اسلام، اکیسویں صدی اور ڈاکٹر ذاکر نائک

محمد وسیم

اسلام کی آمد کے بعد ہی دنیائے انسانیت کو روشنی ملی، گمراہ اور بھٹکے انسانوں کے لئے امید کی روشنی دکھائی دی، محض 23 سال کے مختصر عرصے میں اسلام کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلنا شروع ہوئی اور آج اسلام کی روشنی ہر جگہ نظر آتی ہے، وقت جیسے جیسے گزرا اسلام کی روشنی مدّھم نہیں پڑی بلکہ ہر دل کو منوّر کرتی رہی، اسلام کی ابتدا سے ہی اسلام کے خلاف دشمنوں نے ہمیشہ سے سازشیں کی ہیں مگر ان کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، آج ملک ہندوستان میں عظیم داعیء اسلام اور تقابلِ ادیان کے ماہر ڈاکٹر ذاکر نائک کو محض مسلمان کی بنیاد پر مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ایسے وقت میں افسوس ہے کہ 25 کروڑ مسلمان والے ملک ہندوستان میں ان کی حمایت میں کوئی مضبوط آواز اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی ہے، آج حق و باطل کے درمیان باطل غالب نظر آتا دکھائی دے رہا ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اہلِ حق باطل کے خلاف معرکہ آرائی کو چھوڑ کر آپسی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں، اسلام عرب کے صحراؤں سے نکل کر ہندوستان مہمان بن کر پہونچا تو 21 ویں صدی میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے اسلام کی اچھی مہمان نوازی کی، اپنی حیثیت کے مطابق اس کی مہمان نوازی کا پورا حق ادا کیا، اس لئے 25 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اسلام کی مہمان نوازی کا پورا حق ادا کریں، ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف سخت پابندیاں اور ان کے خلاف سازشیں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ ہندوستان میں مستقبل میں دعوت کے راستے میں مزید پریشانیاں آنے والی ہیں۔

21 ویں صدی کی شروعات ہی اسلام و مسلمانوں کو بدنام کرنے سے ہوئی، 9/11 کے بہانے امریکہ اور اس کے اتحادی ہزاروں کلومیٹر کی دوری پر معصوم افغانستانی مسلمانوں پر چڑھ دوڑے، دنیا کی میڈیا، ہزاروں رسائل و جرائد، اخبارات اور دانشوروں نے اسلامی دشمنی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مگر تاریخ گواہ ہے کہ باطل طاقتوں کو ماضی میں اور افغانستان میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، امریکہ افغانستان سے بھاگنے کی کوشش میں ہے مگر اسے راہِ فرار نہیں مل رہی ہے، ان سب مشکل حالات میں انتہائی پر امن طریقے سے ڈاکٹر ذاکر نائک نے پیس ٹی وی کے ذریعے سے دنیا کے لوگوں کو بتایا کہ اسلام امن پسند مذہب ہے، امریکیوں کو بتایا کہ Islam means Peace، مگر اسلام کے دشمنوں کو یہ شخص دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد لگا، 21 ویں صدی میں جب دنیا ایک گاؤں کے تحت مختلف مذاہب میں مل کر زندگی گزار رہی تھی، مختلف ناچ گانے کے ادارے کھولے جا رہے تھے، جمہوریت کے فروغ میں مال خرچ کئے جا رہے تھے، مسلمان دنیاوی لہو و لعب میں مشغول تھے، اسلامی تعلیمات کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا تھا تو ایسے وقت میں تنِ تنہا ایک شخص پیس ٹی وی اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذریعے دنیا کے بھٹکے مسلمانوں کو آوازِ امّید دیتا ہے کہ آؤ اسلام کے پیغامِ امن کی طرف، مختلف ادیان کے لوگوں کو بتایا کہ ایک اللہ کی وحدانیت پر متحد ہو جاؤ تاکہ دنیائے انسانیت امن و سکون کی سانس لے سکے، اُس آوازِ امن اور آوازِ امید دینے والے کو دنیا ڈاکٹر ذاکر نائک کے نام سے جانتی ہے۔

ہندوستان کی سرزمین پر ڈاکٹر ذاکر نائک تقریباً 30 سالوں سے اسلام کی دعوت پر امن طریقے سے عام کر رہے تھے، ان کی دعوت میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی، مگر اس کے باوجود بھی خفیہ ایجنسیاں ان کی تقاریر میں تشدد کا عنصر تلاش کر رہی ہیں، خفیہ ایجنسیوں کو ابھی تک ان کے خلاف دہشت گردی کا کوئی بھی ثبوت نہیں مل سکا ہے، مگر اس کے باوجود بھی میڈیا، حکومت، مختلف زبانوں کے اخبارات ان کو دہشت گرد کہنے سے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے، عالمِ اسلام کو یہ بات سمجھ لینی ہوگی کہ جب دنیا میں گانے بجانے کے ذرائع، سنیما تھیٹر، مغربی تہذیب پر مبنی ادارے، مخلوط اداروں کی کثرت اور دین بیزاری کی زمینیں تیار کی جا رہی تھیں تو ایسے وقت میں تنِِ تنہا ڈاکٹر ذاکر نائک تمام لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دے رہے تھے، ان کی دعوت کا مقصد تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے، اسلام امن کا مذہب ہے، دنیا و آخرت کی کامیابی صرف اور صرف مذہبِ اسلام میں ہے، مگر دنیائے کفر کو ڈاکٹر ذاکر نائک دہشت گرد لگے، یہ کوئی نئی بات بھی نہیں تھی، کیوں کہ کفار و مشرکین کی اصل دشمنی اسلام پسندوں سے ہے، کفار و مشرکین کی آنکھوں میں اسلام ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے، مگر میرا یقین ہے کہ کفار و مشرکین کو اسلام کے مقابلے میں ہر محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قارئینِ کرام ! ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں اس نے ہماری قدم قدم پر رہنمائی کی ہے، ہماری کامیابی کے لئے اسلام نے ابدی اصول بتائے ہیں، اگر آج کفار و مشرکین غالب نظر آتے دکھائی دے رہے ہیں تو اس میں ہماری کمزوری ہے، کیوں کہ ہم نے نہ تو کبھی باطل کو باطل سمجھا اور نہ ہی سازشیوں کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے کبھی منصوبہ بندی کی، تاریخ بتاتی ہے کہ ہم کبھی مخالف کی اکثریت کا رونا رونے والی قوم نہیں ہیں، ہم ہمیشہ تهوڑے کی تعداد میں تھے اور رہیں گے، بس جس دن ہم منظم ہوۓ، دشمنوں کے سامنے معذرت یا مدافعانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے ردِ عمل کا رویّہ اختیار کیا اسی دن سے ہماری کامیابی کا دن شروع ہوجائے گا، ڈاکٹر ذاکر نائک کے سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کو آگے آنا ہوگا، ان کی حمایت کر کے اسلامی اخوّت کا ثبوت دینا ہوگا، تعداد کی قلّت کا خوف ختم کرنا ہوگا، دشمنوں کے خلاف میدانِ جنگ چاہے وہ کسی محاذ پر ہو لڑنی ہوگی، ڈاکٹر ذاکر نائک کا ایک ہی مشن ہے یعنی "گھر گھر اسلام”، جس کے لئے وہ علمائے کرام کی جماعت کے ساتھ اپنے مشن پر عمل پیرا تھے، میں آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ 25 کروڑ ہندوستانی مسلمان اور خاص کر معزّز دینی شخصیات ڈاکٹر ذاکر نائک کو جمہوریت، حکومت، اسلام دشمن میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے بھروسے میدان میں تنہا و اکیلا نہیں چھوڑ سکتیں، اس لئے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو نہ تو تنہا چھوڑتا ہے اور نہ ہی کفار کے حوالے کرتا ہے.

تبصرے بند ہیں۔