استقبال رمضان کے دو پہلو

محمد طارق اعظم

اول: نیکیوں کا اہتمام

  رحمت و برکت کا وہ مقدس مہینہ بس اب آیا ہی چاہتا ہے، جو مہینہ خدا کی طرف سے مسلمانوں کے لیے خاص عطیہ ہے اور گناہ گاروں اور سیہ کاروں کے لیے رب کریم کا عظیم تحفہ ہے۔ حديث قدسی ہے: اللہ تعالٰی کہتے ہیں ؛ روزہ میرے لیے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ یہ مہینہ خدا کی عطا اور بخشش کا ایسا مہینہ ہے جس میں ہر نیک کام کا اجر و ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک نیت اور اخلاص کے اعتبار سے بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس شخص کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جو ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اس شخص کے بھی تمام پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جو راتوں میں خدا کے حضور ایمان اور احتساب کی کیفیت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے صرف خدا کی رضا کی طلب کےلیے عبادات کی جائے۔

 اللہ تعالٰی روزہ دار سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اس کے منہ کی بو اللہ تعالٰی کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہوتی ہے۔ بندوں پر رحم و کرم کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اس ماہ میں شیطان قید کردیئے جاتے ہیں۔ ترمذی کی روایت ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو برائی پھیلانے والے شیطان اور جنات قید کردیئے جاتے ہیں، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ اور پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر اور بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے شر اور برائی کے چاہنے والے رک جا۔

جب یہ مہینہ اس قدر مقدس، بابرکت اور نہایت عظیم الشان فضیلت کا حامل ہے تو اس کی تیاری اور استقبال کےلیے اسی قدر اہتمام اور توجہ کی ضرورت ہے، تاکہ اس  ماہ کی رحمت، برکت اور مغفرت سے خوب خوب فائدہ اٹھایا جائے۔ ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس ماہ کے حقیقی برکات سے محروم رہ جائیں۔

نیکیوں کا مہینہ

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی تیاری کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ رجب اور شعبان ہی سے اس کی تیاری شروع فرما دیتے تھے۔ خوب کثرت سے ان دو مہینوں میں روزے رکھتے تھے۔ ساتھ ہی صحابہ کرام کو بھی اس کی تعلیم فرماتے اور ترغیب دیتے۔ اس تعلق سے امام بیہقی نے شعب الایمان میں ایک روایت نقل کی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا؛ اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس کے روزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (خدا کی بارگاہ میں ) کھڑا ہونے کو نفل مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نیک نفل کام خدا کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینہ کے سوا دوسرے مہینہ میں کسی نے فرض ادا کیا ہو اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینہ میں کسی نے ستر فرض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے۔ اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس کسی نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کےلیے گناہوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کا سبب ہوگا اور اسے اس روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا یارسول اللہ ہم میں ہر ایک کو سامان میسر نہیں ہوتا جس سے وہ روزہ دار کو افطار کرا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا کھجور پر یا پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو افطار کرا دے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے اللہ اسے میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ اس کو پیاس ہی نہیں لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائےگا۔ یہ (رمضان) وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے۔ اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے مملوک( غلام یا خادم) کے کام کو ہلکا اور کم کردے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اسے دوزخ کی آگ سے آزادی دے دے گا۔ (بیہقی شعب الایمان، کلام نبوت١ / ٤٥٧،٤٥٨)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس جامع اور فصیح و بلیغ خطبہ میں اپنی امت کو درج ذیل امور کی تعلیم دی:

٠ شعوری طور پر ہم اس مقدس ماہ کی عظمت و فضیلت کو تازہ رکھیں کہ اس سے عام نیکی کا شوق پیدا ہوگا اور خدا کی طرف رجوع کی توفیق ہوگی۔

٠ دن میں روزہ کے اہتمام کے ساتھ رات میں تراویح اور تہجد کا بھی خصوصی اہتمام کریں ۔ عام نوافل اور دوسرے نیک کاموں کو خوش اسلوبی اور اخلاص کے ساتھ انجام دیں ۔ اس لیے کہ عام نوافل کا ثواب اس ماہ میں فرائض کے ثواب کے برابر ہو جاتا ہے۔ فرائض کا خوب خوب اہتمام ہو اس لیے کہ ایک فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

٠ صبر کی اسپرٹ پیدا کریں کہ اس سے نفس پر کنٹرول حاصل ہوگا، شریعت پر بجا آوری آسان ہوگی اور خدا کے راستے میں پیش آئے مصائب و تکالیف کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کرنے اور حق پر ڈٹے اور جمے رہنے کی صفت پیدا ہوگی۔ اور اس کا بدلہ جنت ہے۔

٠ ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا کریں تاکہ دوسرے بھائیوں کے دکھ درد کو محسوس کر سکیں ، ان کے غم میں شریک ہوسکیں اور ان کی دلجوئی کرسکیں۔

٠ روزہ دار کے لیے دعوت افطار کا اہتمام کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ دعوت اعلٰی درجے کی ہو اور پیٹ بھر کر ہو بلکہ کھجور، لسی اور پانی کی تھوڑی سی مقدار بھی کافی ہے۔

٠ رحمت کے خوب طلبگار ہوں اور استغفار کی خوب کثرت ہو۔

٠ اپنے ماتحتوں کے بوجھ اور ذمہ داریوں کو کم اور آسان کریں تاکہ وہ بھی اس ماہ کے انوار و برکات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں ، اور یہ آپ کی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا سبب ہوگا انشاءاللہ۔

قرآن کا مہینہ

    یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں قرآن کی کثرت سے تلاوت کریں ۔ اگر عربی زبان پر قدرت ہے تو براہ راست قرآن کے مقصد اور پیغام کو سمجھیں نہیں تو ترجمہ کی بدولت قرآن کے معانی و مقاصد کو سمجھیں ۔ کم از کم ایک بار ضرور قرآن پاک کے مکمل ترجمہ کا مطالعہ کریں ۔ یہ قرآن کا ہم پر حق بھی ہے۔

دوم : گناہوں سے اجتناب

استقبال رمضان کا ایک پہلو تو یہ ہے جو اوپر گذرا، کہ نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور عبادات کا اچھی طرح سے اہتمام کریں ۔ دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے گناہ اور برے کاموں سے بچیں اور دور رہیں ۔ اس لیے کہ یہ ایک عام اصول اور قاعدہ ہے کہ کسی مقام اور وقت کی حرمت اور برکت کی بدولت جس طرح نیک کاموں کے اجر و ثواب کو بڑھا دیا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح برے کاموں اور گناہوں کی سزا اور عذاب کو بھی بڑھا دیا جاتا ہے، کیوں کہ اس سے اس کی حرمت پامال ہوتی ہے۔ جیسے حرمین شریفین میں نماز اور دیگر نوافل وغیرہ کا اجر و ثواب بڑھا ہوا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح یہاں گناہوں کی سزا بھی سخت اور دگنا ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کی اسی حرمت کی وجہ سے یہ مسئلہ ہے کہ جان بوجھ کر قصداً روزہ توڑنے پر قضا کےساتھ کفارہ بھی لازم ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جس طرح اس مقدس ماہ میں نیکیوں کا اہتمام کرنا ہے اسی طرح گناہوں سے بچنے کا بھی خوب اہتمام کرنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ گناہوں کی نحوست کی بدولت ہم سے نیکیوں کی توفیق ہی چھن جائے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلو سے بھی مختلف انداز و اسلوب میں امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔ متفق علیہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور و شغب اور دنگا فساد کرے۔ اور اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ۔(میں تمہارے اس مشغلہ میں حصہ نہیں لے سکتا)

بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے ” جس شخص نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی کچھ ضرورت نہیں ہے کہ وہ روزہ رکھ کر اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ "

دارمی کی روایت ہے ” کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اور کتنے ہی راتوں کو نماز میں کھڑے ہونے والے ایسے ہیں کہ انہیں اپنے قیام سے رتجگے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ "

ان مذکورہ ارشادات سے خوب واضح ہے کہ اس ماہ مقدس کے انوار و برکات سے حقیقی طور پر اسی وقت صحیح لطف اٹھایا جاسکتا ہے اور تقوی (جو کہ روزے کا اصل مقصد ہے) کی صفت بھی اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے، جب ہم نیکیوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بھی بچنے اور دور رہنے کا خوب خوب اہتمام کریں۔

ابھی ہی سے ہم ان امور کا اہتمام شروع کر دیں کہ یہی رمضان المبارک کی تیاری اور اس کا اصل استقبال ہے۔ اس کا بھی پختہ عزم و ارادہ کریں کہ اس ماہ مقدس میں نیکی اور تقوی کا رنگ اس طرح خود پر چڑھانا ہے کہ اگلے رمضان تک ہی نہیں بلکہ تا عمر اس کے اثرات باقی رہیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللهم وفقنا لما تحب و ترضى۔

تبصرے بند ہیں۔