اسباقِ ہجرت

عبد العلیم الجامعی

(دارالادب انتری بازار سدھارتھہ نگر یوپی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عالمی صورت حال کسی ذی علم پر مخفی نہیں، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، دینی اور اخلاقی بحران کا ہر شخص معترف ہے، تعصب و تنگ نظری کا عروج، وسعت فکر ونظر کا فقدان، ادنیٰ سی ہم کلامی کے سبب جنگ وجدل پر آمادگی، شراب نوشی کا گرم بازار اور حرام ذرائع سے تکمیل شہوات کا رواجِ عام، گویا الفت ومحبت، اخوت وبھائی چارگی، ہمدردی و غم گساری اور منصفانہ رویوں کو پابند سلاسل کردیا گیا تھا ایسے میں ایک ایسے مسیحا اور رہبر  کی ضرورت تھی جو بے چین روحوں کو سکون واطمنان کا جام نوش کرائے، انسانوں کو انسانیت سے متعارف کروائے اور ظلم و ستم کو کافور کرکے عدل وانصاف کی فضا قائم کرے۔

تبھی اللہ رب العزت نے بطور مصلح، بشیر ونذیر، صادق وامین، رحمۃ للعالمین محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا، تاکہ آپ کے ذریعہ الہ واحد کی پہچان ہو، شرک سے بیزاری اور ایمان سے محبت کا جذبہ پروان چڑھے، شیطان کی ہمسائیگی سے دوری اور خشیت الٰہی سے سینہ معمور ہو۔

لیکن بجائے اس کے کی آپ کی باتوں پر کان دھرا جاتا، آپ کی تعلیمات کو سینوں سے لگایا جاتا، آپ کے گذرگاہوں پر پھولوں کی بارش کی جاتی، آپ کے نقشِ پا کو جبینوں کا جھومر بنایا جاتا، لوگ آپ کے جانی دشمن بن گئے، کبھی ڈرا اور دھمکا کر کبھی عہدے ومنصب، مال وجائیداد اور حسیناؤں کی قطار کا لالچ دے کر تو کبھی پاگل و مجنون کے اوصاف سے متصف کرکے دعوت توحید کو روکنے کی ناپاک سعی کرنے لگے۔

جب ان سے معاملہ حل نہیں ہوا تو آپ پر اور آپ کے اصحاب پر اذیتوں کے پہاڑ توڑے گئے، درختوں کے چھالے چبانے پر مجبور کیا گیا، گرم ریت پر لٹا کر سینوں کو پتھروں سے پیسا گیا، انسانی جسم کے ٹکڑے کیے گئے لیکن پھر بھی توحید کا ڈنکا بجتا رہا، الہ واحد کی صدائیں ایوان باطل میں کہرام مچاتی رہیں۔

لیکن جب ظلم حد سے گزر گیا آپ کے قتل کی سازش ہونے لگی تو اللہ رب العالمین نے جو کہ عرش سے ان تمام حرکتوں کا نظارہ کر رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رخت سفر باندھنے کا حکم دیا اور دنیاوی اسکیموں کو اپناتے ہوئے یہ روشن چراغ مدینہ کو منور کرنے چلا گیا، وہاں پر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکومت و سلطنت دی اور اسلام کا پودا خوب پھلا پھولا حتی کہ چپے چپے پر توحید کا نعرہ بلند ہونے لگا اور جب دین اسلام کی تکمیل ہوئی تو اللہ تعالی نے اپنے اس محبوب پیغمبر کو اپنے پاس بلا لیا۔

ہجرت کا سب سے اہم سبق یہی ہے بقول استادِ محترم شائق بستوی حفظہ اللہ تعالی۔

مشکلوں کے بعد آسانی کا آتا ہے مقام

سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد

کہ جب ظلم حد سے گزر جاتا ہے، سرکشی آسمانوں سے باتیں کرنے لگتی ہے، بدبختی اور شقاوت ہر مکان کی مکیں بننے لگتی ہے، پریشانیاں آسانیوں کو عنقا بنادیتی ہیں، مصائب ومشکلات راحت وسکون کے جنم سے گھن محسوس کرتے ہیں، تو اللہ تعالی انھیں کی کوکھ میں آسانیوں کو پروان چڑھاتا ہے، راحت رسانیاں انھیں کے گود میں کھیل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رنجاں ہوتی ہیں، کیونکہ رات کی سیاہی جب حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو سحر کی نموداری اتنی ہی قریب اور یقینی ہوتی ہے”إن مع العسر يسرا“{ الشرح:-٥-٦}  آسانیاں پریشانیوں سے مربوط ہیں، سکون واطمنان، قلق و ہیجان کے رفیق ہیں، فرج اور کشادگی کا تنگی و بدحالی سے چولی دامن کا رشتہ کا ہے، کیونکہ مشقتوں کے بغیر آرام کا ملنا اس کی اہمیت کو دل میں کوئی خاص جگہ نہیں دیتا، تندی کے بغیر قرار کا حصول کوئی وزن نہیں رکھتا اور انسان اس کی قدر و منزلت سے عاری رہ جاتا ہے، اسی لیے آرائش کو آزمایش سے جوڑا گیا تاکہ دونوں کی اہمیت دلوں میں گھر کرلے اور ان کے متعلق انسان دھوکے میں نہ پڑے جیسا کہ عام لوگوں کا حال ہے بقول رسول صلی اللہ علیہ وسلم ”نعمتان مغبون  فيهما كثير من الناس الصحة والفراغ“{ صحيح البخاري ٦٤١٢ }دو نعمتوں کے متعلق اکثر لوگ مفتون اور دھوکے میں ہیں اور وہ ہے صحت وتندرستی اور عدم مشغولیت۔

اور دوسرا عظیم درس ”اجتماعیت، باہمی نصرت و امداد، آپسی ہمدردی” ہے۔ تاکہ مسلمانوں کی قوت یکجا ہو اور ان ٹکڑیوں سے ایک مضبوط اور ایمان و یقین، صبرو استقلال، جذبہ فدائیت و جانثاری سے سرشار ایک جماعت کی تشکیل ہو جو ہر محاذ پر مسلمانوں کی سلامتی کا بیڑہ اٹھائے۔ اور یہی وجہ تھی جن لوگوں نے ایسے وقت میں ہجرت سے اپنا دامن بچا لیا انھیں کافر و ظالم  کے خطاب سے نوازا گیا۔

اسی لیے ہمیں یہ سبق ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم وستم پر صبر کریں! ایذا رسانیوں پر استقامت کو گلے لگائیں اور ان سے بچنے کی تدبیریں اپناتے رہیں، اللہ تعالی سے نصرت و امداد مانگتے رہیں اور جب ایمان و اسلام پر خطروں کے بادل منڈلانے لگیں، دین پر عمل انگاروں پر چلنے کے مشابہ ہوجائے، الامان والحفیظ کا فقدان ہوجائے تو اس دار الکفر سے ارض اللہ  کی طرف کوچ کر جائیں، وہاں پر منظم طور سے اپنا وجود قائم کریں اور لوگوں کی اصلاح کے لیے سرکرداں ہوں، آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ظالموں کو ظلم سے روکیں اور ان کے کرتوتوں کا مزہ چکھائیں ۔

اللہ رب العزت ہماری پریشانیاں دور کرے اور ہمیں بنیان مرصوص کے مثل بنائے۔

تبصرے بند ہیں۔