے اثرات سب سے زیادہ مرتب ہوئے ہیں، لیکن اردو زبان کے سا تھ جو سوتیلا سلوک سرکاری سطح پر روا رکھا گیا اس کے سبب بھی اردو صحافت بڑی حد تک زوال پذیر ہوئی ہے۔ اشتہارات کسی بھی اخبار کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں جس کی کمیابی معاشی واقتصادی سطح پر اسے کمزور کردیتی ہے۔ اس ضمن میں سرکاری اور غیر سرکاری اشتہارات اردو صحافت کی جملہ کمزوریوںکو دور کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف تعصب اور تنگ نظری کی شکار اس زبان کے قارئین کی روز بروز گھٹتی تعداد اس زبان کی ترویج وارتقاء کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔یہ مسئلہ دوسروں سے زیادہ خود مسلمانوں کا پیدا کردہ ہے، جن کی ایک بڑی تعداد اردو زبان سے دور ہوگئی ہے۔ اردو صحافت کی کمزوریوں کا آج بھی بڑی حد تک ازالہ کیاجاسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس زبان کو روزی روٹی سے جوڑکر سرکاری سطح پر بااختیار زبان بنانے کی کوششیں کی جائیں اور مندرجہ بالا صحافتی خصوصیات کو پھر سے بازیاب کیاجائے اور اردو کے نام پر کی جانے والی گھٹیا سیاست کا قلع قمع کرکے مکمل طور پر خلوص ومحبت کامظاہرہ کیاجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔