اردو کی بدحالی: ذمہ دار کون؟

 پریم ناتھ بسملؔ

اردو زبان و ادب کی بدحالی اور گمنامی کے لیے کوئی ایک شخص یا  کسی ایک ادارہ، کالج،یا یونیورسٹی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اردو زبان ہمارے ملک کی بہترین زبانوں میں  سے ایک  زبان ہے۔ اس کی پیدائش اور پرورش میں ہم ہندوستانیوں کا اہم رول رہا ہے۔ لہٰذا ہم سب کا یہ فرض بنتا تھا کہ ہم اس کی حفاظت پرورش اور دیکھ بھال ٹھیک اسی طرح کرتے جیسے اپنے بچوں کا کرتے آئے ہیں۔ لیکن افسوس ! صد افسوس ! کہ ہم ایسا کر نہ سکے! آخر کیا وجہ ہے کہ ہم جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں، ہم جس کی روٹی کھاتے ہیں اسی کو بھول جاتے ہیں۔

اردو صرف ایک زبان نہیں ایک راستہ ہے، جو ہمیں  منزلِ مقصود تک پہنچاتی رہی ہے، لیکن ہم ایسے مسافر ہیں، جو اس استے پر چلتے ہیں، پھر اس راستے کو اپنے پیروں سے روندتے ہیں، مسلتے ہیں لیکن اس کی دیکھ بھال نہیں کرتے، اس کی بدحالی کی طرف توجہ دینا گوارا نہیں کرتے۔ ہم اپنی ذمہ داری دوسرے پر تھوپتے ہیں دوسرا تیسرے پر اور تیسرا چوتھے پر، اس طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور  ہماری اردو، بیچاری اردو، بے بس اور لاچار اردو، چپ چاپ سب کچھ دیکھتی اور سنتی رہتی ہے، پھر بھی ہر قدم پر ہماری مدد کرتی رہتی ہے اور کرے بھی کیسے نہیں آخر یہ ہماری مادری زبان جو ہے۔ مادری زبان اور ماں میں کیا فرق ہے۔ اک ماں کو جیسی ہمدردی اپنے بچوں سے ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح کی ہمدردی اردو بھی ہم سب سے رکھتی آئی ہے اور رکھتی رہے گی، بھلے ہی ہم اس ماں کے دل کو چھلنی کرتے رہیں، اس کی بےعزتی  و بےحرمتی کرتے رہیں۔

 جب ہم چھوٹے تھے تو اسی اردو نے مکتب میں، مدرسہ میں،اور اسکولوں میں انگلی پکڑ کر ہمیں چلنا سکھایا، راستہ دکھایا لیکن آج ہم بڑے ہوگئے ہیں، اپنا برا بھلا سمجھنے لگےہیں تب ہم نے حسین و جمیل نئی نویلی وی دیسی دلہن، انگریزی سے اپنا دل لگا لیا، اسے اپنا محبوبہ بنا لیا بھلا اک نئی نویلی محبوبہ کے سامنے بوڑھی ماں کی کیا عزت اور حرمت ہو سکتی ہے ؟

 ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جس کو اردو پڑھنا لکھنا پسند نہیں، اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے حالاں کہ یہ ان کا دماغی فتور ہے ۔اردو خالص ہندوستانی زبان ہے اس لیے کہ اس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی ہے، ہاں یہ بات اور ہے کہ اردو کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہے بلکہ اس کا رسم الخط فارسی زبان سے مستعار لیا گیا ہے اور فارسی ایران افغانستان جیسی دیگر ممالک کی زبان ہے۔ لیکن جہاں تک کہ میں جانتا ہوں کہ ایک وقت افغانستان بھی بھارت کا ہی حصہ تھا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو فارسی بھی ہماری اپنی ہی زبان ہے اسلئے اردو کا رسم الخط بھی اپنا ہی ہوا۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے تو اردو کہیں سے بھی باہری زبان نہیں ہے بلکہ ہمارے ملک کی زبان ہے۔

 ہم نے پڑھا ہے کہ جالیاں والا باغ میں جنرل ڈائر نام کے ایک انگریز نے ہم ہندوستانیوں پر بے سبب گولیاں اور توپوں کی بوچھاڑ کردی، بے شمار لوگ مارے گئے ۔ انگریزوں نے ہمیشہ ہی ہم سب کو طرح طرح سے ستایا اور طرح طرح کی مصیبتوں میں دھکیلا۔  ان تمام واقعات کے باوجود ہم لوگ انگریزی لکھتے پڑھتے اور بولتے ہیں۔

ہمارا سارا کام انگریزی میں ہی ہوتا ہے، سونا جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، ہنسنا رونا۔

 ,I am sad! I am glad! I love you, how are you! hi darling, sweetheart

 بیچاری بوڑھی ماں چپ چاپ اپنے  بیٹوں کی بیوقوفی اور گلاجت سے بھری ہوئی باتیں سنتی ہے اور اپنی بے بسی اور لاچاری پر  اشکوں سے آنکھیں دھوتی ہے۔ دوسروں پر ذمہ داری سوپنا آسان ہے، کسی کام کو خود کرنا مشکل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب کو ایک ساتھ مل کر، ہاتھ سے ہاتھ ملا کر، اپنی اس ماں کو، اس اردو کو اس کا صحیح مقام صحیح نام  اور حق دلائے۔ اس میں ہم سب کو ساتھ چلنا ہوگا، ہندو مسلم اور ذات پات کو بھولنا ہوگا۔ اردو ہندوستان کی زبان ہے اس میں پورے ہندوستانیوں کو ساتھ چلنا ہوگا۔ تبھی جا کر ہماری اردو اپنی اردو پیاری اردو سارے جہاں سے سارے زبانوں سے نیاری اردو کھلکھلا کر ہنسے گی مسکرا کر باتیں کرےگی۔

تبصرے بند ہیں۔