اسلامی عہد میں تحقیقی رجحانات اور کمالات

ایم اے فاروقی

تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے، جوکہ باب تفعیل سے مصدرہے۔ حقق، یحقق، تحقیقا، محقق جس کے معنی تحقیق کرنے والا ہیں۔ یعنی تحقیق کا مطلب تلاش کرنا، حق سامنے لانا، حقیقت جاننا ہے، اور سچائی کوثابت کرنا ہے۔

تحقیق کا آغازاسلام کی تعلیمات سے ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی احادیث ِ مبارکہ اور قرآن پاک میں مسلمانوں کوحق کی تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مسلمانوں کوعلم و تحقیق کے متعلق خاص توجہ دینے کی تلقین کی گئی ہے، تحقیق کا آغازرسول پاکﷺ کے دورمیں ہی شروع ہوگیاتھا۔ صحابہ اور تابعین نے تحقیق کے ذریعے احادیث کومحفوظ کیا، اور آگے پہنچایا۔یہ دورمسلمانوں کا سنہری دورتھا،خلفائے راشدین کے زمانے میں ہی اسلام کا جھنڈا یورپ میں بھی لہرایاگیا، یوں باقاعدہ نئی نئی ایجادات کاآغازہوا، اور ان جدیدایجادات کا سہرا مسلمانوں کے سرہی جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں نے تحقیق کے میدان میں قدم رکھا اور دنیاکو پرانی اور نئی ایجادات کے زیورسے آراستہ کیا۔  ۱ ؎

اندلس کے دارالسلطنت قرطبہ کی بلندی کوہی دیکھ لیجیے اس میں 900ء میں تین ہزار آٹھ سو (3800) مسجدیں، ساٹھ ہزار(60000) بلندوبالا عمارتیں، عام لوگوں کے دو لاکھ (200000) مکانات، آٹھ ہزار(8000) دکانیں اور سات سو حمام موجودتھے۔اس وقت قرطبہ کی آبادی دس لاکھ (1000000) باشندوں پر مشتمل تھی، جس میں پچاس (50) سرکاری ہسپتال موجودتھے۔ قرطبہ کی عظیم الشان شاہی لائبریری میں دولاکھ (200000) سے زائد کتابیں تھیں۔ اس دورمیں قرطبہ یونیورسٹی یورپ کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی، جہاں مختلف مضامین کے اساتذہ اورعلماء تعلیم و تدریس کے علاوہ تحقیق وتالیف کے عمل میں مصروف تھے۔ یوں مسلمانوں نے تمام ترایجادات کی بنیادرکھی۔میں مسلمانوں کی کچھ ایجادات کاذکرکروں گا جوانہوں نے عمیق مشاہدے اور تحقیق کے بعد پیش کیں۔   ۲ ؎

خالد:

کافی جوکہ آج کل پوری دنیامیں عام استعمال کی جاتی ہے اس کوایجادکرنے والاایک مسلمان تھا جس کانام خالدتھا، ایتھوپیا میں یہ نوجوان روزبکریاں چراتاتھا، اس نے محسوس کیاکہ ایک خاص جڑی بوٹی کھانے سے اس کی بکریاں چاق و چوبندہوجاتی ہیں۔ اس نے اس دریافت کی بیریوں کوپانی میں ابال کر دنیاکی پہلی کافی تیارکی، ایتھوپیاسے یہ کافی یمن میں پہنچی۔ پندرویں صدی میں اٹلی پہنچی،1650ء میں انگلستان میں کافی پہنچی۔  ۳؎

باغات جوکہ اب پوری دنیامیں عام ہیں۔ یہ ایجادبھی مسلمانوں کے سرجاتی ہے۔سب سے پہلے مسلمانوں نے باغات بنانے شروع کیے تھے۔تاکہ ایسی خوبصورت جگہ بیٹھ کر انسان مراقبہ اور غوروفکر کرسکے۔ یورپ میں شاہی باغات اسلامی سپین میں گیارہویں صدی میں بننے شروع ہوئے تھے۔ کارنیشن اور ٹیولپ کے پھول مسلمانوں کے باغات ہی کی پیداوار ہیں۔

 634ء میں سب سے پہلے ایران میں پن چکی بنائی گئی تھی۔ اس کے ذریعہ سے مکئی کو پیساجاتا اور آب پاشی کے لیے پانی نکالاجاتاتھا۔ ایرانی پن چکی میں بارہ کپڑے کے بنے ہوئے پنکھے لگے ہوتے تھے۔ یورپ میں پن چکی اس عرصہ کے پانچ سو سال بعدپہنچی۔ ۴؎

جابربن حیان:

دنیاکا پہلا کیمیادان جابربن حیان تھا۔ یہ کوفہ (عراق) کے رہنے والے تھے۔ قرع البیق آلہ انہوں نے بنایاجس کے ذریعے شورے کا تیزاب (نائٹرک ایسڈ) بناکرسائنس کی دنیا میں انقلاب بپاکردیا۔ ان کی وفات 813ء میں ہوئی۔

علی ابن نافع:

 علی ابن نافع نویں صدی میں عراق سے ہجرت کرکے اسلامی سپین پہنچے تھے،علی ابن نافع نے جوکارنامے سرانجام دیے وہ ملاحظہ ہوں۔

۱۔کھانے میں تین ڈشوں کی روایت شروع کی۔(سوپ، مچھلی یاگوشت اور فروٹ یاخشک پھل)

۲۔ مشروبات کے لیے کرسٹل گلاس کا استعمال۔

۳۔ کھانے کی میز پرمیزپوش کا رواج دیا۔

۴۔ سپین میں شطرنج اور پولوکھیل کاآغاز کرایا۔

۵۔ چمڑے کے فرنیچرکورواج دیا۔

۶۔ پرفیوم، کاسمیٹکس، ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ کو رواج دیا۔

۷۔ کھاناکھانے کے آداب کی روایت ڈالی۔

۸۔چھوٹے بالوں کے فیشن کورواج دیا۔

۹۔ گرمیوں میں سفید کپڑوں اور سردیوں میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے کا رواج دیا۔      ۵؎

۱۰۔دنیاکا سب سے پہلا زیبائش حسن کا مرکز یعنی بیوٹی سیلون قرطبہ میں بنایا۔علی ابن نافع کی وفات تقریباً 870ء میں ہوئی۔

عباس ابن فرناس:

امریکہ کے رائٹ برادرزسے ایک ہزار قبل اندلس کے ایک مایہ ناز اسٹرانومر، میوزیشن اور انجینئرعباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑان بونے کے لیے مشینری تیارکی اور پہلی اڑان کی کوشش کی۔ ایک مورخ کے مطابق 852ء میں اس نے قرطبہ کی جامعہ مسجدکے مینارسے چھلانگ لگاکراپنے فضائی لباس کو چیک کیا۔ 875ء میں اس نے ریشم اورعقاب کے پروں سے ایک مشین تیارکی۔ اس کا خیال تھاکہ وہ اپنے گلائیڈزسے پرندوں کی طرح پرواز کرسکے گا۔یہ مشین بھی گلائیڈرسے ملتی جلتی تھی۔ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے چھلانگ لگائی، دس منٹ تک وہ فضا میں پرواز کرتارہا۔ لیکن اترتے ہوئے اس کوچوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈرمیں اترنے کے لیے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی۔

سب سے پہلا پلینی ٹیرم (Planetarium) اسلامی سپین کے سائنسدان عباس ابن فرناس نے ہی بنایاتھا۔ یہ شیشے کا تھااس میں آسمان کی پروجیکشن اس طور سے کی گئی تھی کہ ستاروں، سیاروں، کہکشائوں کے علاوہ بجلی اور بادلوں کی کڑک بھی سنائی دیتی تھی۔عباس ابن فرناس کی وفات 887ء میں ہوئی۔  ۶؎

ابن الہیشم:

 یونانیوں کانظریہ تھا کہ انسان کی آنکھ سے شعاعیں (لیزرکی طرح) خارج ہوتی ہیں، جن کے ذریعہ ہم اشیاء کو دیکھتے ہیں۔ لیکن دنیا کے عظیم مسلمان سائنس دان ابن الہیشم نے اس نظریہ کی تردید کردی۔دنیا کاپہلا پن ہول کیمرہ ایجاد کرنے والے اس عظیم ریاضی دان اور طبیعات کے ماہر نے کہا کہ روشنی جس سوراخ سے تاریک کمرے کے اندرداخل ہوتی ہے وہ جتنا چھوٹا ہوگا پکچراتنی ہی عمدہ (شارپ) بنے گی۔ ابن الہیشم نے ہی دنیاکاپہلا کیمرہ آبسکیورہ (Camera Obscura) تیارکیا۔کیمرہ کا لفظ کمرے سے ہی اخذ کیاگیاہے جس کے معنی خالی یاتاریک کوٹھڑی کے ہیں۔

ابن الہیشم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لیے ڈایاگرام بھی بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجادکیں جیسے ریٹینا(Retina)، کیٹاریکٹ (Cataract)، کورنیا(Cornea)، یہ اصطلاحات آج بھی مستعمل ہیں۔ مزیدآنکھ کے بیچ میں بھرے ہوئے حصہ (پتلی) کواس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کاہوتاہے۔لاطینی زبان میں مسورکولینٹل (Lentil) کہتے ہیں جوبعدمیں Lens بن گیا۔ ابن الہیشم نے اصول ِ جمود (Law of Intertia) دریافت کیا یہ لاء بعدمیں نیوٹن کے پہلے لاء آف موشن کا حصہ بنا۔ ابن الہیشم کا کہنا ہے کہ اگرروشنی کسی واسطے سے گزررہی ہوتوایساراستہ اختیارکرتی ہے جوآسان ہونے کے ساتھ تیزتربھی ہو۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسدان فرمیٹ (Fermat) نے دریافت کیاتھا۔ ۷؎

خلیفہ ہارون الرشید:

خلیفہ ہارون الرشیدکانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ سوئیزنہرکھودنے کا خیال اس عظیم انجینئرکے دماغ میں آیا۔بحیرہ روم اور بحیرہ احمرکوآپس میں ملانے کے لیے اس نے اس مقام پر نہرکھودی۔آج یہ سوئیزکینال کی صورت میں موجود ہے۔

محمدابن علی خراسانی:

 محمدابن علی خراسانی(لقب اساعتی)گھڑی بنانے والا مسلمان سائنسدان تھا۔ یہ دیوار گھڑی بنانے کاماہرتھااس کی وفات تقریباً 1185ء میں ہوئی۔ اس نے دمشق کے باب ِ جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی۔

المرادی:

اسلامی سپین کے انجینئرالمرادی نے ایک واٹرکلاک بنائی جس میں گیئراوربیلسنگ کے لیے پارے کواستعمال کیاگیاتھا۔

یورپ سے سات سوسال قبل اسلامی دنیامیں گھڑی کا استعمال عام تھا۔ خلیفہ ہارون الرشیدنے اپنے ہم عصرفرانس کے شہنشاہ شارلیمان کوگھڑی تحفہ میں بھیجی تھی۔جرمنی میں گھڑیال1525ء اور برطانیہ میں 1580ء میں بنناشروع ہوئیں۔

الخوارزمی:

عظیم مسلمان سائنسدان الخوارزمی الجبرے کودریافت کرنے والا ہے۔ 825ء میں اس نے اپنی شاہکارکتاب ’’الجبراوالقابلہ‘‘ لکھی جس میں اس نے 9اور صفرکے اعدادپیش کیے تھے۔اس سے قبل لوگ حروف کا استعمال کیاکرتے تھے۔ الخوارزمی کی کتاب کے نام سے ہی الجبراکا لفظ اخذ کیاگیاہے۔

الخوارزمی کی کتاب کے تین سوسال بعد اطالین ریاضی دان فیبوناچی (Fibonacci) نے الجبرایورپ میں متعارف کروایاتھا۔ایک اور اہم بات کہ الخوارزمی کے نام سے ہی الگورتھم(یعنی ایسی سائنس جس میں 9 ہندسوں اور 0 صفرسے حساب نکالاجائے۔ (Process used for Calculation with a Computer) کا لفظ بھی اخذ ہوا۔ مقالہ نویسی کاموجدبھی الخوارزمی ہی ہے۔ اس نے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر بغدادکی سائنس اکیڈمی کوبھیجا۔اکیڈمی کاایک بورڈ بیٹھاجس نے اس مقالے کے بارے میں اس سے سوالات بھی کیے، اور یوں وہ بھی اس اکیڈمی کارکن بن گیا۔جامعات میں آج بھی مقالہ لکھنے کایہ طریق ہی رائج ہے۔                 ۸؎

ابن یونس:

مصرکے سائنسدان ابن یونس نے دسویں صدی میں پینڈولم کوایجادکیاتھا، یوں وقت کی پیمائش پینڈولم کی جھولن (Oscillation) سے کی جانے لگی، اس عظیم دریافت سے مکینکل کلاک ایجادہوئی تھی۔ ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پررسالہ بھی لکھا، جس میں ملٹی پل گیئرٹرین کی وضاحت ڈایاگرام کی مددسے کی گئی تھی، ان کی وفات 1009ء کے قریب ہوئی۔

زکریاالرازی:

زکریاالرازی جو ایران کا ایک مسلمان محقق اور سائنس دان تھادنیاکا عظیم کیمیادان ماناجاتاہے۔ اس نے سلفیورک ایسڈتیارکیاجوماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ گرداناجاتاہے۔اس نے ایتھونول بھی ایجادکیا اور اس کا استعمال میڈیسن میں کیا۔کیمیائی مادوں کی درجہ بندی (نامیاتی اور غیرنامیاتی) کرنے کاسہرابھی زکریاالرازی کے سرجاتا ہے۔

زکریاالرازی ہی پہلا آپٹومیٹرسٹ تھاجس نے بصارت فکراور تحقیقی انہماک سے نتیجہ اخذکیاکہ پتلی روشنی ملنے پر ردعمل ظاہرکرتی ہے۔ مزیدکارنامے ملاحظہ ہوں۔

٭۔اپنی عظیم کتاب ’’الحاوی‘‘ میں گلاوکوماکی تفصیل بیان کی۔

٭۔ چیچک پردنیاکی پہلی شاہکارکتاب ’’الجدری و الحسبہ لکھی۔ (جس میں چیچک اور خسرہ میں فرق بتلایاہے)

٭۔ سب سے پہلے فرسٹ ایڈ (First Aid) یعنی طبی امدادکا طریقہ جاری کیا۔

٭۔عمل جراحی میں استعمال ہونے والا ایک نشتر (Seton) بنایا۔

٭۔ ادویات کے درست وزن کے لیے میزان طبعی ایجادکیا۔(آج بھی سائنس روم میں اس کو استعمال کیاجاتا ہے)

٭۔الکحل کی ایجادکاسہرا بھی زکریا کے سرہے۔

٭۔جراثیم (Bacteria) اور تعدیہ (Infection) کے مابین تعلق معلوم کیا۔

جب طبیب اعظم زکریاالرازی سے بغدادمیں ہسپتال بنانے کا پوچھاگیا کہ کس جگہ بنایاجائے تو اس نے کہا جہاں ہوا میں لٹکاہواگوشت دیرسے خراب ہواس مقام پر ہسپتال تعمیرکیاجائے۔

الرازی نے ہی حساسیت اور صناعت (Allergy & Immunology)پردنیاکا سب سے پہلا رسالہ لکھا۔

حساسی ضیق النفس (Allergic Asthma) دریافت کرنے والا بھی زکریاہی تھا۔ان کی وفات تقریباً 925ء میں ہوئی۔

ابوالحسن طبری:

ابوالحسن طبری دنیاکے پہلے طبیب ہیں جنہوں نے خارش کے کیڑوں (Miteitch) کودریافت کیاتھا۔ ۹؎

علاالدین ابنِ شاطر:

 شام کے مسلمان سائنس دان علاالدین ابن ِ شاطرنے تیرھویں صدی میں انکشاف کیاکہ زمین سورج کے گردگھومتی ہے۔ اس نے سائنسی مشاہدہ کیاکہ سورج جب آنکھوں سے اوجھل ہوجاتاہے پھربھی زمین اس کے گردگھومتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے ابن ِ شاطرنے ہی دعویٰ کیاتھا لیکن آج مغرب والے کوپرنیکس کوان تمام دریافتوں کاموجدقراردیتے ہیں۔ حالانکہ کوپرنیکس سے صدیوں پہلے مسلمان ان چیزوں پرکام کرچکے تھے۔

سنان ابن ثابت:

 سنان ابن ثابت وہ عظیم مسلمان تھا جس نے طبیبوں کی رجسٹریشن کاکام بغدادمیں شروع کیاتھا۔اس کے حکم پر ہی طبیبوں کاپہلا امتحان ہوا جس کے تحت 800 طبیبوں کو حکومت نے رجسٹرکرکے پریکٹس کرنے کے لیے سرکاری سر  ٹیفکیٹ جاری کیے،آج کے دورمیں بھی مطب چلانے کے لیے لائسنس کاحصول ضروری ہے۔ لائسنس کے تحت مطب چلانے کانظام بھی سنان ابن ثابت نے ہی جاری کیا۔یوں پوری دنیامیں ڈپلومادینے، اور رجسٹریشن کاسلسلہ شروع ہوا جوآج تک جاری ہے۔سنان کی وفات 943ء کے قریب ہوئی۔

محمدبن جابرالبتانی:

 محمدبن جابرالبتانی ایسے سائنس دان تھے جنہوں نے ایک سال کی مدت معلوم کی جو 365دن، 5 گھنٹے اور24 سیکنڈتھی۔انہوں نے سورج کامداربھی معلوم کیاتھاان کی وفات 929ء میں ہوئی۔

عبدالرحمن الصوفی:

 عبدالرحمن الصوفی 903ء میں ایران میں پیداہوئے۔ ان کوپہلا عالمی ماہرافلاک ماناجاتا ہے جنہوں نے 964ء میں اینڈرومیڈاگلیکسی (M andromeda Glaxy) کودریافت کیاتھاہمارے نظام ِ شمسی سے باہرکسی اور سٹارسسٹم کے ہونے کایہ پہلا تحریری ثبوت تھا جس کا ذکرعبدالرحمن نے اپنی کتاب ’’الکواکب الثابت المصور‘‘ (Book of Fixed Stars) میں کیاہے۔ یہی کہکشاں سات سوسال بعدجرمن ہیت دان سائمن (Simon Marius) نے دسمبر 1612ء میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریافت کی تھی۔ عبدالرحمن الصوفی کی وفات 986ء میں ہوئی۔   ۱۰؎

بوعلی سینا:

طب کے بادشاہ بوعلی سینانے سب سے پہلے تپ دق کا متعدی ہونا دریافت کیاتھا۔ بوعلی سینا کے کارنامے درج ذیل ہیں۔

٭۔پانی کے ذریعہ سے بیماری کے پھیلنے کا ذکرکیا۔

 اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’القانون‘‘ میں پانی کے کیڑوں کاذکرکیاجومائیکروب کہلاتے ہیں۔

٭۔فن ِ طب میں علم نفسیات کوداخل کیا۔

٭۔مریضوں کوبے ہوش کرنے کے لیے افیون دینے کا طریقہ دریافت کیا۔

٭۔ دوائوں کے بغیرمریضوں کانفسیاتی علاج کیا۔

٭۔ بوعلی سینا نے بتایاکہ ذیابیطس کے مریضوں کاپیشاب میٹھا ہوتا ہے۔

٭۔ بوعلی نے ہی بتایاکہ نظام ِہضم لعاب دہن سے شروع ہوتاہے۔

٭۔دماغی گلٹی (برین ٹیومر)اورمعدہ کے ناسور(سٹامک السر) کاذکرکیا۔

٭۔ طبیعات میں تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا۔

٭۔ بوعلی سینا نے ہی کہا کہ روشنی کی رفتارلامحدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین مقدار ہے۔

٭۔اس نے زہرہ سیارے کوبغیرکسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھاتھا۔

٭۔ انہوں نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی، اناٹومی اور تھیوری آف ویٹرن بیان کی۔

٭۔ انہوں نے آنکھ کے اندرموجود تمام رگوں اور پٹھوں کوتفصیل سے بیان کیا۔

٭۔ انہوں نے مزیدتحقیق کرکے بتایاکہ کیسے سمندرمیں پتھربنتے ہیں، پہاڑ کیسے بنتے ہیں۔ سمندرکے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھرکیسے بنتی ہیں۔

 صابن کی ایجادبھی مسلمانوں کی مرہون ِ منت ہے۔مسلمانوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈمیں ملاکرصابن تیارکیاتھا۔ برطانیہ میں شیمپوایک ترک مسلمان نے متعارف کیا۔  ۱۱؎

ابوالقاسم الزہروی:

دنیاکو فن ِ جراحت سے روشناس کروانے والے ابوالقاسم الزہروی تھے۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب ’’تصریف‘‘ لکھی جس میں جراحت کے تمام آلات اور طریقہ کاردرج ہیں۔ ابوالقاسم زاہروی نے پہلی بار باقاعدہ آپریشن شروع کیا۔

ابوالقاسم کے کارنامے ملاحظہ ہوں۔

٭۔ دانت نکالنے کا طریقہ بتایا۔

٭۔ حلق کا کواکاٹنے کا طریقہ بتایا۔

٭۔ مثانے میں سے پتھری نکالنا۔

٭۔ بواسیرکے مسوں کوکاٹنا۔

٭۔ خنازیرکاآپریشن کرنے کا طریقہ بتایا۔

٭۔ٹوٹی ہوئی ہڈی جوڑنے، اترے ہوئے جوڑوں کو چڑھانے کا طریقہ بتایا۔

٭۔مائوف عضوکوکاٹنے اور ہرقسم کے پھوڑوں کوچیرنے کاطریقہ بتایا۔

٭۔آنکھوں کاآپریشن ایجادکیا۔

اس کے علاوہ جوآلات ابوالقاسم الزھروی نے خودبنائے وہ دیکھیے۔

٭۔پیشاب خارج کرنے والا آلہ قاثاطیر۔

٭۔مقاماع الاسنان، یعنی دانت نکالنے کا آلہ۔

٭۔ محقن یعنی انیماکرنے کا آلہ۔

٭۔ مختلف قسم کے نشترمثلاً قینچی، آری، سرجنوں کی سلائی، زخموں کوسینے کے لیے مختلف قسم کی سوئیاں سبھی اس نے خودبنائے۔

ابوالقاسم زھراوی کی پیدائش 936ء میں زھرا،اندلس میں ہوئی تھی اور ان کی وفات 1013ء میں ہوئی تھی۔

اطبائی:

اطبائی وہ مسلمان سائنس دان تھا جس نے افیون اور الکحل کوبطور (Anaesthetics) کے استعمال کیاتھا۔ موتیابندکے

آپریشن کیلئے Hollow Needles بھی مسلمانوں نے ایجاد کیں جو آج بھی استعمال ہوتی ہیں۔

اسحق الکندی:

اسحق الکندی ایسے مسلمان سائنسدان تھے جنہوں نے سب سے پہلے Frequency Analysis  کاآغازکیاجس سے ماڈرن کرپٹالوجی (Cryptology) کی بنیادپڑی تھی۔انہوں نے باقاعدہ رصدگاہی نظام کی ابتداء بھی کی تھی ان کی وفات 866ء میں ہوئی۔                 ۱۲؎

ابواسحق الزرقلی:

ابواسحق الزرقلی اندلس کے ایک مایہ ناز اسٹرونامیکل آبزرورتھے۔ انہوں نے ایک خاص اصطرلاب ’’الصیفحہ‘‘ کے نام سے بنایاجس کے ذریعہ سے سورج کی حرکت کا مشاہدہ کیاجاسکتاتھا۔ انہوں نے اس اصطرلاب پرایک آپریٹنگ مینوئل لکھا جس میں انہوں نے انکشاف کیاکہ آسمانی کُرے بیضوی مدارمیں گردش کرتے ہیں۔ صدیوں بعد کیپلرنے بھی یہی انکشاف کیاتھا۔

اندلس کے سائنس دان:

  ابوصلت نے ایک ایسی حیرت انگیزمشین ایجادکی جس کی مدد سے ڈوبے ہوئے بحری جہازکوسطح آب پرلایاجاسکتا تھا۔ یہ مشین اس نے 1134ء میں بنائی۔

حاتم اسفرازی:

حاتم اسفرازی وہ عظیم ابرانی مسلمان تھے جنہوں نے مختلف دھاتوں کاوزن کرنے کے لیے دواکائیوں کااستعمال شروع کیاایک درہم اور دوسری اوقیہ۔ مسلمانوں کے علمی خزانے جب یورپ پہنچے تو یہ وزن بھی منتقل ہوئے۔ آہستہ آہستہ درہم گرام کی صورت اختیارکرگیااور اوقیہ اونس بن گیا۔

ابوعبداللّٰہ محمدبن احمد:

ابوعبداللہ محمدبن احمدنے سب سے پہلے دنیاکاپہلا انسائیکلوپیڈیا’’مفاتح العلوم‘‘ ترتیب دیا۔انہوں نے مضامین کی ترتیب کاجونیاطریقہ بتایاوہ حروف ابجدکا استعمال تھا۔اپنی ایک ضخیم کتاب کو بھی حروف ِ ابجدکے اصول پر مرتب کرکے دکھایا۔آج کے دورمیں جدیدانسائیکلوپیڈیامیں بھی یہی اصول برتاجاتاہے۔ ان کی وفات 980ء میں ہوئی۔

ابوالقاسم عمار:

موتیابندکا سب سے پہلا آپریشن کرنے والے بھی مسلمان سائنس داں تھے۔ ماہرطبیب حاذق اور آنکھ کے امراض کے ماہر ابوالقاسم عمارموصلی نے 1000ء میں یہ آپریشن کیا۔امراض ِ چشم پرانہوں نے ’’علاج العین‘‘ کتاب لکھی جس کا 1905ء میں جرمن زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔

عبدالرحمن ابن یونس:

مصرکے سائنس داں عبدالرحمن ابن یونس نے دریافت کیاکہ زمین کا محور (Axis) دیکھنے میں بظاہرقطب تارے کی صورت ساکن دکھائی دیتاہے لیکن اصل میں یہ ساکن نہیں ہے بلکہ بہت کم رفتارسے ایک دائرے کی حالت میں گردش کرتاہے۔اس معمولی سی حرکت کوہم محسوس بھی نہیں کرسکتے۔لیکن ابن یونس کی ہیت دانی کا کمال تھا کہ انہوں نے اتنی چھوٹی پیمائش کوبھی معلوم کرلیا۔ان کی وفات 1009ء میں ہوئی۔

مصرکے سلطان کے لیے 953ء میں پہلا فائونڈیشن پین (Pen) تیارکیاگیاتھا، یہ ایساپین تھاجوسلطان کے دستخط کرنے میں استعمال ہوتاتھا، استعمال کرتے وقت اس سے ہاتھ یاکپڑے گندے نہیں ہوتے تھے۔اس پین میں روشنائی محفوظ رہتی اور کشش ِ ثقل سے نب تک پہنچتی تھی۔

ابوالوفابوزجانی:

ابوالوفا بوزجانی وہ مشہور ہیت داں تھاجس نے بتایاکہ سورج کشش رکھتاہے اور چاندگردش کرتاہے۔ اس نے اپنے اس نظریہ کے تحت ثابت کیاکہ زمین کے گردچاند کی گردش میں خلل سورج کی کشش کی وجہ سے پڑتاہے۔ اس نے کہا کہ اس خلل کی وجہ سے ہی دونوں اطراف میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈگری پندرہ منٹ کا فرق ہوجاتاہے۔ اس کو علم ہیت کی اصطلاح میں ایوکشن (Evection) کہتے ہیں۔ مطلب چاند کا بڑھنا اور گھٹنا،ابوالوفاکے نظریے کی تصدیق سولہویں صدی کے یورپ کے ہیت داں ٹائیکوبراہی نے کی تھی۔ ان کی وفات 1011ء میں ہوئی۔

ابوالحسن علی احمدنسوی:

ابوالحسن علی احمدنسوی کی اہم دریافت وقت کی تقسیم درتقسیم کے لیے ایک نئے طریقے کی ایجادہے۔ جسے حساب ستین کہتے ہیں۔ اس نے وقت کی ساعت یا زاویہ (گھنٹہ) کو60 پر تقسیم کیا۔اس ساٹھویں حصے کو اس نے دقیقہ کہاجس کے لفظی معنی ہیں خفیف، اس دقیقہ کو اس نے دوبارہ تقسیم کیا جسے اس نے ثانیہ کہا۔یوں ساعت کی تقسیم دقیقہ اور ثانیہ ہوگئی۔دقیقہ کے لیے انگریزی میں لفظ منٹ وضع ہوگیاجس کے معنی خفیف یاباریک کے ہیں۔ ثانیہ کے لیے انگریزی میں سیکنڈ کالفظ بن گیا۔گھڑی کے ڈائیل پرجو ہندسے کندہ ہوتے ہیں اور جومنٹ (دقیقہ) اور سیکنڈ(ثانیہ) میں تقسیم ہیں وہ ابوالحسن کی ذہانت کاکرشمہ اوران کی یاددلاتے ہیں۔ وہ 1030ء میں اس دارِفانی سے کوچ کرگئے۔

عمربن خیام:

عمربن خیام ایساعظیم مسلمان سائنسدان تھا جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ علم ہیئت اور ریاضی کے علم پر بھی دسترس رکھتاتھا۔ اس نے ایران میں ایک نیاجلالی کیلنڈرشروع کیاجوجولی این اورگریگورین کیلنڈروں سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ اس کیلنڈرکے مطابق

3770سالوں میں ایک دن کا فرق پڑتاہے۔ لیپ ائیرکا تصور سب سے پہلے اس نے ہی پیش کیاتھا۔ اہل ایران ان کو دزدیدہ (چرائے ہوئے دن) کہتے ہیں۔ عمرخیام کا یہ شمسی کیلنڈرآج بھی پوری دنیا میں رائج ہے۔ اس نے ایک سال کی مدت 365.24219858156 نکالی۔ جبکہ کمپیوٹرنہیں ہوتے تھے۔ ان کا انتقال 1030ء میں ہوا۔

امام المؤرخین عبدالرحمن ابن خلدون:

امام المؤرخین عبدالرحمن ابن خلدون نے علم بشریات(انتھروپالوجی) کی سائنس کاآغاز کیا۔ان کی وفات 1406ء میں ہوئی۔

یورپ میں بہت سارے آلات ِ موسیقی اصل میں عرب اور ایران میں تیارکیے گئے آلات کی نقل ہیں۔ جسے عددسے Guitarبنا۔قانون سے ہارپ Harp بنا۔ رباب سے فڈل Fiddle بنا۔ نے سے فلوٹ Flute بنی۔ بکری کی کھال سے بنے ہوئے غائیتہ سے بیگ پائپ Bag Pipe بنا۔            ۱۳؎

ابوالقاسم مسلمہ:

ابوالقاسم مسلمہ نے بھی علم فلکیات میں طبع آزمائی کی۔ ان کی وفات 1007ء میں ہوئی۔

الزرکر:

الزرکر1028ء میں پیداہوئے، انہوں نے علم فلکیات، ستاروں اور ستاروں کی پیمائش کاآلہ ایجادکیا۔ ان کی وفات 1087ء میں ہوئی۔

محمدالبوزجانی / البزجانی:

محمدالبوزجانی/ البزجانی نے علم ِریاضی اور علم ِ فلکیات میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری ان کے ہی مرہون ِ منت ہے۔

الموارد:

المواردنے علم سیاسیات، علم معاشیات، علم قانون اور علم اخلاقیات کے اصول وضع کیے۔ ان کی پیدائش 972ء میں ہوئی اور وفات 1058ء میں ہوئی۔

الاسمائی :

الاسمائی 740ء میں پیداہوئے۔ انہوں نے باٹنی، ذوالوجی اور جانوروں کی خانہ داری کے متعلق اپنے نظریات پیش کیے ان کی وفات 828ء میں ہوئی۔

علی ابن ربان الطباری:

علی ابن ربان الطباری 838ء میں پیداہوئے۔ انہوں نے دواسازی، ریاضی، نقوش نویسی اور ادب میں اپنی خدمات سرانجام

دیں۔ ان کی وفات 870ء میں ہوئی۔

الغرابی:

الغرابی 870ء میں پیداہوئے، انہوں نے علم معاشیات، منطق، فلسفہ، علم سیاسیات اور موسیقی میں اپنے نظریات پیش کیے۔ ان کی وفات 950ء میں ہوئی۔

میں نے مسلمانوں کی چند چیدہ چیدہ ایجادات کا ذکر کیاہے۔ جوانہوں نے عمیق مشاہدے اور تحقیق سے متعارف کروائیں۔

حوالہ جات

۱؎  عبدالحمیدخاں : (2003ء) ’’اصول ِ تحقیق‘‘، اللہ والا پرنٹر، اسلام آباد، ص 35

   ۲؎  حمیدعسکری :(1965ء) ’’مسلمان سائنسدانوں کے کارنامے ‘‘، نورپرنٹر، کراچی، ص 70

   ۳؎  Sir John Glubb: "The Empire of Arabs”, Page 287

   ۴؎  Page 288 // // //

   ۵؎  Dr. S.H. Nasr: "Science & Civilization in Islam”, Page 1

   ۶؎  Page 4                // // //

   ۷؎  عبدالسلام : (1985ء) ’’ارمان اور حقیقت‘‘،   ص 283

  ۸؎   ایضاً،     ص 287

  ۹؎   زکریاورک : (2005ء)، ’’مسلمانوں کے سائنسی کارنامے‘‘، علی گڑھ، ص 47

   ۱۰ ؎         ایضاً،     ص 48

   ۱۱؎          Will durant: "Age of Faith”, Page 244

   ۱۲؎          ابراہیم عمادی ندوی: (2001ء)،’’مسلمان سائنسدان اور اُنکی خدمات‘‘، دہلی، ص 92

   ۱۳؎          ایضاً،    ص 94

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    یعقوب الکندی فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو ملا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سر عام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اور اس کے گرد جمع ہوئے عوام قہقہہ۔

    یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہور عالم ابن رشد کو بے دین قرار دے کر اس کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اور نمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔

    جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اور وہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھے سو سال تک مشرق اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔ اسے بھی گمراہ کن فاسقانہ نظریات کا حامل قرار دیا جاتا تھا۔

    عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اسے جھوٹا، ملحد اور کافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے سزا دی کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔

    بشکریہ ہم سب

    نوٹ ۔ آج یورپ سائنسی ترقی کی جس معراج پہ فائز ہے وہ صرف ہم مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔

    نیز میں خدا کا شکر بجا لاتا ہوں کہ ان عظیم سائنٹسٹس میں کوئی بھی آج کے دور میں زندہ نہیں وگرنہ ہم انہیں توہین مذہب کے جرم میں خود مار چکے ہوتے

تبصرے بند ہیں۔