اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

حفیظ نعمانی

پورے ملک میں لاکھوں مسلمان ہیں جن کا ایک آمدنی کا ذریعہ جانور کی کھال بھی ہے۔ عام دنوں میں ہر بڑے شہر کے ارد گرد جو قصبات اور دیہات ہیں وہاں شادی عقیقہ جیسی تقریبات میں جانور قربان کئے جاتے ہیں۔ ان کی کھالیں لے جاکر شہر کے بازار میں فروخت کرنا بھی ایک کام ہے۔ کتنے ہی لوگ وہ ہیں جو آگرہ اور کلکتہ کی ٹینریوں کے لئے کھالیں خرید کر اپنے گوداموں میں نمک لگاکر رکھتے تھے اور جب ٹرک کے قابل ہوجاتے تھے تو کلکتہ بھیج دیتے تھے۔ لکھنؤ میں ہمارے دوستوں میں دو ایسے تھے جن کا ذریعہ معاش صرف کھالیں خریدکر گودام میں رکھنا اور ہر ہفتہ ایک ٹرک کلکتہ بھیجنا تھا۔ اور ان کی فارغ البالی کے سایہ میں غریب رشتہ دار اور ملازم بھی عیش کررہے تھے۔

دوسرے شہروں کے بارے میں ہم نہیں جانتے لیکن لکھنؤ میں ممتاز دارالیتامیٰ برسوں پرانا مشہور ادارہ ہے۔ پچاس برس ہم اس کے پڑوس میں رہے قربانی کے بعد تمام لڑکوں کو سائیکل دے دی جاتی تھی کہ وہ گھر گھر جاکر یتیم خانہ کے لئے قربانی کی کھالیں لے کر آئیں۔ ان یتیم بچوں کے کھانے اور کپڑوں کا انتظام اہل خیر حضرات کرتے ہی رہتے تھے جو اُن کا جیب خرچ ہوجاتا تھا۔ گذشتہ سال بھی بکرے کی کھال کہیں چالیس کہیں پچاس میں بکی لیکن اس سال تو لکھنؤ میں اس کی قیمت دس روپئے اور اخباری خبر کے مطابق ہردوئی میں بکرے کی کھال چار روپئے میں بکی ہے۔

ہم نے پچاس برس عربی کے دینی مدرسوں کے لئے قربانی کے مسائل و فضائل چھاپے ہیں۔ ہر اشتہار میں یہ ضرور ہوتا تھا کہ قربانی کی کھالیں یا ان کی قیمت مدرسہ کو عنایت کرکے ثواب حاصل کریں۔ ملک میں نہ جانے کتنے مدرسے ہیں جو کھالوں کے لئے یہ بھی کرتے تھے کہ قربانی کے جانور خرید لیتے تھے اور مدرسہ سے تعلق رکھنے والے یا اس کے قریب رہنے والے ان بڑے جانوروں میں حصہ خرید لیتے تھے ان میں ایسے بھی ہوتے تھے جو حصہ کے روپئے تو دے دیتے تھے مگر گوشت نہیں لیتے تھے وہ کہتے تھے کہ مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں کو کھلا دیں یا غریبوں میں تقسیم کردیں۔ اس سے مدرسہ کو کھالیں مل جاتی تھیں اور بچوں کے لئے گوشت بھی۔ کھالوں کی قیمت میں صرف اپنے ملک میں ہی نہیں دوسرے ملکوں میں بھی اتار چڑھائو ہوتا رہتا ہے۔ گذشتہ پچیس تیس برس سے قریشی برادری میں نہ جانے ایسے کتنے ہیں جن کے پاس ماشاء اللہ دولت کی ریل پیل ہے اس میں کھالوں کے کاروبار نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بڑے جانور کی کھال والے ہیں۔ ان سے پہلے جب بکروں کی کھال روس، چین اور دوسرے ملکوں کو جایا کرتی تھیں تو ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں میں سب سے زیادہ دولت قریشی برادری کے پاس تھی۔ لکھنؤ میں ایک ایکسپورٹر تھے ماشاء اللہ ان کے چھ بیٹے تھے اور ہر ایک کے پاس امپورٹیڈ کار تھی لکھنؤ میں ایک زمانہ میں مشہور تھا کہ اگر کوئی غیرملکی کار نظر آئے تو آنکھ بند کرکے کہہ دینا کہ یہ حاجی صاحب کا کوئی لڑکا جارہا ہے۔

ان کا زوال ہوا تو ایک دوسرا قریشی خاندان اچانک اُبھرا اور لکھنؤ پر چھا گیا یہ بھی بکرے کی کھالوں کے ایکسپورٹر بنے۔ عروج و زوال تو اس کے حکم سے ہوتا ہے جس نے دنیا بنائی ہے اور اس کو چلا رہا ہے اور اب اسی سے فریاد ہے کہ وہ دَور کہاں گیا جو ایک ایک کھال کے پیچھے مدرسہ کے کارکن دوڑتے تھے اور اب ان ہی مدرسوں میں ہمارا ایک بھتیجا فخر کے ساتھ کھالوں سے بھرا بڑا تھیلا لے کر گیا تو مدرسہ والوں نے کہا کہ ہم کھالیں نہیں لیں گے۔ دس روپئے قیمت ہے اور اسے نمک لگائیں گودام میں رکھیں اور انتظار کریں یہ ہم سے نہ ہوگا۔ سنا ہے وہ کھالیں جو دو سو روپئے میں بکتی تھیں اب نالوں میں بہہ رہی ہیں۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ ملک میںمسلمانوں کی برادریوں میں انصاری کے بعد دوسری بڑی اور بااثر قریشی برادری ہے۔ انصاری برادری کو تو پہلے ہی حکومت مختلف طریقوں سے کمزور کرتی رہی ہے اب اس نے قریشی برادری کو نشانہ بنایا ہے کہ ہندوستان کی لیدر انڈسٹری کو ختم کرنے کیلئے پورے اترپردیش کو سلاٹر ہائوسوں سے محروم کردیا اور مختلف بہانوں سے ٹینریاں بند کرادیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے علاوہ کسی اور قوم کو مٹانے کے لئے اتنے حربے استعمال کئے ہوتے تو شاید 70  برس میں اس کا نشان بھی مٹ گیا ہوتا۔ مسلمان کی سب سے بڑی طاقت اللہ پر ایمان ہے وہ بڑے سے بڑے حادثہ کے بعد صرف ایک جملہ کہتا ہے کہ اللہ کی مرضی اور اس کے اس ایمان کی وجہ سے اللہ کو اس پر پیار آتا ہے اور اس کے لئے کوئی دوسرا راستہ کھل جاتا ہے۔

آزادی سے پہلے مسلمان ہر سرکاری محکمہ میں بھرے پڑے تھے۔ آزادی کے بعد سردار پٹیل نے پولیس اور فوج میں مسلمان کو نوکری نہ دینے کا حکم کیا دیا کہ ان کے لئے ہر دروازہ بند ہوگیا۔ مسلمان نے کہا اللہ کی مرضی اور اللہ نے دوسرے دروازے کھول دیئے اور لاکھوں مسلمان عرب ملکوں میں چلے گئے یا اپنا کاروبار کرنے لگے اور نوکری پر لعنت بھیج دی۔ اب حکومت نے صرف مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے دو سو روپئے میں بکنے والی بکرے کی کھال کو دس روپئے کا کردیا تو وہ کوئی اور راستہ نکالے گا جو ابھی کسی کو نظر نہیں آرہا ہے۔ ضرورت گڑگڑاکر دعا مانگنے کی ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس اس سے بڑی اور بااثر کوئی چیز نہیں ہے۔ مسلمان کو جو برباد کرنے کی سازش ہورہی ہے وہ صرف اس لئے کہ وہ اللہ کا نام لینا چھوڑ دے۔ یہ بات ہم سے زیادہ پاک پروردگار جانتا ہے۔ بس بندوں کو ایک ہی دعا کرنا ہے کہ جو سازش ہمارے خلاف ہورہی ہے اسے مولا ناکام کردے اور سازش کرنے والوں کو توفیق دے کہ وہ بھی کہیں۔ لاالہ الا انت۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔