استاد ہی پہنچاتا ہے آسمان کی بلندی تک

مظہر اقبال خان

انسانی زندگی میں یوں تو ہر دن کی ایک اہمیت ہے، لیکن معاشرہ میں سال کے جن ایام کو خصوصی درجہ دیا گیا ہے، ان میں ایک ’’یوم اساتذہ‘‘ ہے، جو ۵ ستمبر کو ہر سال ملک میں منایا جاتا ہے اور اس موقع پر جلسے ومباحثے منعقد کرکے ایک قابل احترام اور شخصیت ساز پیشہ میں مصروف اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اساتذہ کو یاد کرنے کا یہ دن ہندوستان کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سراواپلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر ایک استاد تھے اور اساتذہ کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہے۔ اسی لیے ہر سال ان کے جنم دن پر یومِ اساتذہ بنایا جاتا ہے اور اساتذہ کی عزت افزاٸ کی جاتی ہے۔بقولِ شاعر۔

 ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا 

 وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں 

انسان جس سے بھی کچھ سیکھے اس کا احترام فرض ہے۔ اگر سیکھنے والا، سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض ’’رٹا‘‘ ہے۔ حفظ بے معرفت گفتار ہے،اس میں اعمال کا حسن نہیں، گویا وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہووہ ایک بے معنی لفظ ہے۔ علم کسی بھی نوعیت کا ہو۔ اس کا عطا کرنے والا بہر حال قابلِ عزت ہے اور جب تک ادب و احترام کا جذبہ دل کی گہرائیوں سے نہیں اٹھے گا  تب تک نہ علم کا گلزار مہک سکے گا اور نہ ہی علم، طالب علم کے قلب و نظر کو نورانی بنا سکے گا۔ باقی تمام چیزیں انسان خود بناتا ہے مگرانسان کو کون بناتاہے۔میری مراد انسان کی تخلیق نہیں انسان کا بشریت سےآدمیت کی طرف سفر ہے۔انسان کو بنانے والے فنکار کا نام ہے، ’’معلم‘‘۔ اسی لیے اس کا کام دنیا کے تمام کاموں سے زیادہ مشکل، اہم اور قابلِ قدر ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ روحانی رشتہ ہے یہ تعلق دل کے گرد گھومتا ہے۔ اور دل کی دنیا محبت، ارادت کی کہکشاں سے بکھرتی ہے۔

کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔ استاد قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے لوگوں کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے۔ اساتذہ اپنے آج کو قربان کر کے بچوں کے کل کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ دیگر معاشروں اور مذاہب کے مقابلے میں اگر اسلام میں استاد کے مقام کے بارے میں ذکر کیا جائے تو اسلام اساتذہ کی تکریم کا اس قدر قائل ہے کہ وہ انہیں روحانی باپ کا درجہ دیتا ہے۔ کسی بھی انسان کے اصلی والدین اس کو آسمان سے زمین پر لے کر آتے ہیں لیکن استاد اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے نتیجے میں اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ طالب علم کو آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچانے میں اساتذہ بہت نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے بے شمار جگہوں پر اساتذہ کے احترام کا حکم دیا۔

 اساتذہ کا احترام اسلامی نقطہ نظر سے دو اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک تو وہ منبع علم ہونے کے ناطے ہمارے روحانی اساتذہ ہوتے ہیں۔ ہماری اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لیے اپنی زندگی صرف کرتے ہیںاور دوسرا وہ طلبہ سے بڑے ہوتے ہیں اور اسلام بڑوں کے احترام کا حکم بھی دیتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد نبوی آتا ہے کہ جو بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔

 استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔

معاشرے میں جہاں ماں باپ کا کردار بچے کے لیے اہم ہے، وہاں استاد کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ ماں باپ بچوں کو لَفظ بہ لفظ سکھاتے ہیں، ان کی اچھی طرح سے نشوونما کرتے ہیں، ان کو اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں مگر استاد وہ عظیم رہنما ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے، آدمی کو حیوانیت کے چُنگل سے نکال کر انسانیت کے گُر سے آشنا کرواتا ہے۔ استاد آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کے ساتھ کیسے رشتے قائم رکھنے چاہئیں۔ استاد، ایک معمولی سے آدمی کو آسمان تک پہنچاتا ہے۔

ایک محقق کا قول ہے کہ ’’استاد باشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ پیدا کرتا ہے۔‘‘ نیل آرم اسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان کے طور پر مشہور ہے، اس نے بھی کبھی کسی استاد کے ہاں حروف تہجی سیکھے ہوں گے۔ اس نے بھی کسی استاد سے دوسروں کو سلام کرنے کی عادت سیکھی ہوگی۔

آج اگر ہم سقراط کو سچ کا علمبردار کہتے ہیں جس کی وجہ سے آج دنیا میں سچائی اور حق کا نام زندہ ہے، اس نے بھی کسی استاد کے پاس پہلا لفظ سیکھا ہوگا۔ اگر آج ہم بات بات پہ ارسطو، افلاطون یا جبران کا قول پڑھ کر رائے دیتے ہیں، یہ بھی استاد کا کمال ہے جس نے ایسی عظیم شخصیات پیدا کیں۔ آج ہم دنیا کے جس عظیم مفکر و تخلیق کاروں کی سوچ، فکر اور نظریے کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بی کسی استاد سے ا، ب، پ سیکھا ہے۔

مگر بدبختی سے ہمارے معاشرے میں استاد کی عزت سے کسی کرپٹ اور چور سیاسی پارٹی کے رہنما کا احترام زیادہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں استاد کو عام آدمی کی طرح جانا جاتا ہے اور حکومت کی جانب سے بھی استاد کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی۔
اک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

   کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل

 کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل

      گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی

    صرف ادراکِ جنو ں تھا اور قبا ناچاک تھی

 الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شئے سے بلند اور بسیط ہے۔ حتیٰ کہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استاد اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔اور رسولِ اکرم کی حدیث پاک ہے کہ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے تاجر کا خطاب پسند نہ کیا حالانکہ آپ حجاز کے ایک کامیاب ترین تاجر تھے۔ آپ نے اپنے لیے پسند کیا تو معلم یعنی استاد کا رتبہ۔ چنانچہ استاد کی عظمت سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔