اسلامو فوبیا: حقیقت کے آئینہ میں

عبدالکریم ندوی گنگولی

اس وقت پوری دنیا میں عمومی طور پر اور مغربی ملکوں یوروپ وامریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدیدسے شدیدتر ہوتی جارہی ہے، مسلمانوں کے ساتھ ناروا، بیجااور امتیازی سلوک نیز اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس شخصیات ومقامات کی توہین اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے واقعات اب مغرب میں آئے دن کے معمول بنتے جارہے ہیں، اور اسلامو فوبیا مغرب میں کوئی نیا رجحان نہیں ہے، یہ ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے، تاہم ۱۱؍۹ کا واقعہ کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے، اور اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، اس سے مراد اسلام، مسلمانوں یا اسلامی تہذیب سے نفرت یا خوف پیدا کرنا ہے، اسلامو فوبیا کا شکا ر شخص اس واہمہ کا اسیر ہوجاتاہے کہ تمام مسلمان یا بیشتر مسلمان مذہبی جنون کی وجہ سے غیر مسلموں کے تئیں جارحانہ رویہ رکھتے ہیں، اور یقین رکھتے ہیں کہ اسلام رواداری، مساوات اورجمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے، اسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاتاہے، برطانیہ کے ایک ادارہ runnymadeنے ۱۹۹۷ ؁ء میں ایک دستاویز’’ islamophobia:a challeng for us all‘‘اسلاموفوبیا، ہم سبھوں کے لئے ایک چیلنج کے عنوان سے جاری کیا تھا، جس میں اسلاموفوبیاکی تعریف متعین کرتے ہوئے اس کے آٹھ نکات بتائے گئے تھے، اور اس تعریف کی آج وسیع پیمانے پر بشمول’’ european monitorang centre on racism and xenophobia‘‘ تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس نے ۲۰۰۴ میں ایک فالو اپ رپورٹ بعنوان ’’اسلامو فوبیا ایشوز، چیلنجس اور ایکشن ‘‘شائع کیا، اس تعریف کے جوآٹھ اجزاء ہیں وہ درجِ ذیل ہیں (۱)اسلام کو وہ ایک موحد، جامد اور تبدیلی مخالف مذہب تصور کرتے ہیں (۲)اسلام کو ایک علیحدہ اور منفرد مذہب سمجھتے ہیں جس میں مشترک تہذیبی قدریں نہیں ہیں، جس میں دوسروں کے اثرات قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے(۳)اسلام’’ تہذیبوں کے تصادم‘‘کے نظریہ پر عمل پیرا ہے، جو پر تشدد، جارہانہ، اور دہشت گردی کو شہ دیتا ہے، (۴)اسلام کو مغرب کے مقابلہ میں کمتر تصور کرتے ہیں، اسے غیر عقلی، جاہلانہ اور شہوت زدہ گردانتے ہیں (۵)اسلام کو ایک سیاسی نظریہ تصور کرتے ہیں، جو سیاسی یا فوجی فائدے کیلئے استعمال کیا جاتاہے(۶)اسلام پر مغرب کی تنقید کو بغیر کسی حجت کے مسترد کردیاجاتاہے(۷)اسلام کے خلاف معاندانہ ومخاصمانہ رویہ کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں معاشرہ سے الگ تھلگ رکھنے کے لئے بطور ِجواز استعمال کیا جاتاہے(۸)مسلمانوں کے خلاف مخاصمت کو قدرتی یا معمول کا رد عمل قرار دیا جاتا ہے، علاوہ ازیں اس اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور حقیقی مسائل کا احاطہ مبسوط انداز میں کیا گیاہے۔

 اسلامو فوبیا کے مختلف مراحل کی توضیح پیش کرتے ہوئے، او، آئی، سی (o.i.c)کے سربراہ احسان اوغلو کہتے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں اظہارِ خیال کی آزادی کابہانہ کر اسلام اور مسلمانوں پر حملے کئے گئے، اور یہ حملے حضرت محمد ﷺکے تضحیک آمیز خاکوں کی شکل میں کئے گئے، جیسا کہ مغر بی میڈیا میں آئے دن توہین آمیز کارٹون شائع ہوتے ہیں، علاوہ ازیں اسلام کا مذاق اڑانے والے، اس پر رکیک حملے کرنے والے نام نہاد ادیبوں کی پذیرائی، اور انہیں انعامات واکرامات عطا کرکے’’سر‘‘کا خطاب سے سرفراز کرنامغربی ملکوں کی حکومتوں کا محبوب مشغلہ ہے، اس سلسلہ میں سلمان رشدی سے لے کر تسلیمہ نسرین تک کے کتنے ہی نام گنائے جاسکتے ہیں، اسلام کے برخلاف حضرت عیسی ؑکی شان میں گستاخی کرنا یوروپ میں قانوناً جرم ہے۔اسی طرح میڈیا بھی اسلامو فوبیا کوشہ دینے میں اپنا رول ادا کرہا ہے، ۱۱؍۹ کے بعد تو ایک کہرام مچاہے، جو مسلمانوں کو بنیاد پرست، جنونی، انتہا پسند، دہشت گرد اوروحشی کے طور پر پیش کرتا ہے، اس کے علاوہ اپنے ملک ہندوستان میں اسلاموفوبیا مہم والی جماعت نے تو صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو بھی چلایا ہے، ان میں سے ایک ایسی شاخ ہے جس نے دہشت گردی کے بھی دائرے کو پار کردیا ہے، جس کی مثال گجرات میں ملتی ہے، اورپچھلے دس سال میں ملک کے کئی حصوں میں بم بلاسٹ سے نہ کہ صرف مسلمانوں کو مارا بلکہ درجنوں لوگوں کوجیلوں میں بھیج دیا گیاہے، اسلاموفوبیاکے تحت ہمارے ملک میں مسلم مخالف تشدداوردہشت گردی کی گئی، مساجد اور مزاروں کو نشانہ بنایاگیا، خواتین کی عزتیں لوٹیں گئی، اور ان کے گھروں کو بھی جلایا گیا، جس کی واضح مثال گجرات کا حیرت انگیز حادثہ اورآسام وبرماکے خون آشام مناظر ہمارے سامنے ہیں، اسلاموفوبیاہی کے تحت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاہے، اس کی مثال ضلع بلاک سے لے کر مرکزی حکومت تک دیکھا جاسکتا ہے، اور مختلف حلقوں میں ہوائی اڈے، عدالت، پولس تھانے، ڈاک خانے، اسکول، کالج، کارپوریشن، اسپتال اور n.g.o وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے، اس طرح اسلاموفوبیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد اسلام کی رسوائی کرنا ہے، اورمسلمانوں کو ذلت وپستی کے کنویں میں پھینک دینا ہے، اور عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو مسلم مخالف مہم اور عمل کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے، واضح طورپرنقصان مسلمانوں کا ہی ہورہا ہے لیکن بنیادی سطح پر اس کے حمایتی خود بھی خسارہ میں ہیں، اسلاموفوبیا محض اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کا نام نہیں یا یہ صرف ان کی مخالفت میں تشدد اور غیر مناسب اشتہار بھی نہیں ہے بلکہ اسلاموفوبیا کا مقصدمسلمان فرد، قوم، اسلام اور اس کی تہذیب کو مختلف حلقوں میں پست کرنا ہے، اور ان میں معمولی طاقت ابھرنے سے بھی محروم کرنا ہے، اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جو امریکہ اور یوروپ کے بیشتر ممالک میں روزبروزبرق رفتاری سے پھیل رہی ہے چونکہ یہ ہماری شک، وہم اور مسلمانوں کے تئیں ایک مخصوص منفی سوچ کا نتیجہ ہے اس لئے یہ لاعلاج ہوچکی ہے۔

 اسلاموفوبیاکے تحت سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، علمی، اورمذہبی ہر اعتبارسے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف زہر اگلاجارہاہے، اسی لئے تمام سیاسی حالات، بحران، تشددوتعصب، انسانی حقوق کی پامالی، قتل و غارت گری وغیرہ اسلامو فوبیا کی عکاسی کرتے ہیں، اور اسی کے تحت گزشتہ زمانے میں یوروپ کے کئی خطوں سے ترکوں کو ہٹایا گیا، انہیں ختم بھی کیا گیا، انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران پانچ ملین سے زیادہ ترکوں کو بلقان سے بھگایاگیا اور اس سے بھی زیادہ مارے گئے، ترکوں کے خلاف روس، یونان، بلغراد، فرانس، انگلستان، سرب اور امینین جن گاور سازشیں تواریخ میں موجود ہیں، جنوبی اور شمالی یوروپ میں مسلمانوں کی تعداد کو کم اور ان کی تہذیبی اور ثقافتی عمارتوں کو کمزور اور منہدم کرنا بھی اسی سوچ کا نتیجہ ہے، آج بھی یونان کے مغربی صوبہ thraceکے علاقے میں مسلمانوں کی حالت خراب ہے، ۱۹۸۴ میں بلغراد کے خلاف حکومت نے بڑے پیمانے پر نفرت اور تعصب کا شکا ر بنایاتھا، غرض چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی آج بھی جاری وساری ہیں۔

 امریکہ نے حکمرانوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر پڑوسی ملکوں کو آپسی جنگ میں ملوث کردیا، جس سے اسلاموفوبیاکے تحت سیاست کو فروغ دیا گیا، مغربی ایشیاکے دو بڑے اور مضبوط ممالک ایران اور عراق کمزور ہوئے، اس کے بعد کویت کے معاملے پر عراق کو نشانہ بنایاگیا، اور بعد میں خطرناک اسلحہ کے ذریعہ سے عراق کو تباہ وبرباد کیا گیا، اور تباہی کے ساتھ اسلاموفوبیا کے تحت مسلکی تصادم کو بھی فروغ دیا گیا، اور اسلام مخالف طاقتوں نے دہشت گرد تنظموں کو کھڑا کیا، اور خوب امداد دے کر ملک تشدد، بد امنی اور لاقانونیت کے جنگل میں پہنچادیا، عراق پر حملے کے بعد شیعہ فرقہ کو ترجیح دے کر سنیوں کے خلاف تشدد پرآمادہ کیا، اور سنی فرقہ کوترجیح دے کر شیعہ تنظیموں کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے، لیکن اس تمام بازی گری سے عراق کو ایک ملک کی سطح پر، عراقیوں کو قوم کی سطح پر اتنا دبا دیا گیاہے کہ شاید اب متحد نہ ہوپائیں گے۔

  اسلاموفوبیا کا مقصد ذہنی طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے، گوانتاناموبے اور ابو غریب کی جیل خانوں میں مسلمانوں کو جس طرح سے ذہنی ذلت کا شکا ربنایا گیاہے، اس کی مثال مغرب میں ہی ملتی ہے، اس کے علاوہ قرآن پاک اور مساجد کو بھی نہیں چھوڑا گیا، اسی طرح یوروپ میں اسلام مخالف فلمیں بنائی گئیں، اور ان لوگوں کو اونچا مرتبہ دیا گیا جنہوں نے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی، فرانس صدر نکولس سرکوزی نے اپنے دورِصدارت میں داخلی سلامتی کے نام پر مسلم خواتین کے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانکنے(نقاب)کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دیا، یہی وہ سر کوزی تھا جو یوروپ میں اسلاموفوبیا کی سب سے بڑی علامت کے طور پر ابھرا تھا، جس کے اقدامات سے شہ پاکر کئی یوروپی ملکوں جیسے ہالینڈ اور بلجیم وغیرہ نے بھی یہ پابندی عائد کردی تھی، اور جس پابندی کے ہٹانے پر احتجاجات کئے گئے، لیکن شیطانی چال بازیوں اور اس کے مکر فریبیوں کے دلدادہ انسانوں پر کیا اثر ہوسکتا ہے جو حیوانیت کے سردار اور گناہوں کے سرچشمہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔