اسلامی تہذیب کی شناخت: انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر

مرشد کمال

دہلی کی سرسبزو شاداب اور قدرے پُرسکون شارع لودھی روڈ سے گزر جائیے تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ آپ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی شہرہ آفاق عمار ت سے نظریں بچا کر گزر جائیں۔ دہلی کی تمام عمارتوں میں منفرد اور ممتاز اس دلفریب عمارت میں بلاکی کشش ہے جو یہاں سے گزرنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کئے بغیر نہیں رہتی۔

لودھی گارڈن سے متصل زمین کا یہ خطہ جس کے مشرقی کنارے پرہمایوں کا مقبرہ اور مغربی کنارے پر صفدر جنگ کا مقبرہ وقوع پزیر ہے، 14ویں اور15 ویں صدی عیسوی میں دہلی سلطنت کے زیر اثر تھا اور اس پر سید خاندان اور لودھی خاندان کی حکومت ہو ا کرتی تھی۔ قرائن بتاتے ہیں کہ جس جگہ آج انڈیا اسلامک سینٹر کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے وہاں کبھی سید خاندان اور لودھی خاندان کے زمانے کے بسائے ہوئے گاوں آباد تھے جنھیں 1936میں لیڈی ولنگڈن پارک(لودھی گارڈن)کے تعمیر ی منصوبے کی وجہ سے دوسری جگہ منتقل کر نا پڑا تھا۔

انڈیااسلامک کلچرل سینٹر کے قیام کی تاریخ جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی حیرت انگیزبھی۔ یہ ایسے باحوصلہ اور باوصف لوگوں کی داستان ہے جنھوں نے خواب دیکھا اور اس کا پیچھا کیا۔

یہ90 عیسوی کے دہائی کی شروعات تھی جب چودھویں صدی ہجری کے اختتام پر پوری مسلم دنیا Islamic Centenary Celebration منا رہی تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں میں بھی اس سلسلے میں خاصہ جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ ملک میں جگہ جگہ اسلامی تہذیب وتمدن کی تاریخ اور ہندوستانی معاشرے پر اس کے اثرات پر کانفرنس، سیمینار اور مباحثے ہورہے تھے۔ چونکہ یہ دور تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نقطء آغاز بھی تھا، سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، ایسے میں ملک کے چند متمول اور معزز مسلمانوں نے یہ ضرورت محسوس کی کیوں نہ ملک کے قلب میں ایک ایسے سینٹر کا قیام کیا جائے جو مستقل طور پر اسلامی تہذیب اور شناخت کی علامت بن جائے۔ جو روائیتی طور پر Muslim Stereotype اور Ghettoization سے پر ے ایک ایسے معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکے جو قومی یکجہتی اور پُرامن بقائے باہم کا علمبردار ہو۔ جو تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلی غلط فہمیوں اور پروپگینڈے کا اژالہ کرسکے۔

چنانچہ 1984 میں بانئی ہمدرد حکیم عبدالحمید صاحب، مفتی عتیق الرحمان صاحب، بدرالدین طیب جی صاحب، بیگم عابدہ احمد صاحبہ، چودھری محمد عارف اور دیگر مخلصینِ قوم کی کوششوں سے بستی حضرت نظام الدین سے تقریباً دو کیلومیٹر دور واقع لودھی روڈ پر سینٹر کی تعمیرکے لیے حکومت ہندسے ایک قطعہ اراضی حاصل کرلی گئی۔ حکومت نے بھی اس سلسلے میں حیرت انگیز طورپر غیر معمولی سخاوت کا مظاہر ہ کیا اور اسطرح 24 اگست 1984کو اس وقت کی وزیر آعظم مسز اندراگاندھی کے ہاتھوں اسلامک سینٹر کی سنگ بنیاد رکھی گئی۔ بانئی ہمدرد حکیم عبدالحمید صاحب نے جو سینٹر کے پہلے صدر بھی تھے، زمین کی قیمت ادا کرنے لئے ساڑھے دس لاکھ روپیو ں کا انتظام کروایا اور تقریباً اتنی ہی کی ایک گرانٹ سینٹر کی تعمیر کے لئے مسز گاندھی کی ذاتی دلچسپیوں کی وجہ سے حکومت سے حاصل ہوگئی۔ لیکن پھر وہی ہوا جو عام طور پرہندوستان میں مسلم اداروں کے ساتھ مخصوص ہے۔ سینٹر کا ڈریم پروجیکٹ تعطل کا شکار ہوگیا اور تقریباً دو دہائیوں تک کچھ تو سرکاری ریشہ دوانیوں اورکچھ اپنوں کی بے اعتنائیوں پر ماتم کُناں رہا۔

آخر کار جنوری 2004 میں سراج الدین قریشی صاحب کے سینٹر کے صدر منتخب ہونے کے بعد صورتحال میں تبدیلی واقع ہوئی۔ سراج الد ین صاحب نے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے سرکردہ اور معزز مسلمانوں، اہل خیر حضرات اور مختلف ریاستی حکومتوں کے تعاون سے محض ڈیڑ ھ سالوں کے اندر سینٹر کی عمارت کی تعمیر کا کام مکمل کروایا۔ آج دہلی کے قلب میں واقع ڈھائی ایکڑ کی اراضی پر پھیلی اسلامک سینٹر کی دیدہ ذیب اور پُرشکو ہ عمارت اسلامی فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے۔ قران مجید کی آیاتِ کریمہ سے منقش اسکے گنبدو محراب ہمیں اپنی عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ انڈین اکسپریس نے اپنے 25فروری 2009کے شمارے میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی عمار ت کو Architectural Wonder قرار دیا ہے۔ لیکن جیساکہ کسی شا عر نے کہا ہے کہ:

کنکر پتھر کی تعمیریں مذ ہب کا مفہوم نہیں
ذہنوں کی تعمیر بھی کیجئے گنبد اور محراب کے ساتھ

گنبد اور محر اب کی تکمیل کے بعد اب سینٹر ذہنوں کی تعمیرمیں ہمہ تن مصروف ہے۔ مسلم مسائل پر سمینار، کانفرنس اور مباحثوں کا مسلسل انعقاد سینٹر کی روز مرہ کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ بین مذاہبی مکالمات اور مزاکرات کے ذریعے دیگر عقیدوں میں یقین رکھنے والے اہل فکر لوگوں میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا سینٹر کے ایجنڈے میں سر فہرست رہا ہے۔
اپنی ان سرگرمیو ں کی وجہ سے اسلامک سینٹرکو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بیرون ملک خصوصاً مسلم دنیا میں انتہائی قدرومنزلت کی نگا ہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سینٹر نے اپنے دائرہ کار کو وسعت دیتے ہوئے مسلم طلبا و طالبات کے سول سروس کے فری کوچنگ کا انتظام بھی کیا ہے۔ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ، میموری ڈیولپمنٹ، کمییونیکیشن اسکللز، اور اس طرح کے دیگر کورسزکے ذریعہ مسلم بچے بچیوں میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی سامنے آنے لگا ہے۔ سینٹر کے ذریعہ ٹریننگ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور بچیوں کو پرائیوٹ فرم میں ملازمت بھی حاصل ہوچکی ہے۔

سینٹر اردو کتا بوں کی نمائش کے ذریعے اردو کے شائقین کے لئے بیش قیمت اور نادر کتابوں کی دستیابی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ملازمت کے ضرورت مند نوجوانون کے لئے روزگار میلہ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں سینکڑوں پرائیوٹ فرم حصہ لیتی ہیں ا ور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو انکی لیاقت کی بنیاد پر مختلف عہدوں کے لیئے منتخب کیا جاتا ہے۔

جدید ترین سہولیات سے آراستہ اس سینٹر کے اندر آڈیٹوریم، کانفرنس ہال، میٹنگ روم، بینکٹ ہال، ریسٹورانٹ، کافی شاپ، مسجد اور دارالمطالعہ کے ساتھ ساتھ باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے رہائیشی کمروں کا بھی انتظام کیا گیاہے جو سینٹر کے ممبران کے لئے انتہائی مناسب کرائے پر دستیاب ہے۔

دہلی میں اسلامک سینٹر کے کامیا ب تجربے کے بعد اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ دہلی کے طرز پر ملک کے مختلف صوبوں کی راجدھانیوں میں اسلامک سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اسلامک سینٹر کی موجودہ قیادت اس سلسلے میں کا فی سنجیدہ اور سرگرم ہے۔ مختلف ریاستوں کی حکومتوں سے زمین کے حصول کے لئے گفت وشنیدجاری ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ جلد ہی چند ریاستوں میں زمین کی فراہمی ممکن ہوجائے گی۔ تعمیر کے لئے کئی اہل خیر حضرات نے ملک اور بیرون ملک سے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

معجزاتی طور پر معرض وجود میں آئے اس باوقار ادارے کو سیاست اور ذاتی انا کی تسکین کا سا مان بننے سے بچائے رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ قوم کے ذمہ دار اور دردمند حضرات خصوصاًاسلامک سینٹر کے ممبران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ادارے کو سیاست کی آماجگا ہ بننے سے بچائے رکھیں تاکہ یہ ادارہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ مستقبل کے جامع منصوبوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے پوری قوم متحد ہوکر اس عمل میں اپنی حصہ داری نبھائے۔ پورے ملک کی ریاستی دارالحکومتوں میں اسلامی سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔ مستقبل میں اسلامک سینٹر کے کسی بھی مرکز کو ایک ڈریم پراجکٹ کی شکل دی جائے جو اس کے موجودہ خدوخال اور اس کے نصب العین میں بغیر کسی غیر معمولی تبدیلی کے اس میں پروفیشنل ٹریننگ سینٹراور ماڈل اسکول کا اضافہ کردے، جس کی کمی کا احساس ہمیں ہر لمحہ ہوتاہے۔ سینٹر کے پاس جو انفراسٹرکچر اور ملک و بیرون ملک مسلمانوں کا بہترین دماغ موجود ہے اس کا فائدہ اٹھاکر پورے ملک میں مسلم تعلیمی اداروں کا ایک جا ل بچھایا جاسکتا ہے اور تعلیمی بیداری کی تحریک چلائی جاسکتی ہے۔ چونکہ حکومتی اداروں سے کسی خیر کی توقع کی کوئی امید نظر نہیں آتی ایسی صورت میں اسلامک سینٹر اہم رول ادا کر سکتاہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان قومی ادارے کو تمام قسم کے شرسے محفوظ رکھے۔

نوٹ: مضمون نگار معروف قلم کار، سماجی کارکُن اور جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبا یونین کے سابق نائب صدر ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔