مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور اقامت دین

شہباز رشید بھورو

اقامت دین ایک ایسا نظریہ ہے جس نے امت مسلمہ کے فکری طور پر منتشر و مضطرب اور عملی طور پر منجمد طبقات کو  صحیح رخ و سمت، فکری اعتماد و یکسوئی اور عملی تحریک و تحرک فراہم کیا۔ انیسویں و بیسویں صدی میں سامراجیت کی کشتی پر سوار ہو کر جو متعدد بظاہر خوبصورت لیکن بباطن تاریک تر نظریات دنیا کے کونے کونے میں خصوصاً مسلم دنیا میں پھیلائے گئے، انہوں نے ہماری بے دین عوام کو سرعت کے ساتھ اپنی لپیٹ میں بغیر کسی مشقت کے لےلیا اور ساتھ ساتھ ہمارے دینی مزاج کے حامل لوگوں کو بہت سی پریشانیوں اور الجھنوں میں الجھائے رکھا۔ جنہوں نے اپنی دینی ساخت اور اپنی عوام کے ایمان کو بچانے کے لئے ردعمل کے طور پر بہت کچھ کیا جن کا عند اللہ انہیں اجر ملے گا۔ لیکن یہ ردعمل ایک افرا تفری کے ماحول میں ان کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جس میں نقائص کا موجود ہونا فطری بات ہے۔ اس جوابی عمل میں کچھ ایسی باتیں بھی زبان وقلم کی نوک سے وارد ہوئیں اور کچھ ایسے افعال بھی ان کی طرف سے سرزد ہوئے جو مرض کا صحیح علاج کے طور پر  کارگر ثابت نہ ہو پائے۔ اس نازک صورتحال میں ہمارے ہر ملّی طبقہ سے صدائے احتجاج بلند ہوئی اور ہر طبقہ نے اپنی مخصوص  حکمت عملی کے تحت کام کیا۔ کچھ لوگوں نے تو اسلام کو مغربی افکار کے موافق بنانے کے لئے جمہور علماء کی نہج سے ہٹ کر ایک علیحدہ راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں انہیں علمائے امت کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کچھ حضرات نے اسلامی عقائد و نظریات کو علمی قلعوں میں محصور کرکے حفاظت کا بندو بست کیا اور کچھ حضرات نے انفرادی طور پر ان مغربی افکار و نظریات کے ساتھ جو مسیحی تعلیمات کے جراثیم بھی سفر طے کر کے مسلم ممالک میں اپنی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں تھے ان کا زور دار مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کی کاوشوں کو قبول فرمائے آمین۔

ان ساری کوششوں کے باوجود بھی مسلم دنیا مغربی تہذیب کے نقوش پر برابر چلتی جارہی تھی  اور ہر طرف ہر معاملے میں مغرب کی نقالی ہو رہی تھی۔ امت کے پاس جو کچھ مقابلہ و تنافس کے لئے ہتھیار تھا وہ بلا شک و شبہ کافی تھا لیکن اس ہتھیار کو لے کر میدان میں اتر کر چلانے والے بہت کم تھے۔ پہلے سے موجود مواد سے نیا قابل مقابلہ ہتھیار تیار کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی لیکن جدید فلسفے کے علوم سے لیث اور اپنے اسلامی علوم میں مہارت رکھنے والے مرکب ماہرین کا فقدان تھا۔ مغرب میں تو ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے علمی آتش فشاں پھٹ چکا تھا جس کے اثرات اس مادی دنیا میں ہر طرف دیکھے جارہے تھے۔ مغرب اپنی اس بیداری پر کافی فخر محسوس کر رہا تھا اور بات بھی سچی تھی کہ ایک وہ قوم جو اپنے آپ کو برملا تاریک دور(dark age)میں ایک عرصہ دراز کاٹنے کا اظہار کرتی ہے اس کی لئے علمی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر انقلابات کا  قابل فخر ہونا ایک لازمی بات تھی۔ ان کا یہ احساسِ تفاخر انہیں ایک سیلِ رواں کی مانند پوری دنیا پر چھا جانے کی تحریک فراہم کر رہا تھا۔ علمائے امت اس سیلاب کے راستے میں بند بنانے میں لگے تھے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن یہ بند زیادہ تر خاص دریا کے مقابلے میں ندی نالوں کے راستے میں بنائے جا رہے تھے۔ مغرب کی طرف سے آنے والے تمام ازم وہاں کے سیاسی نظریات کے پرند کے پر کے توسط سے پھیل رہے تھے مثلاً بر صغیر میں عیسائیت  بڑے پیمانے پر برطانیہ کے سامراجی دور میں داخل ہوئی اگر چہ اس سے پہلے بھی کاوشیں ہوئی ہوں گی لیکن بہت کم۔ میرے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ یہ اصلاً مغربی سیاسی نظریات کا جسم تھا جس پر دیگر ملحدانہ افکار و نظریات سوار ہو کر سواری کر رہے تھے۔ ان کے سیاسی نظریات کا ہی اصلی دریا تھا جس پر بند لگانا گیٹ وے (gate way) کے قفل پر چابی لگانے کے مترادف تھا۔ یہ ایک پیچیدہ صورتحال تھی علمائے کرام بہت پریشان تھے کہ فوری طور پر کیا کیا جائے۔ پیچیدہ صورتحال کی پیچیدگی میں مزید یہ اضافہ ہو رہا تھا کہ علمائے امت تب تک مغرب کا مقابلہ کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ انہوں نے مغرب کے افکار و نظریات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ نہ لیا ہو۔ مغربی افکار خالص انگریزی زبان میں موجود تھے اور نئی نسل کو نئے مغربی طرز کی دانشگاہوں میں انگریزی پڑھائی جانے لگی جس کا نتیجہ نئی نسل میں مغربی تہذیب کی پذیرائی دیکھنے کو ملنے لگی۔

اس صورتحال میں علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کا گہرائی سے جائزہ لے کر اس کو کھوکھلا ثابت کیا اور امت مسلمہ کی نئی نسل میں اپنے دین کی عظمت کا صور پھونکا۔

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار

اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسی شخصیت بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے جس نے مغرب کے تمام سیاسی افکار کو کھوکھلا ثابت کرکے اسلام کے سیاسی نظریہ کو دنیا کے تمام مسائل کے لیے حل کے طور پر پیش کیا۔ وہ شخصیت ہے علامہ سید ابوالاعلی مودودیؒ کی، جنہوں نے مغربی افکار و نظریات کے پرندے کےجسم کو زخمی کرکے اس کے پر کاٹ دئیے اور اس کو اڑان کے قابل نہ رکھا۔ اس کے بدلے اسلام کا مستقل ایک سیاسی، معاشی و معاشرتی نظریہ اقامت دین کی صورت میں پیش کیا۔ انہوں نے ان تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات مدلل اور معقول انداز میں دیے جو مغرب کے مقابلے کھڑے کئے جانے والے اسلامی نظام کے متعلق اٹھائے جا رہے تھے، انہوں نے دور جدید میں ایک اسلامی ریاست کے عملی قیام کا پورا طریقہ کار سامنے رکھا اورجدید اسلامی ریاست کے پورے خدوخال کا مدلل اور تواضح نقشہ عالم انسانیت کے سامنے رکھ دیا۔ ان کے نظریات کے ساتھ اختلاف کی گنجائش ضرور ہے کیونکہ پوری اسلامی تاریخ میں اس سے کوئی بھی عالم  دین مبرا نہیں رہا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن وحدیث پر مبنی وسیع تحریکی تحریری ادب میں سے مغرب کے ہر قسم کے علمی مرض کا مداوا کرنے کی کوشش کی۔ اسی نظریہ نے مغربی نظریات کی لہروں کی اٹھان اور جوش کو اپنی قوت ناخدائی سے بے اثر کر دیا، مغربی تفاخر کو توڑ ڈالا، مغربی اصطلاحات کی خوبصورتی کو نحس ثابت کیا اور مغرب کی دانشگاہوں میں ایک عظیم ہلچل پیدا کر دی۔ یہ نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے جسے سید مودودیؒ نے پیش کیا بلکہ اس نظریہ کو انھوں نے امت کی طرف سے نظر انداز کئے گئے لیٹریچر سے نکال کر از سر نو امت کو اپنے اس قیمتی ورثہ سے متعارف کیا جس سے امت ایک عرصہ دراز سے تغافل برت رہی تھی۔ جس کے نتیجے میں نئ نسل کے لئے اقامت دین ایک ایسا نظریہ بن گیا جو مسلمانوں کو زندگی کے ہر فیلڈ میں اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے یہ واضح کیا کہ دور جدید میں قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق کس طرح  ایک مثالی جدید اسلامی ریاست تشکیل دی جاسکتی ہے اور کامیاب طریقے سے چلائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے ایک معروف قانون دان اے۔ کے۔ بروہی (A.K .Brohi)نے چیلنج کیا کہ اگر مجھے کوئی یہ ثابت کر کے دے کہ قرآن کا اپنا ایک دستور اور آئین ہے میں اسے پانچ ہزار انعام دوں گا مولانا مودودیؒ نے اس کا جواب دیا جس کا اثر اے۔ کے۔ بروہی صاحب پر کیا ہوا وہ ان کی زبانی سنئے”حضرات میں ایک بیرونی تعلیم یافتہ قانون دان ہوں میں نے قانون کے مضامین کو اس کے جڑوں سے سمجھا ہے۔ میں نے سید مودودیؒ کا بیان سنا تھا کہ قرآن کو اسلامی دستور کا حصہ بنایا جانا چاہئے۔ میں نے اعلان کیا کہ کوئی قرآن کو قانون کی کتاب ثابت تو کر دے میں اسے پانچ ہزار انعام دوں گا۔ غلام ملک صاحب نے سید کی تحریروں کے ذریعے مجھ پر یہ بات عیاں کردی کہ دراصل قرآن ہی رہتی دنیا تک قانون کی کتاب ہے۔ اے کے بروہی آبدیدہ ہو کر کہنے لگے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ مجھ سے ہوچھے گا کیا نیک عمل ساتھ لائے میں کہوں گا سید مودودی کی رفاقت۔ "اصل میں مجھے یہ کہنا ہے کہ علامہ مودودیؒ نے مغرب سے امنڈتے ہوئے نظریات و افکار کا جس انداز سے مقابلہ کیا وہ انداز نادر اور دلکش تھا، جس نے جدید تعلیم یافتہ ذہنوں کا رخ ہی موڑ دیا اور انہیں دائمی رسوائی سے نجات دینے کا نسخہ کیمیا عطا کیا۔ اسی لئے فیض احمد فیض کو یہ کہنا پڑا کہ اگر مولانا مودودیؒ نہ ہوتے تو انھیں پاکستان کو کیمونسٹ اسٹیٹ بنانے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ علامہ مودودی نے کہا کہ میرا عمر بھر کا مطالعہ مجھے بتاتا ہے کہ دنیا میں کبھی وہ طاقتیں زندہ نہیں رہ سکتیں جنہوں نے قلعوں میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ میں ان کے اس قول کو اس طرح سمجھ سکا ہوں کہ اگر اسلامی نظام  کو صرف مدرسہ ، مسجد یا خانقاہوں کی چاردیواری کے اندر محصور کیا گیا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم آج کے معاشرے میں اذکار رفتہ سمجھے جائیں گے۔ اس لئے اس اسلامی نظام کو مساجد، مدارس اور خانقاہوں سے نکال کر معاشرے کے ہر حصے میں نافذ کیا جانا چاہئے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس قوم کے پاس سیادت و قیادت ہے اسی کی اخلاقیات بھی معاشرے میں حکمرانی کرتی ہیں یا جس قوم کی تلوار میدان جنگ میں برتر ہے اس کے اخلاق خود بخود معاشرے میں نفوذ کرتے ہیں۔ جس کی مثال آج کا مغرب ہے مسلمانوں کی اکثریت مغرب کا طرز معاشرت اختیار کر چکی ہے۔ اس نظریہ کی ضرورت اور اہمیت اس قدر تھی کہ برصغیر کے جید علماء اس کی طرف لپکے اور اس نظریہ کی بنیاد پر جو ایک جماعت تشکیل دی گئی  اس میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد بہت سارے علماء کا مولانا مودودی سے اختلاف ہوا اور وہ کنارہ کش ہو گئے، وہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کا اقامت دین کے تصور پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اقامت دین کی اہمیت اپنی جگہ برقرار اور نا قابل انکار ہے۔ علامہ مودودیؒ نے اقامت دین کے تصور کو ایک منظم شکل میں پیش کیا اور اپنی پوری جدو جہد کو اسی نظریہ کی ترویج کے لئے وقف کی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتب میں جابجا اقامت دین کی بات کرتے ہیں ، ڈاکٹر اسرار احمد نے تو اسی اقامت دین کے لئے اپنی تنظیم اسلامی قائم کی اور مولانا امین احسن اصلاحی بھی اقامت دین کے علمبردار رہے۔ غرضیکہ امت مسلمہ کے جید، وسیع المطالعہ اور وسیع ذہن علماء تو اقامت دین کی اشاعت و ترویج کے لئے پہلے بھی کو شاں تھے اور آج بھی کوشاں ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہماری اکثریت اس کو سمجھ نہیں پا رہی ہے کچھ تو دین کا مقصد صرف مدارس قائم کرنے کو سمجھتے ہیں، کچھ صرف ایک مسجد سے نکل کر دوسری مسجد میں جا کر صرف ایک ہی قسم کا واعظ پڑھنے کو مقصد سمجھ بیٹھے ہیں، کچھ نے تو صرف رفع الیدین وغیرہ جیسے امور پر بات کرنا دین کا مقصد سمجھا ہے ، کچھ نے مساجد میں نماز کے بعد بلند آواز سے تسبیح پڑھنے کو دین کا مقصد سمجھا ہے، کچھ نے تو صرف مسجد میں آکر پہلی صف میں بیٹھنے اور مساجد کی تعمیر کو دین کا مقصد سمجھاہے، آجکل تو چند نام نہاد علماء نے مناظرہ بازی کو ہی دین کی خدمت سمجھ کے رکھاہے اور کچھ حضرات نے صرف منبروں پہ بیٹھ کر ولولہ انگیز وعظ کرنے کو دین کا مقصد سمجھا ہے۔ ان تمام حضرات کے پیچھے نیت کا اصل رجحان کیا ہے اس پر تو میں بات نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور ہے یہ لوگ اصل دین سے کوسوں دور رہ کر خود کو بھی اور عوام کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔

اقامت دین کا انقلابی تصور مغربی تہذیب کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ ہے جس نے مغربی افکار کے انقلابی پھیلاؤ کو ایک چیلنج دے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو اس فکر کے حاملین سے خطرہ ہے۔ اقامت دین امت کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر اگر جانفشانی سے کام کیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ اسلام پوری دنیا پر چھا جائے گا۔ نظریہ اقامت دین اپنے کارکنان سے عمل پیہم کا مطالبہ کرتا ہے، ان سے سستی اور کاہلی کے لباس اتارنے کا مطالبہ کرتا ہے اور ان سے اپنی آبیاری کے لئے جان اور مال کی قربانی مانگتا ہے۔ اقامت دین محض منبر و محراب پر جھاڑا جانے والا واعظ نہیں بلکہ اس کی فطرت میں اسے عمل کے میدان میں عملی شہسوار درکار ہیں۔ مغرب کی سیاسی ازم نے اپنے پھیلاو کے لیے خون کی ندیاں بہائیں فاسزم، نازازم، کمیونیزم اور دیگر ازموں نے اپنے ماننے والوں سے عوام کی وہ درگت کروائی کہ تاریخ شرم سے خود جھک جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اقامت دین کے حاملین نے اخلاق کا وہ معیار پیش کیا کہ انسانیت فخر کرتی ہے۔ اقامت دین کے حاملین کو انگاروں پر لٹایا گیا، گلی کوچوں میں بے عزت کیا گیا، گھر سے بے گھر کیا گیا اور ان کوبآخر کار جلاوطن کر کے رکھ دیا۔ اس تمام ظلم وستم کے باوجود جو اخلاقی معیار انہوں نے اپنے دور رفعت میں پیش کیا اس کی نظیر پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ماشاءاللہ۔بہترین مضمون ہے۔جزاکم اللہ خیر

تبصرے بند ہیں۔