اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے سال سے

محمد شاہنواز ندوی

مسلمانوں کی عبادتوں کا تعلق اسلامی مہینے اور ہجری کلینڈر سے ہے ، قمری سال کی بنا پر روزہ ،عید ،حج وغیرہ کسی مستقل موسم میں نہیں بلکہ ہر سال شمسی سال سے دس دن کی کمی کی بنا پر الگ الگ موسم اور فصل میں گردش کرتے رہتے ہیں اس طور پر کہ یہ چھتیس سال میں ایک چکر مکمل ہوجاتا ہے۔ یعنی اگر اس سال ماہ صیام کا پہلا روزہ 25 مئی  کوہوا تھا تو اگلے چھتیس سال بعد دوبارہ 25 مئی کو پہلا روزہ ہوگا۔ یہ مصلحت خداوندی ہے۔ قدرت کا اعلی نظام ہے۔ اس طرح کا تنوع خانق کائنات کا عظيم شاہکار ہے۔

آمد اسلام سے قبل قمری سال کاآغازمحرم سے ہی ہوتا تھا،اور عربی مہینوں کے نام اسی طرح موجود تھے جس طرح کہ ابھی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں رمضان المبارک کے مہینہ کا ذکر ہے۔ شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔

اسلامی سن کا آغاز امیر المومنین سیدنا عمر فاروق کے زمانےسے ہوا  ،جس کی بنیاد ہجرت کے سال کو بنایا گیا ہے۔ حالانکہ ہجرت کے علاوہ بہت ساری چیزیں تاریخ ساز تھیں جسے اسلامی سال کی یاد گار کے طور پر بنیاد بنائی جاسکتی تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہجرت کے سال کو اسلامی تقویم کا محور قرار دینا یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہجرت مدینہ در اصل اسلام کی زراعت کو سبزہ زار بنانے میں جو مقام رکھتی ہے اتنا کوئی دوسری چیز نہیں۔ قبل اس کے کہ اسلامی کلینڈر پر کچھ لکھا جائے سب سے پہلےہجرت کے پس منظر  پر ایک نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

مکی زندگی کے تیرہ سال نہایت ہی ابتلاء و آزمائش کے طور پر گزرے ہیں ۔ اس طویل مدت میں اسلام کی نشر واشاعت کے لئے حد سے زیادہ تکالیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ظلم کی کوئی ایسی شکل نہیں تھی جس کا استعمال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر نہیں کیا گیا تھا۔ ایک طرف مسلمانوں کی قلت تعداد اور دوسری طرف اقتصادی طور پر سب کے سب نہتے اور کمزور، ایسی صورتحال میں اسلام کی دولت سے مالامال ہونے نے کافروں کی نیندیں حرام کر دی۔ مکہ میں اب تک سیکڑوں خداوں کی عبادت کی جاتی تھیں ۔ وہیں آمد اسلام کی وجہ سے ان باطل خداوں کے پرستش میں سرد بازاری کی لہر دوڑ نے لگی۔ اسلام کی تعلیمات کے عام ہوتے ہی کافروں نے مسلمانوں کے خلاف زبردست مورچہ سنبھالنا شروع کیا، انہیں ستانے ہراساں اور پریشان کرنے کی ہر ممکن ترکیب اختیار کرنے لگے۔ کبھی عرب کے گرم و تپتی ہوئی ریت میں انہیں لٹاتےا تو کبھی پیٹھ پہ بڑے بڑے چٹان اور پتھر رکھ دے تے۔ تو کھبی اتنے کوڑے پرسائے جاتے کہ جسم لہولہان ہو جاتا لیکن پھر بھی ایمان کی دولت سےمالامال اور ایمان کی حلاوت سے شرشار ہونے کے بعد کافروں کے تمام ظلم و ستم کے پہاڑ ان کلمہ گو صحابہ کے لئے روئی کے گالوں سے کم وزنی معلوم ہوتا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر محنت و مشقت اور صحابہ کرام کی کد و کاوش کے بعد پورے تیرہ سال میں شجرہ اسلام اتنا تناور اور ثمرآور نظر نہیں آرہا تھا جتنا کہ ہونا چاہئے۔اسی بنا پر  مکہ میں دعوت و تبلیغ کے فریضہ انجام دینے کے بعد طائف کی سرزمین کی طرف روانہ ہوتے ہیں لیکن وہاں بھی مخالف صورتحال قائم رہنے کی وجہ ناامیدی ہی ہاتھ آئی ، بلکہ طائف کے سربراہوں نے تو ظلم کی حد پارکر دی ، اپنے گلی کے اوباش اور بدمعاش لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ بولنے کا حکم دیا۔ پھر کیا تھا ایک طرف ان دردندہ صفت انسان نما حیوانوں کا پتھر اور دوسری طرف رحمت اللعالمین کا جسم اطہر جو پتھروں کی چوٹ کھا کھا کر لہولہان ہوتا جارہا تھا۔ آپ کے جوتےخون سے پھر گئے۔ آپ پر ہوتا ہوا ظلم کو دیکھ کر فرشتے بھی مدد کرنے کو آسامان سے اتر آئے لیکن آپ نے صرف اتنا ہی کہا کہ یہ لوگ بھلے ہی ناسمجھ ہیں اللہ انہیں ہدایت دے۔ لیکن ان کی قوم کے لوگ ضرور اسلام کی دولت سے شرفیاب ہوں نگے۔

ظلم کی کہانی طول پکڑتی گئی لیکن مسلمانوں کی ہمت و شجاعت میں کھبی بھی نرمی و پستی نہیں آئی۔ مکہ کے سردار اپنی ہزارہا کوششوں کے باوجود صحابہ کرام کے دل سے اسلام کی محبت کو نہیں نکال سکے ، ان کے دلوں میں خدا کی محبت کی جو شمع روشن ہوئی تھی اس کی بتی گل نہ کرسکے۔ اب تک جو ابو جہل ،ابو لہب عتبہ اور شیبہ کی غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے وہ اسلام کی نعمت سے فیضیاب ہونے کے بعد اللہ کی غلامی میں آگئے ،اللہ تعالی کا نام لینا اتنا محبوب عمل بن چکا تھا کہ ہمیشہ ان کی زبانیں اللہ واحد اللہ واحد کے ورد سے تر رہتی تھی۔ ایک طرف کوڑے برسائے جاتے اور دوسری طرف اللہ اللہ کی پکار سے کافروں کے غصے اور بھڑک اٹھتے ، وہ کوڑا برسانے میں تھک جاتے اور یہ بے بس اور مجبور صحابہ اپنے خالق کو یاد کرنے میں مگن رہتے۔

کفار قریش کی آخری سازش:

کفار قریش اپنے تمام حربے اور سازش میں ناکام ہوتے جارہے تھے۔ مسلمانوں سے نفرت و عداوت کو عام کرنے کے لئے زبان و طاقت دونوں کا بھرپور استعمال کیا۔ اپنی زبان کے جادو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بارے میں ہجو بیانی اور گالی کلوج کی محفلیں سجانا شروع کیں ۔ حج کے زمانے میں چوراہوں اور نکڑوں میں چرب زبان افراد متعین کر دیتے  تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے خلاف ذہن سازی کرسکیں ۔ ان کے بارے میں منفی سوچ پیدا کرسکیں ۔ لیکن نتیجہ ہمیشہ الٹا ہی نظر آتاتھا۔ اب کافروں کی تمام ترکیب ناکام ثابت ہوچکی ہے۔ ہر تجرجہ غیر مفید ثابت ہورہا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت ایمانی میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ جو کافروں کے لئے اپنے وقت کا سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں اب ایک ہی صورت ہی تھی کہ نعوذ باللہ دعوت اسلام کے قائد، اسلامی تعلیمات کے معلم اول کو ہی ختم کردیا جائے۔ یہ موضوع اس وقت کا سب سے بڑا اور اہم موضوع تھا۔ چنانچہ اس ناپاک کوشش کو انجام دینے کے لئے ایک میٹنگ بلائی گئي۔ جس میں مکے کے تمام لوگوں نے شرکت کی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی کا سب سے بڑا باغی اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن شیطان رجیم بھی ایک بوڑھے شریف النفس کی شکل میں شریک مجلس ہوئے۔ ایکے بعد دیگرے لوگوں نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ کسی کی رائےپر بزرگ شیطان نے تصدیق کی مہر نہیں لگائی۔ اخیر میں جہالت کا سردار ابو جہل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی رائے پیش کی۔اور اس کی ترکیب یہ بتائی کہ ہر قبلیہ کا نوجوان اس ناپاک عمل شریک رہے گا اس طرح محمد صلی اللہ علیہ سلم تمام خاندانوں سے بدلہ نہیں لے سکیں نگے۔ شیطان بزرگ نے ابو جہل کی رائے کو آخری اور صحیح رائی قراد دیکر اس پر عمل در آمد کی بات کہی۔

مدینہ کی جانب ہجرت :

ایک طرف دشمنان اسلام کی جانب سے خاتم الرسول صلی اللہ علیہ سلم کے خاتمہ کی میٹنگ کی جاری ہے تو دوسری طرف حفیظ و علیم قادر مطلق کی جانب سے کافروں کی جملہ کارستانیوں سے اپنے حبیب کو باخبر اور حفاظت کے راستے بھی اختیار کرائے جارہے ہیں ۔ ادھر دشمنان اسلام کی تیاری زوروں پر ہے ادھر رشد و ہدایت کے پیامبر ہجرت کی تیاری میں مگن ہیں ۔ روانگی کو لیکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سواری حاضر خدمت ہے۔ رات کے سہ پہر کو رخت سفر باندھنا ہے، عربوں کے دستور کے مطابق جس گھر میں حریم ہائے حیات موجود ہو اس میں رات کو حملہ نہیں بولتے ہیں ۔ دشمنوں نے دولت کدہ رسول کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ سب کے سب مسلح اور ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔ صبح کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ادھر حضرت علی کو لیکر مہاجر مدینہ ماہ طیبہ لوگوں کی امانت واپس کرنے کے تلقین کر رہے ہیں ۔ حضرت علی کو امانت سپرد کرنے کے بعد سفر کا سفر ہجرت کا آغاز ہورہا ہے۔ ایک مشت مٹی لیکر فاغشیانہم وھم لایبصرون کی آیت پڑھ کر قاتلوں کے سر پہ پھینکتے ہیں ، سب کے سب مدہوشی کے عالم ہیں ۔ خواب غفلت میں  مست ہیں ۔ اور آپ سب کے سروں پو مٹی ڈالتے ہوئے بڑی آسانی اور خوداعتمادی کے ساتھ مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے۔

مدینہ کی جانب ہجرت سے اسلام کی کھیتی لہلہا اٹھی ، دعوت و تبلیغ کے لئے یہاں مٹی بہت ہی زیادہ زر خیز ثابت ہوئی۔ اب تک جو انقلاب مکی زندگی  کے تیرہ سال میں نہیں ہوسکا تھا وہ صرف مدینہ کے دس سالہ زندگی میں عالمی پیمانہ پر اسلامی انقلاب تھا۔ اہل مدینہ نے جس انداز سے مہاجر ین کی قدر کی پوری دنیا میں ایک مثال بن کر رہ گئ۔ ساتھ ہی ان کی اسلام سے دلچسپی اور دل لگی نے سخت قسم کے غزوات کو فتح کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوئی۔ اسی محبت کی بنا پر مدینہ کے باشندوں کو انصار کا لقب ملا ، یہی وہ انصاری صحابہ تھے جنہو ں نے آپ کی ہر بات کو دل و جان سے تسلیم کیا۔ مہاجرین کی حتی الامکان مدد کی۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد اسلام کو ایک نئی زندگی ملی۔

ماہ محرم عربوں کی نظر میں :

چونکہ عربوں کے یہاں عربی کے تمام مہینوں  کا وجود پہلے ہی سے تھا ، اور محرم الحرام  سال کا پہلا مہینہ تھا ،  اہلِ عرب اگرچہ چار کے عدد کا لحاظ کرتے تھے مگر قدرتی ترتیب کا پاس نہیں کرتے تھے چونکہ ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم تین مہینے پے درپے حرمت والے ممنوع القتال پڑتے تھے اس سہ ماہی وقفہ میں اکثر ان کے خورد ونوش کا سامان ختم ہوجاتا تھا خاص کر صحرا وجنگل میں بسنے والے منتشر بدووں کے قبائل جن کا پیشہ ہی لوٹ مار تھا پھر وہ قبائل عرب بھی پریشان رہتے تھے جن کی عادت ہی دوسرے قبیلوں سے جنگ تھی۔ لہٰذا ان سب نے یہ ترکیب نکالی کہ حرمت والے مہینوں میں تقدیم و تاخیر کرنے لگے محرم کو موخر کردیتے تھے اس سال پہلے صفر ہوگا اس کے بعد محرم کبھی ذی الحجہ و ذیقعدہ وغیرہ کو ختم کرکے کوئی اور مہینہ بنادیتے تھے تاکہ لوٹ مار آسان وحلال ہوجائے اسی کو قرآن پاک نے اِنَّما النسْیٴُ زیادةٌ فی الکفر سے تعبیر کیا ہے۔

صاحب تفسیر جلالین انما النسیٴ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

ای التاخیرُ لحرمةِ شہرٍ الی آخر کما کانت الجاہلیة تفعلہ من تاخیر حرمة المحرم اذا اہل وہم فی القتال الی صفر.

یعنی ایک مہینہ کی حرمت کو دوسرے مہینہ کی طرف موخر کردینا جیساکہ دور جاہلیت کے لوگ محرم کی حرمت کو چاند دیکھنے کے صفر تک موخر کردیتے تھے اس وقت جب کہ وہ جنگ کررہے ہوتے تھے ”اور ابھی ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ہوتے تھے۔“

اسی کو شرح المواہب کے مولف نے اپنی اس عبارت میں نقل کیا ہے:

ذلک اَنَّہم کانوا یستحلون القتال فی المحرم لطول مدة التحریم بتوالی ثلاثةِ اشہرٍ ثم یحرمون صفر مکانہ. (از حاشیہ جلالین)

اس لئے کہ عرب والے محرم میں قتال کو حلال کرلیتے تھے۔ تحریم کی مدت کی طوالت کے پیش نظر پے درپے تین مہینوں کے آنے سے پھر اس کی جگہ صفر کو حرام کرلیتے تھے۔

اس تقدیم و تاخیر کے سبب ازل سے جو قدرتی ترتیب قائم چلی آرہی تھی بگڑگئی تھی جس سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع فرمایا تو آپ نے اپنے خطبہ میں پوچھا تھا کہ یہ کونسا دن اور کونسا مہینہ ہے صحابہ خاموش رہے کہ شاید کوئی تبدیلی کا اعلان ہوگا لیکن جب آنحضور نے کہا یہ یوم نحر نہیں تو صحابہ نے عرض کیا بے شک پھر آپ نے فرمایا کیا یہ ماہ ذی الحجہ نہیں ہے تو صحابہ نے عرض کیا بے شک اس کے بعد رسول خدا نے اپنا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ

امام بخاری اپنی صحیح میں ابوبکرہ کی روایت لائے ہیں کہ آپٖﷺ نے فرمایا:

الزمان قد استدار کهیئة یوم خلق السماوات والأرض، السنة اثنا عشر شهرًا منها أربعة حرم، ثلاثة متوالیات: ذوالقعدة ، وذو الحجة والمحرم، ورجب، مضر الذي بین جمادی وشعبان» (بخاری:۴۴۰۶)

زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے کے ہیں ۔ تین پے درپے یعنی ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب،مضر(قبیلے کا) جو جمادی الآخرۃ اور شعبان کے درمیان ہے۔ (الرحیق المختوم:۷۳۷)

ہجری سن کا آغاز :

سنہ ہجری کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس کے متعلق علامہ شبلی نعمانی) الفاروق میں یوں رقم طراز ہیں :
21ھ میں حضرت عمرؓ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی، جس پر صرف شعبان کا لفظ تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ کیونکر معلوم ہو کہ گذشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ؟ اسی وقت مجلس شوریٰ طلب کی گئی او رہجری تقویم کے مختلف پہلو زیربحث آئے جن میں سے ایک بنیادی پہلو یہ بھی تھاکہ کون سے واقعہ سے سن کا آغاز ہو۔ حضرت علیؓ نے ہجرت نبوی کی رائے دی او راس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ حضور اکرمﷺ نے 8ربیع الاوّل کو ہجرت فرمائی تھی۔ چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا دو مہینے 8دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سن ہجری قائم کیا گیا۔

سن ہجری کی ابتداء کے متعلق قاضی سلیمان منصور پوری صاحب”رحمۃ للعالمین” علامہ شبلی نعمانی سے کچھ اختلاف رکھتےہیں ۔فرماتےہیں :اسلام میں سن ہجری کا استعمال حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت میں جاری ہوا۔ جمعرات 30 جمادی الثانی 17 ہجری مطابق 12؍9 جولائی 638ء حضرت علیؓ کے مشورہ سے سن ہجری کا شمارواقعہ ہجرت سے کیا گیا او رحضرت عثمان ؓ کے مشورہ سے محرم کو حسب دستور پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔

لہٰذا اسلام کے بعد قیامت تک یہی ترتیب رہے گی اور اسی ترتیب سے محرم الحرام اسلامی کلینڈر کاپہلا مہینہ ہے اسی نئے سال کا ہم والہانہ استقبال کررہے ہیں یہ سال نو اللہ کرے کہ امت محمدیہ کی سربلندی اور دینی بیداری کا سال ہو۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    سال اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتے

    قدیم زمانے سے انسانوں نے موسمی تغیرات کا مطالعہ کر کے سال کو برابر بارہ اکائیوں میں تقسیم کر دیا تھا. تاہم ماضی اور مستقبل کے واقعات کا تعین کرنے کے لیے کسی نہ کسی نقطہ آغاز کی ضرورت رہتی تھی اس لیے مختلف علاقوں اور زمانوں میں مختلف نقطہ ہائے آغاز رائج رہے. شمسی کیلنڈر موسموں سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور زرعی شعبے سے وابستہ ہے ,اس لئے دنیا کے اکثر حصوں میں یہی رائج رہا لیکن اس کا آغاز و اختتام جاننے کی ایسی واضح علامات نہیں ہیں جیسی قمری کیلنڈر کی ہیں اس لیے عربوں نے قمری کیلنڈر اختیار کر لیا البتہ اسے موسموں کے مطابق کرنے کے لیے اس میں ردوبدل کرتے رہتے تھے جسے قرآن نے منع کر دیا. عرب میں یہی کیلنڈر رائج تھا اس لیے مسلمانوں نے اسے اسلامی کیلنڈر کہنا شروع کر دیا ورنہ اسلامی عبادات میں سے کچھ عبادات سورج اور کچھ چاند سے وابستہ ہیں
    مثلاً نمازوں کے اوقات کا تعین، روزے کی ابتدا اور انتہا کا تعین، قیام عرفہ کے وقت کا تعین سورج سے اور رمضان اور حج کے مہینوں اور تاریخوں کا تعین چاند سے ہوتا ہے.
    شمسی کیلنڈر کو غیر اسلامی اور قمری کیلنڈر کو اسلامی سمجھنا ایک غیر علمی رویہ ہے.

تبصرے بند ہیں۔