قول لَیِّن (نرم گفتگو) کی اہمیت کو سمجھنا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

جب تک مسلم معاشرے سے عملی طور پر برائیوں کے خاتمہ کے لیے ہر مسلمان عزم مصمم نہ کرلے اس وقت تک اصلاح معاشرہ کی کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی چونکہ مسلم معاشرے سے برائیوں کے خاتمہ کے لیے قول سے زیادہ عملی جد وجہد کی ضرورت ہے۔ بعثْت مصطفی ﷺ کے اہم مقاصد میں سے ایک اہم مقصد مکارم اخلاق کی تعلیم و تکمیل بھی ہے جس کا اہم حصہ زبان کی حفاظت ہے۔ سیدنا سہل بن سعدؓ سے روی ہے حبیب دائورﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’ جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرم گاہ) کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ‘‘۔ (بخاری شریف)۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کی حفاظت جنت میں اور بدزبانی جہنم میں لے جانے والا عمل ہے اگر کسی بندے کے اعتقادات درست ہوں، عبادات میں کثرت ہو، معاملات میں شفافیت ہو لیکن اس وہ بدزبان ہو تو اس کی یہ بدگوئی ان تمام اعمال صالحہ کی بربادی کا سبب بن سکتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ مرقع ہرخوبی و زیبائیﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم فحاشی اور فحش گوئی کرنے سے بچو کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی فحاشی اور فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے‘‘۔ (مستدرک للحاکم، مسند احمد، صحیح ابن حبان)

لیکن صد حیف کہ آج لوگ مذہبی لبادے اوڑھ کر ممبر رسول ﷺ کا بیجا استعمال کررہے ہیں اور اپنے نقطہ نظر کو نقلی و عقلی دلائل و براہین کی روشنی میں ثابت کرنے کے بجائے ایمان اور عقیدہ کے تحفظ کی آڑ میں اپنے مخالفین کے حق میں ایسے ایسے مغلظات، نازیبا الفاظ، افترا اور الزام تراشیوں کا ایسا بے دریغ استعمال کررہے ہیں جو تعلیمات اسلامی کے بالکل مغائر ہے۔ چو نکہ قرآن مجید مباحثہ میں بھی فریق مخالف پر سختی کرنے کے بجائے نرمی سے دلائل پیش کرنے کا حکم فرماتا ہے۔ خالق کونین نے اپنے جلیل القدر انبیاء کرام حضرات سیدنا موسیٰؑ و سیدنا ھارونؑ کو جابر و ظالم فرعون سے موثر ملاقات کا طریقہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ فرعون سے انتہائی نرم اور ملائم انداز سے گفتگو کرنا شاید وہ دعوت دین کو قبول کرلے یا خوف خدا وندی کے باعث سر تسلیم خم کردے۔ (سورۃ طہ آیت 44)

کیا یہ کوئی دعویٰ کرسکتا ہے کہ ہم لوگ حضرات سیدنا موسیؑ و ھارونؑ سے زیادہ تبلیغ اسلام کا کام انجام دے رہے ہیں یا ہمارے مخالفین کا کردار الوہیت کے مدعی اور جابر فرعون سے زیادہ مسخ ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم ایمان و عقیدے کا سہارا لیتے ہوئے مخالفین کے خلاف نازیبا الفاظ و القابات کا استعمال کریں۔ محولہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر میں علماء اعلام رقمطراز ہیں کہ اللہ تعالی نے جب نرم گفتگو کا حکم فرمایا تو حضرت سیدنا موسیٰؑ نے فرعون سے ایسے مخاطب ہوئے جیسے کوئی دوست سے بات کررہا ہو ترجمہ:’’کیا تیری خواہش ہے کہ تو پاک ہوجائے اور (کیا تو چاہتا ہے کہ ) میں تیری رہبری کروں تیرے رب کی طرف تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے‘‘ (سورۃٖ النازعات آیات 18-19)

خالق کونین الوہیت کا دعوی کرنے والے، انسانوں کو مختلف طبقات میں باٹنے والے، کمزوروں پر حد سے زیادہ ظلم کرنے والے، سرمستیوں میں غرق رہنے والے، سرکش فرعون سے بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم فرمارہا ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں نرم خوئی کی کیا اہمیت ہے ! ییحی بن معاذ رازیؒ نے کہا جو شخص خدائی کا دعوی کرتا ہو اس کے ساتھ اللہ تعالی کی نرمی کی یہ شان ہے تو جو شخص اللہ تعالی کو خدامانتا ہو اس کے ساتھ اللہ تعالی کی نرمی کا کیا حال ہوگا! مذکورہ بالا آیت پاک سے واضح ہوتا ہے کہ داعی اسلام کے لیے یہ امر انتہائی نامناسب ہے کہ وہ دلائل سے بات کرنے کے بجائے سخت کلامی اور بدکلامی پر اتر آئے۔ قرآن مجید کی اس ہدایت میں راہ خدا کے تمام رہبروں کے لیے ایک سبق ہے۔ افسوس صدہزار افسوس کہ یہ کس قدر بدبختی کی بات ہے کہ لوگ علماء کا لبادے اوڑھ کر ممبر رسولﷺ سے ایسے نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں جسے سننے کے بعد ایک عام انسان کو بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح کا کلچر اس لیے رائج ہورہا ہے چونکہ نہایت مذموم عمل یعنی بدزبانی کی قباحت ہمارے دلوں سے نکل چکی ہے۔ جبکہ دین اسلام نے ایسی گفتگو کرنے کو منافق کی علامت قرار دیا ہے اور اسی لیے مومنین کو زبان کی حفاظت کرنے کا بطور خاص حکم فرمایا ہے اس کے باوجود ہم بڑی بے باکی اور جرات کے ساتھ بدکلامی کررہے ہیں۔ یہ فحش کلامی اور بے ہودہ گوئیاں صرف اور صرف مسلکی اختلافات کی بنیاد پر ہورہی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان نفرتیں، دوریاں، دشمنیاں پیدا ہورہی ہیں۔

طرفہ تماشہ یہ کہ سامعین بھی دلجمعی کے ساتھ ان نازیبا الفاظ کو غور سے سنتے ہیں اور اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتے۔ اس طرح کے نقصانات سے غفلت برتنا دین و دنیا کی تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے چونکہ بدزبانی انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔ چونکہ سامعین بھی خاموشی اختیار کرکے ان کی ایک طرح سے مدد و نصرت کرتے ہیں لہٰذا وہ بھی اس گناہ کے برابر کے شریک متصورہوں گے اور ان سے بھی اس بابت کل میدان حشر میں بازپرس ہوگی۔ بری گفتگو انسان کو بدکردار اور بد اخلاق بنادیتی ہے اسی لیے دین اسلام میں مخالفین کے خلاف بھی زبان درازی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اسلام نے بد کلامی کرنا تو درکنار اگر کوئی بدکلامی کرے تو اس کے جواب میں بھی فحش گوئی سے منع فرمایا بلکہ خاموش رہنے کی تعلیم فرمائی۔ اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کے اوصاف جلیلہ اور اخلاق عالیہ میں ایک سے صفت ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ترجمہ: ’’ اور جب گفتگو کرتے ہیں ان سیجاہل تو وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ تم سلامت رہو‘‘ (سورۃ الفرقان آیت 63)۔

یعنی اگر ان مبارک ہستیوں سے کوئی بدزبانی کرتا ہے تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے بلکہ ان لوگوں سے احسن طریقہ سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ جب مقرر دوران تقریر غلطی کرے تو بحیثیت خیر امت ہم تمام سامعین کی مذہبی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ہم ایسے مقررین کی احسن طریقہ سے اصلاح کریں یا انتہائی بردباری کے ساتھ ایسے مقررین سے کنارہ کش ہوجائیں۔ اسی طرح سوشیل میڈیا، جیسے فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام وغیرہ پر بھی مسلمان مخالفین کو ٹرول (تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانا) کرتے ہوئے دل آزار جملے استعمال کررہے ہیں جو کسی بھی طرح مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس طرح کے عمل سے مخالف کی بے عزتی تو نہیں ہوتی البتہ ہماری بدتمیزی، بد تہذیبی اور ہمارا کردار دنیا کے سامنے ضرور واضح ہوجاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک غیر مسلم خاتون کا ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہوا۔ اس خاتون نے اسلام اور مسلمانوں پر غیر ضروری اعتراـضات کیے۔ اس کے بعد مسلم نوجوانوں کی طرف سے اس خاتون کو جو ٹرول کیا گیا اور حسن اخلاق، ادب، صبر و بردباری، عفو و درگزری، رحمت و رافت، احترام انسانیت، اسلامی تہذیب اور انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر نازیبا الفاظ اور فحش گوئی کا جو استعمال کیا گیا وہ کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ایسے قبیح افعال سے بچنے کی تلقین کریں۔

قرآن مجید واضح الفاظ میں بیان فرمارہا ہے کہ انسان کے الفاظ اور باتوں کو فرشتہ ریکارڈ کررہے ہیں چونکہ یہ انسان کے موثر ترین اور خطرناک ترین اعمال ہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ اگر انسان اچھے الفاظ استعمال کرے گا تو اس پر اس کو جزا دی جائے گی اور غلط اور نازیبا الفاظ استعمال کرے گا تو اس کو اس کی سزا بھی دی جائے گی۔ اسلام نہ صرف بدکلامی سے روکتا ہے بلکہ ایسے القابات استعمال کرنے سے بھی منع فرماتا ہے جس سے انسان کی تحقیر و تذلیل ہوتی ہو۔ مسلم نوجوانوں کے ٹرول کرنے سے دنیا کے سامنے ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں میں نرم خوئی اور نرم مزاجی کا کس قدر فقدان ہے۔ مخلوق کے ساتھ حسن خلق کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم اس خاتون کو عقلی و نقلی دلائل سے مسکت جواب دیتے جس سے غیر مسلم حضرات بھی متاثر ہوتے لیکن ہم نے بدخوئی کا ایسا رویہ اختیار کیا جس سے اپنے بھی متنفر ہوگئے۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اسلام کو اس خاتون کے اعتراضات سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا مسلمانوں کی بدکلامی سے ہوا ہے چونکہ دنیا میں اقوام اپنے اخلاق ہی سے پہچانی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب تک زبان جبڑوں میں دبی رہتی ہے انسان کے عیب و ہنر بھی پوشیدہ رہتے ہیں لیکن جیسے ہی زبان کھلتی ہے تو انسان کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے چونکہ زبان وجود انسان کی ترجمان ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ منادیان حق و توحیداس خاتون کو منتقم مزاج لوگوں کی طرح نہیں بلکہ احسن طریقہ سے جواب دیتے جو یقینا گہری اخلاقی خودسازی کا عکاس ہوتا۔ اس طرح کے جواب دینے سے عین ممکن تھا کہ ہمارے ناصحانہ انداز کا اثر اس کے ضمیر پر پڑتا، اس کے اندر انقلاب برپا ہوجاتا اس طرح وہ بھی اسلام کے محاسن کی معترف ہوجاتی۔ دین اسلام نرم خوئی سے پھیلا ہے تندخوئی سے نہیں۔ اللہ تعالی اپنے حبیبﷺ کے بے پایاں عفو و حلم، وسیع لطف و کرم، عمومی عنایت و مہربانی اور نرم مزاجی اور اس کے حیات آفریں اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ترجمہ : ’’پس (صرف) اللہ کی رحمت سے آپ نرم ہوگئے ہیں ان کے لیے اور اگر ہوتے آپ تند مزاج سخت دل تو یہ لوگ منتشر ہوجاتے آپ کے پاس سے ‘‘ (سورۃ آل عمران آیت 159)

بعض مسلمان جنگ احد مں ے نبیﷺ کے پاس سے بھاگ گئے تھے بعد میں وہ آپؐ کے پاس لوٹ آئے، نبی مکرمﷺ نے ان پر کوئی گرفت نہیں فرمائی نہ سختی کی بلکہ نہایت نرم اور ملائم طریقہ سے ان سے گفتگو فرمائی۔ اس آیت پاک میں اللہ تعالی نبی کریم کے اسی وصف خاص کی تعریف فرمارہا ہے۔ حضور پر نورﷺ کے اخلاق کریمانہ اور اسوہ حسنہ کا ہی فیضان تھا کہ عمیر جو زہر میں بجھی ہوئی تلوار آپﷺ کو قتل کرنے کے ارادہ سے لیکر آیا تھا وہ بھی نہ صرف مسلمان ہوگیا بلکہ اسلام کا مبلغ بن گیا۔ بحیثیت امت مصطفیﷺ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے سخت ترین دشمن کے خلاف بھی تند خوئی سے احتراز و پرہیز کریں۔ چونکہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے تاجدار کائناتﷺ نے فرمایا جو شخص نرمی سے محروم رہا وہ خیر سے محروم رہا (مسلم شریف)۔ بی بی عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالی رفیق ہے اور رفق اور نرمی کو پسند کرتا ہے وہ نرمی کی وجہ سے اتنی چیزیں عطا فرماتا ہے جو سختی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے عطا نہیں فرماتا ( مسلم شریف)

قرآن مجید اور احادیث میں مذکورواضح ہدایات کے باوجود مسلمانوں نے اس غیر مسلم خاتون کے خلاف جو زبان اور الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ قابل مذمت ہے چونکہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو جہالت و بدمزاجی اور مخالفین اسلام کی سختیوں کا جواب حلم و حسن خلق سے دینے کا حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا ایک عام مسلمان سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسا طرز تخاطب اختیار کرے اور زبان درازی جیسے فعل قبیح کا ارتکاب کرے چونکہ صاحب ایمان تو وہ ہوتا ہے جو معبودانِ باطلہ، نافرمان افراد اور جانور کو بھی گالی نہیں دیتا۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔