اردو کے ممتاز ادیب، نقاد اور مترجم پروفیسر ظہور الدین کا انتقال

برصغیر کے ممتاز ادیب پروفیسر ظہور الدین کے انتقال پر دہلی یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر مشتاق قادری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے انتقال سے اردو زبان و ادب کو بڑا نقصان ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر ظہور الدین نے برسوں اردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ ان کا شمار جموں و کشمیر کے چند مشہور و معروف ادیبوں ، صحافیوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ جنھوں نے کئی اہم موقعوں پر جموں و کشمیر کی نمائندگی کی ہے۔

مشتاق قادری نے اس موقعے پر کہا کہ پروفیسر موصوف نے اردو زبان کو جو اعتبار بخشا ہے وہ قابلِ رشک ہے۔ ان کے مطابق پروفیسر ظہورالدین نے ڈرامانگاری، تنقیدنگاری،ترجمہ نگاری اور صحافت نگاری میں ایک خاص شناخت قائم کی تھی۔ ان کی درجنوں تصانیف شائع ہو کر مقبول بھی ہوچکی ہیں جن میں جدید ادبی و تنقیدی نظریات، کہانی کا ارتقا، تعبیر و تاویل وغیرہ چند اہم کتابیں ہیں۔ مشتاق قادری نے پروفیسر موصوف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے پروفیسر گیان چند جین کے ساتھ پی۔ ایچ۔ ڈی کی تھی۔ وہ دو بار صدر شعبۂ اردو کے علاوہ جموں یونی ورسٹی کے رجسٹرار اور کنٹرولر امتحانات کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

ڈاکٹر قادری نے یہ بھی کہا کہ سرکار نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی کے قیام کے سلسلے میں موصوف سے مفید افزا مشورے بھی لیے تھے،اس طرح ان کا شمار یونی ورسٹی کے بانیوں میں بھی کیا جانا چاہیے۔ وہ جموں میں مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے سرپرست بھی تھے۔ ڈاکٹر قادری نے مرحوم ظہورالدین کے کارنامے گناتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ریاست و بیرون ریاست کے کئی ادبی حلقوں نے پروفیسر ظہورالدین کے انتقال پرسخت رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ مرحوم کا انتقال آج صبح جموں میں واقع ان کی رہائش گا پر ہوا۔ موصوف کافی وقت سے علیل تھے۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے اور اہلیہ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے پیچھے لائق و فائق شاگردوں کی ایک کثیر تعداد چھوڑی ہے جو دنیا کے مختلف کونوں میں ملک و قوم کا نام فخر سے اونچا کر رہے ہیں۔

ان کے انتقال پر اردو کی جن اہم شخصیات نے تعزیت کا اظہار کیا۔ ان میں صدر شعبۂ اردو ، دہلی یونی ورسٹی پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر ابن کنول، ڈاکٹر عبدالحق نعیمی،ڈاکٹر محمد کاظم، ڈاکٹر امتیاز، بشیر چراغ،ڈاکٹر مشتاق احمد وانی،ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر شاہ فیصل، غلام نبی کمار وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔