اسلامی کلچر یا اسلامی ثقافت کیا ہے؟

 ترتیب:عبدالعزیز

انگریزی کے لفظ کلچر کو سب سے پہلے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے ’’ثقافت‘‘ کا جامہ پہنایا۔ اور یہ لفظ دنیائے علم و ادب میں بہت جلد رواج پاگیا۔ ثقافت پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہ زندگی کی کلیت، تہذیب، تمدن، معاشرت، معاملات اور طرز زندگی کا نام ہے۔ اس میں رہن سہن سب شامل ہے۔

غیر مسلموں کے نزدیک بھی ثقافت راگ و رنگ کا نام نہیں ۔ ہندستان یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے غیر مسلم سکریٹری مسٹر سیموئل مٹھانی کے قول کے مطابق:

 ’’ثقافت محض گانے اور ناچنے ہی کو نہیں کہتے، ثقافت زندگی کے سارے کاروبار کا نام ہے۔ یہ محض فنونِ لطیفہ کی اشکال کا نام نہیں ، زندگی کے سارے کاروبار کا نام ہے‘‘۔

  اسی طرح اسلامی تہذیب و تمدن کا سرچشمہ بھی لہو و لعب نہیں بلکہ قرآن و سنت ہے۔ قرآن و سنت کے احکامات کے خلاف جو بھی عمل ہوگا وہ اسلامی نہیں ہوگا بلکہ غیر اسلامی ہوگا۔ متحدہ ہندستان میں بھی لفظ ثقافت برسوں اسلامی تہذیب و تمدن کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا، لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا اور حالات زمانہ بدلتے گئے، ثقافت کی حدود متعین کرنے میں ارباب فکر و نظر مختلف الجھنوں میں پڑتے گئے۔ مثلاً ممتاز حسن ایسا مفکر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ :

  ’’ثقافت کا شمار انتہائی مبہم اصطلاحات میں ہوتا ہے اور اکثر اس کا مفہوم غلط سمجھا جاتا ہے۔ ہم اس وسیع و عریض دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں ، آخر بحیثیت مسلمان کے ثقافت سے ہمیں کیا مراد لینی چاہئے۔ اس خاص مسئلے کو آج تک ہماری موجودہ ملکی نسل کے سامنے حتمی طور پر پیش نہیں کیا گیا۔

 کیا رقص و سرود ہماری ثقافت ہے؟ کیا تصویر کشی اور مجسمہ سازی ہماری ثقافت کا کوئی حصہ ہے؟ یا ہماری ثقافت کا مظہر ہیں ؟ ہمارا سادہ اور صحت مند طرز بود و باش۔ ہمارے ارفع و اعلیٰ خیالات جو ہماری نظم و نثر میں جھلکتے ہیں یا ہماری خطاطی کے نمونوں میں نظر آتے ہیں ؟ کیا گندھارا اور موہنجوڈارو و آرٹ کے بڑے خزانے ہماری ثقافت کا مظہر ہیں ‘‘۔

 جسٹس ایس۔ اے۔ رحمن کے ارشاد کے مطابق:

 ’’ثقافت، ادب اور آرٹ سے تعلق رکھنے والی ان سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں جن سے ہمارے خوش حال طبقوں کے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ثقافت ان لوگوں کی پوری زندگی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے جو ایک قوم کی حیثیت سے مل جل کر رہتے ہیں اور جن کو معاشرہ میں سرایت کرجانے والا ایک ایسا ہمہ گیر نقطہ نظر باہم متحد کر دیتا ہے جسے لوگ شعوری طور پر اپناتے یا خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں ‘‘۔ (امروز: 3دسمبر، 1967ء)

 بقول ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ:

 ’’کسی قوم کی ثقافت بنیادی طور پر اس کے مذہب کی تجسم ہوتی ہے‘‘۔ اس لئے اسلامی ثقافت کے تمام سرچشمے قرآن و حدیث سے پھوٹتے ہیں ۔ کتاب و سنت کے مطابق صحیح اسلامی زندگی ہی اسلامی ثقافت کا امتیازی نشان ہے اور اسلامی ثقافت کی روح وہ قومی روایات ہیں جو عہد رسالتؐ، عہد خلفائے راشدین، عہد صحابہ کرامؓ، عہد تابعین و تبع و تابعین کی یادگار ہیں ۔ اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے اور پورا عالم اس کے وطن کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے دوسری قوموں کی ثقافت کی طرح اسلامی ثقافت نہ ملکی آب و ہوا سے متاثر ہوتی ہے نہ وہ جغرافیائی حدود کے اندر محدود ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت چودہ سو سال ایک نہج پر چلی آرہی ہے۔ ا س کی بنیاد ناقابل تغیر اسلامی قانون پر رکھی گئی ہے، جس کا ہر مسلمان پابند ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتا ہو، مسلمان سوائے خدائے وحدہٗ لاشریک کے نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کی عبادت یا پرستش کرتا ہے۔ شخصیت پرستی، بت پرستی، تصویر کشی، مجسمہ سازی کے قریب نہیں جاتا نہ ہی عریانی و بے حیائی کا راستہ اختیار کرتا ہے،نہ راگ و رنگ پسند کرتا ہے اورنہ غلط روی یا جنسی انگیخت برداشت کرتا ہے۔ نہ وہ لہو و لعب یا خرافات و مکروہات کے قریب جاتا ہے بلکہ اعمال صالحہ، عمدگی معاملت، دیانتداری و خوش خلقی۔ انسانی ہمدردی اور خدمت خلق ایسے اوصاف حمیدہ سے فوراً پہچانا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہے اور یہی اسلامی ثقافت کے بنیادی مظہر ہیں ۔ باقی رہے فنون و ہنر، تعمیرات و تخلیقات وغیرہ یہ سب ہماری ثقافت کے جزوی مظاہر ہیں ‘‘۔

  تاریخ بتاتی ہے کہ رقص یا ناچ کی بنیاد سب سے پہلے یہودیوں نے ڈالی۔ ڈاکٹر مِرلین ایل لکھتا ہے:

 ’’تہوار کے دن تمام یہودی اپنے معبود سنہری بچھڑے کی قربانی دینے کیلئے جمع ہوگئے۔ پھر سب نے اس کے آگے سجدہ کیا۔ بعد ازاں سب نے مل کر اس بچھڑے کے ارد گرد ناچنا اور گانا شروع کر دیا‘‘ (بائبل :1-5)۔

امام ابن الحاج لکھتے ہیں :

 ’’سب سے پہلے جنھوں نے ناچنے اور جھومنے کو ایجاد کیا تھا وہ سامری اور اس کے ساتھی یہودی تھے۔ جب سامری نے ان کیلئے ایک بچھڑا تیار کیا جس سے ایک قسم کی آواز آتی تھی۔ وہ یہودی اس کے گرد ناچتے اور جھومتے تھے۔ بس یہ ناچنا اور جھومنا کفار اور ان یہودیوں کی رسم ہے جو بچھڑے کو پوجتے تھے‘‘۔ (مدخل الشرع: ص100، جلد 3)۔

  یہودیوں کی طرح ان کے ہم عقیدہ ہندو مذہب میں بھی گانا بجانا عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ محمد بن قاسم نے جب سر زمین ہند پر قدم رکھا تو یہاں کم و بیش ہر شہر میں ہندوؤں کے سنگیت ودیالے موجود تھے جن میں رقص و سرود کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ ناچ گانے کی رسم آہستہ آہستہ یہود و ہنود سے نصاریٰ میں پہنچی اور انھوں نے اسے اپنی ثقافت کا جزو اعظم بنالیا۔ حزب الشیطان کے ذریعے بڑھتے بڑھتے یہ رسم اسلامی دنیا میں بھی پھیل گئی، جس کے باعث اکثر اسلامی سلطنتوں پر زوال آیا۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں :

 ’’جتنی اسلامی سلطنتوں پر زوال آیا ہے ان میں اکثر کا باعث یہی تھا کہ وہ بادشاہ ناچ گانوں کی محفلوں میں شب و روز مصروف رہتے تھے‘‘۔

  اسی لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

  ’’مجھے دو احمق اور بیہودہ آوازوں سے منع کر دیا گیا ہے، ایک وہ آواز وجو لہو و لعب اور مزامیر یعنی گانے بجانے سے پیدا ہو اور دوسری وہ آواز جو بین کرتے وقت اور سینہ اور منہ پر پیٹنے سے پیدا ہو‘‘ (ترمذی، اغاشتہ اللہفان،137 (

 ایک اور حدیث میں ہے کہ’’جو آدمی گانے بجانے کا کام کرے اور دوسرا وہ جو اپنے گھر میں گانے بجانے کا اہتمام کرے۔ ان دونوں پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیں ، جس کا اثر سات پشتوں تک رہتا ہے‘‘۔

جب کوئی قوم کسی غیر ملک پر قابض ہوتی ہے تو وہاں اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے سب سے پہلے وہاں کے نصاب تعلیم کو بدل کر اس میں غلامانہ ذہنیت کا درس دینا شروع کرتی ہے تاکہ وہ پھر آزادی کے خواب دیکھنے کے قابل نہ رہے۔ یہی کچھ انگریز اپنے ڈیڑھ دو سو سالہ عہد میں کرتا رہا۔

 اس استعماری ثقافت نے اسلامی ذہنیت کا جنازہ نکال دیا اور اس ہزار سالہ ہندستانی تہذیب کا حلیہ بگاڑ دیا۔ مغربی تہذیب و ثقافت سرطان کی طرح پھیلنے اور بڑھنے لگی۔ تقسیم کے بعد ا س کے اثرات اور بھی نمایاں ہوگئے۔ یہاں کے ارباب اقتدار اور اونچے طبقہ نے اسلام کو قریب نہ آنے دیا؛ بلکہ ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اگر ہندو ماتا اور انگریز داتا کی خواہش کے مطابق دنیا کے نقشہ سے مٹ نہیں سکتا تو کم از کم اس میں اسلام پنپ نہ سکے۔

 ثقافتکی ترویج و ترقی کیلئے باقاعدہ ایک محکمہ تعمیر نو قائم کیا گیا۔ اس کے ماتحت ثقافتی ادارے اور آرٹ کونسلیں قائم کیں ۔ جن میں زن و مرد کو رقص و سرود کی تعلیم اور تیغ و سنان کی بجائے طاؤس و رباب کی تربیت دی جانے لگی۔ فن موسیقی کو نصاب میں شامل کردیا گیا۔ رقص و سرود کی سرکاری سطح پر سرپرستی کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ارباب غرض نے بھی آرٹ کونسلوں اور آرٹ سنٹرز کے نام پر رقص و سرود کی تربیت گاہیں کھول لیں ۔ سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے ورائٹی شو او رکلچر شو منعقد کئے جانے لگے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر طوائفوں کو زیادہ سے زیادہ پروگرام دیئے گئے۔ ان کی آواز ہر گھر میں پہنچائی جانے لگی۔ یہاں تک کہ ننھے منے بچوں کو ناچ گانے سکھانے کی تعلیم و تربیت کا فرض بھی ٹیلی ویژن کے ذریعہ ادا ہونے لگا۔

  دوسری طرف اشتراکیت نے اپنا زور صرف کرنا شروع کیا۔ ثقافت کے روپ میں اشتراکی ثقافت کا بیج بویا گیا ہے۔ محکم عقائد پر ثقافت کی آڑ میں ضرب لگائی گئی اور گمراہی، بے اعتقادی، خدا فراموشی، اخلاقی بے راہ روی پھیلائی جانے لگی۔ ان اغراض کیلئے وہ اکثر رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرکے نوجوان نسل کو جمع کرتے ہیں اور ساز و آہنگ کے ذریعے انھیں کبھی فیض کے الفاظ میں خدا بیزاری کا یوں سبق پڑھاتے ہیں  ؎

اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن … دیکھے ہیں ہم نے حوصلہ پروردگار کے

  اور کبھی جوشؔ کے الفاظ میں یوں جوش دلاتے  ؎

کر بھی دو معزول ان اربابِ جاہ کو … آسمانوں سے خدا کو اور زمین سے شاہ کو

 اور کہیں سبط حسن، فیض اور قاضی جاوید کی تحریروں میں ’’تہذیب‘‘ اور ’’ملکی تہذیب‘‘ کے نام پر علمی کتابیں لکھ کر ملکی ثقافت کے رشتے موہنجوڈارو کے تمدن یا مقامی ثقافتوں سے ملائے گئے۔ کہیں ویدانت اور ہندوانہ تصوف کو علاقائی ادب کے روپ میں اجاگر کرکے اسلامی ثقافت کے تانے بانے بنے گئے۔

 بہت سے لوگ اشتراکی ثقافت کے شکار، تبدیلی، عقائد و اعتقاد کے باوجود مسلمان کہلاتے ہیں ۔ اپنا نام بدلے بغیر اپنے مسلمان گھرانوں میں رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مراسم کی پابندی کرتے ہیں ۔ عام کفار اور ملحدین تو اپنے عقائد و عادات کے ذریعہ بآسانی پہچانے جاتے ہیں مگر ملحدانہ اور کافرانہ عقائد رکھنے والے نام کے مسلمانوں کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے جو زیادہ تر اپنے اسلامی ناموں سے مسلمان گھرانوں کے چشم و چراغ بنے ہوئے ہیں ۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    تہذیب درحقیقت انسانی رہن سہن اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے اس کے لیئے انگریزی کا لفظ سویلائزیشن استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ اخلاق کا سب سے بڑا مصدر مذہب ہوتا ہے اس لئے تہذیب پر مذہب سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔ ثقافت بہت متنوع چیز ہے جب کہ تہذیب اس قدر متنوع نہیں ہوتی ۔ اس کی جہات میں مذہب و اخلاق اور رہن سہن کے طور طریقے ہیں ۔ جب اسے رہن سہن کے طور طریقوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسے کلچر کے مفہوم میں بھی لیا جاتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔