اسرائیل کے نسل پرستانہ قوانین اور صہیونی سازش

عمیر کوٹی ندوی

اسرائیل کے سترویں یوم تاسیس کے موقع پر اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا یہودی قومیت اور یہودی حق خود ارادیت سے متعلق بل جس میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیل یہود کا تاریخی مادرِ وطن ہے اور انھیں اس میں قومی خود ارادیت کا خاص الخاص حق حاصل ہے”دو ماہ سے زیادہ عرصے تک اس پر جاری بحث کے بعد بالآخر پاس ہوگیا۔ اردن نے اسرائیلی حکومت کی طرف سے قانون سازی کے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ صہیونی راست متنازع قانون کی منظوری کے بعد نسل پرستی کی راہ پر چل پڑی ہے۔ اردن نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو ‘یہودی قومی مملکت’ قرار دینے کا قانون سراسر نسل پرستی اور بُغض کا شاخسانہ ہے جس نے صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ اور غاصبانہ قبضے کی پالیسی کو مزید بے نقاب کردیا ہے۔

جامعہ ازہر نے اپنے  مذمتی بیان میں کہا ہے کہ یہ قانون صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسی اور غیریہودیوں کے ساتھ بغض وعناد کا واضح ثبوت ہے۔جامعہ ازہر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطین میں یہودی آبادکاری کے فروغ، بدنام زمانہ’اعلان بالفور’ کے بعد فلسطینی قوم کے حقوق غصب کرنے کے تمام اقدامات، امریکی انتظامیہ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے جیسے اقدامات باطل اور ناقابل قبول ہیں۔

جامعہ ازہر نے فلسطینی قوم کی قربانیوں، ان کے عزم واستقلال، اپنی آزاد ریاست کے حصول کے لئے جدو جہد اور القدس کو اس کے دارالحکومت بنانے کے لئے قربانیوں کوتسلیم کیا ہے۔ جامعہ ازہر  نے یہ بھی کہاہے کہ”فلسطینیوں کی قربانیاں صہیونی نسل پرستی کو ناکام بنا دیں گی”۔یہ دنیا جانتی ہے کہ اہل فلسطین آغاز سے ہی اپنے حصہ کی جدوجہد میں تن من دھن سے مصروف ہیں اور اس کے لئے قربانیوں پر قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی انہوں نے اسرائیلی ریاست کے سامنے سرنگوں ہونے سے صاف الفاظ میں منع کردیا ہے۔ حماس نے پرزور الفاظ میں کہا ہے کہ ” اسرائیل کے نسل پرستانہ قوانین حقائق تبدیل نہیں کرسکتے۔ فلسطینی قوم ارض فلسطین کی اصل مالک ومختار ہے  اور فلسطین پر کسی دوسری قوم کے تسلط کا کوئی جواز نہیں ہے”۔

حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘یہودیت’  کو اسرائیلی ریاست کی اساس قرار دینے کے نسل پرستانہ قانون کا اصل ہدف فلسطینی قوم کے وجود کو ختم کرنے کی سازشوں کو آگے بڑھانا، فلسطینیوں کی املاک، زمین، وطن اور مقدسات پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہےکہ اسرائیلی ریاست کے انتہا پسندانہ اقدامات اور فیصلوں پر عالمی برادری اور علاقائی قوتوں کی خاموشی مجرمانہ پالیسی ہے جس کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو اپنے جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

اسرائیلی کنیسٹ(پارلیمنٹ) کے ذریعہ منظور کئے گئےاس نئے قانون میں جو نسل پرستی سے عبارت ہے، اس میں یہودیت کو اسرائیل کا قومی مذہب اور یہودی قومیت کو ریاست کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل صرف اور صرف یہودیوں کا ملک ہے اور پوری دنیا میں موجود یہودیوں کو اس کی طرف ہجرت کرنے اور یہاں آباد ہونے کا حق ہے۔ عظیم تر اسرائیل اس کا دارالحکومت اور عبرانی اسرائیل کی سرکاری زبان ہے۔ آج کے بعد عربی زبان قومی زبان کے درجے سے نکل چکی ہے۔ یہ قانون فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔120 ارکان پر مشتمل اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس قانون کے حق میں 62 ارکان نے ووٹ دیا ہے جبکہ 55 ارکا ن نے اس کی مخالفت کی ہے اور دو رکن بل پر رائے شماری کے وقت غیر حاضر تھے۔ اس موقع پر عرب سیاسی اتحاد کی طرف سے بل کی کاپیاں پھاڑ کراس کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا اور اسپیکر’یولی اڈلچائن’ کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جو بات کہی ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

 اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہےکہ” ہرٹزل کے ویژن کے 122 سال کے بعد یہودی قوم آج اسرائیل کو یہودی قومی ریاست بنانے اور اپنے یہودی وجود کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوئی ہے”۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ "صہیونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے”۔ خیال رہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے وقت سے ہی اپنے غیرآئینی اور معدوم وجود کو حقیقت میں بدلنے کے لئے نسل پرستانہ دستور سازی کا سہارا لیتا رہا ہے۔نیا قانون بھی اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور کیا ہے جب دو ماہ قبل امریکا نے اپنا سفارت خانے تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کو ایک بار پھر ایک نئی امریکی-صہیونی سازش کا سامنا ہے۔ روجرز معاہدہ، کیسنجر امن پلان، ریگن اقدام، بش،  کلنٹن، جارج بش جونیر اور اوباما کے بعداب ٹرمپ نے امن اسکیم کے نام پر ‘صدی کی ڈیل’ کے نام سے نئی عالمی سازش کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ لیکن فلطینیوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ نہ تو فلسطین کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی عالمی سازشی منصوبے کو قبول کریں گے اور نہ ہی اسے کامیاب ہونے دیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔