اسلام اور تہذیبِ جنس 

مولانا سلطان احمد اصلاحی
جنسی انار کی اور بے راہ روی معاصردنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہے، جس کی آفت اور آنچ کو وطن عزیزمیں بھی اسی طرح محسوس کیا جاسکتاہے اور جس کے پیداکردہ مسائل سے معاصر دنیا کی غیر مسلم انسانیت بھی جلدسے جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے جوزندگی میں صحیح عقائد اور صحیح نظام حیات سے محروم ہے اور جس کے پاس توحید اور آخرت کے نکھرے ہوئے تصورات کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ جنس (Sex)کے سلسلے میں بے لگام آزادی اور اباحیت پسندی (Permissiveness)کے قائل امریکہ اور یورپ بھی اس کے پیدا کر دہ مسائل سے کم پریشان نہیں ہیں ۔ اس ترقی یافتہ دنیا میں کنواری ماؤں اور تنہا والدین ( Single Parents)کا انتہائی سنگین مسئلہ ہے جو اس کے وجود کے لئے خطرہ ہے اور اس کے روبروکہا جاسکتاہے کہ آج کا روشن خیال یورپ اپنی بقاکی جنگ لڑرہاہے ۔ جنسی آوارگی نے آج یورپ اور امریکہ اور ان کی راہ چلنے والے روس ، جاپان اور سنگاپور جیسے ملکوں کے لئے آبادی کے بحران کا مسئلہ پیدا کردیاہے۔ اس آوارگی کے سبب ان ملکوں کی آبادیاں یا تو گھٹ رہی ہیں یا ایک خاص سطح پر آکر ٹھہری ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے ان ملکوں میں آبادی بڑھانے کی مختلف ذرائع سے ترغیب اور تشجیع کی جارہی ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یورپ، امریکہ اور ان کے یہ ہم مشرب ممالک اس کے پیداکردہ مسائل سے کس طرح عہدہ بر آہوں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بات خود ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے ۔ اس سے ہٹ کر ہمارے ملک اور اس سے باہر جو لوگ مذہب پسندہیں، اور زندگی میں شرافت ، تہذیب اور ا خلاق کے قائل ہیں ، ان کے یہاںآج کے دور کی جنسی بے راہ روی پر روک لگانے کے سلسلے میں سارا زور عریانیت وفحاشی، عریاں فلموں، عریاں اشتہارات ، گندی تصویروں اور فحش لٹریچر کے خاتمہ وغیرہ پر دیا جاتاہے ۔ اس میں شک نہیں آج کے دور کی جنسی انارکی اور جنسی بے راہ روی سے عہدہ بر آہونے کی یہ بڑی ا ہم تدبیریں ہیں۔ اسلام نے ان کو بڑی اہمیت دی ہے ۔ لیکن ان سب سے پہلے اور ان سب سے بڑھ کروہ مرض کی جڑکو پکڑتااور اس کے علاج کی کوشش کرتاہے ۔ اس پس منظر میں آج کے دور میں جنسی انارکی کے حملہ سے بچاؤ کے لئے اسلام جلدشادیوں کی ترغیب کا اپنا نسخۂ کیمیاپیش کرتاہے ۔
جلد شادیوں کی ترغیب
قرآن مجید میں سورۂ نور ’تہذیبِ جنس‘ کی سورہ ہے ۔ بقرہ، نساء، مائدہ، احزاب، طلاق اور تحریم اس میں اس کی معاون ہیں ۔ اس سورہ کا آغاز زنا اور تہمتِ زنا کی سخت سزاکے بیان سے ہواہے ۔ معاشرہ میں بدکاری اور بے حیائی کے اسباب و محرکات پر روک ، اجنبی گھروں میں دا خلہ کی ممانعت ، مردوں اور عورتوں کو ا پنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ، ساتر لباس کی تلقین اور آخر میں پردے کے احکام کی تفصیل ہے ۔ اور ان کے درمیان میں وہ دستوری آیتِ کریمہ ہے جس میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو جلد شادیوں کا حکم دیاگیاہے اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کو اس کی طرف متوجہ کیاگیاہے کہ وہ اپنے درمیان کسی مرد و عورت اور لڑکے لڑکی کو بغیر نکاح کے نہ رہنے دیں ۔ اس ترتیب کی یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ اگرسماج میں مردوں اور عورتوں کی بروقت شادیوں کا اہتمام اور اس کی تحریک نہ رہے تو اس کو پاک باز اور عفت مآب بنانے کی اس سے پہلے اور بعد کی جو تدابیر ہیں وہ بے اثر رہ جائیں گی اور سماج اور معاشرے پر اس کے خا طر خواہ نتائج ظاہر نہ ہوسکیں گے :
وَاَنْکِحُوا الْاَیَامیٰ مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمآءِ کُمْط اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرآءَ یُغْنِہِمِ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ . (نور:32)

اور (اے مسلمانو!) تم میں سے جو (مردو عورت) بے نکاح کے ہوں ، اسی طرح تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جونیک ہوں ان کا نکاح کرانے میں دیر مت کرو۔ اگریہ محتاج ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے ان کو مال دار کردے گا۔ اور اللہ بڑی کشادگی والا، علم والا ہے ۔
اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ قابلِ توجہ اور معانی کا مخزن ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اس میں غیر شادی شدہ مسلمان مرد وں اور عورتوں کو اپنا نکاح خود کرنے کا نہیں، بلکہ ان کے اولیاء اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کو ان کا نکاح کرانے کاحکم ہے ۔ آیت کریمہ میں’وَانکِحُوْا‘امرکا جمع کا صیغہ ہے ۔ اس کا مصدر ’انکاح‘ ہے، اس کے معنی نکاح کرانے کے ہیں۔ بسا اوقات شادی کے ضرورت مند لڑکے لڑکی اور مرد وعورت کو اپنی اس ضرورت کے اظہار میں تکلف ہوتاہے ۔ اس پس منظر میں نکاح کرنے کے بجائے نکاح کرانے کا یہ حکم بہت معنی خیز ہے، جس کا مطلب ہے کہ لڑکے یا لڑکی کے باپ، بھائی اور دیگر اولیاء، اس کے ساتھ ہی معاشرے کے تمام ذمہ دار افراد کا فرض ہے کہ وہ خود نگاہ رکھیں، جس سے سماج اور معاشرے کا کوئی فرد ضرورت کے باوجود نکاح ہونے سے نہ رہ جائے ۔ اس طرح اس کا خطاب لڑکی کی نسبت سے اس کے اولیاء: باپ ، دادا، بھائی اور چچا وغیرہ 1؂ کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ معاشرے کے کسی بھی ذمہ دار فرد کی طرف سے اگر یہ نکاح کردیا جائے تو اپنی شرطوں کی ادائیگی کے ساتھ یہ نافذاور درست ہوگا۔ امام ابو بکر حصاص رازی حنفیؒ (م370ھ) اس سلسلے میں اسی تعمیم کے قائل ہیں اور یہی بات راجح، درست اور مصالح سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے :
ولکن دلالۃ الآیۃ واضحۃ فی وقوع العقد الموقوف اذلم یخصص بذٰلک الاولیاء دون غیرہم وکل احد من الناس مندوب الٰی تزویج الایامیٰ المحتاجین الی النکاح 2؂

لیکن آیت کی دلالت اس کے سلسلے میں واضح ہے کہ عقد نکاح جو (ولی کی اجازت پر) موقوف ہو وہ درست ہوجائے گا۔ اس لیے کہ آیت کریمہ میں اس مقصد سے اولیاء کی تخصیص نہیں کی گئی ہے کہ یہ کام بس انہی سے ہوسکتاہے، دوسروں کے ذریعہ نہیں ہوسکتا ۔ اس کے بجائے ہر شخص اور ہر فر د کے لیے مندوب و مستحسن ہے کہ جو لوگ بے نکاح کے ہوں اور ان کو اس کی ضرورت ہو وہ ا ن کے نکاح کی فکر کرے اور اس کی طرف متوجہ ہو ۔
آگے وہ اسی کے سلسلے میں مزید فرماتے ہیں :
لان الآیۃ لم تخص الاولیاء بہٰذا الامردون غیرہم، وعمومہ یقتضی ترغیب سائر الناس فی العقد علی الایامیٰ 3؂

اس لیے کہ آیت کریمہ میں اولیاء کی تخصیص نہیں کی گئی ہے کہ یہ کام بس وہی کرسکتے ہیں ، دوسرے نہیں کرسکتے۔ اس کے بجائے آیت کا عموم اس کا تقاضا کرتاہے کہ بے نکاحوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کرنے میں تمام لوگوں کو دلچسپی لینی چاہئے ۔
معلوم ہے کہ اسلامی شریعت میں بالغ مسلمان لڑکا اور مرد اپنی شادی کے معاملے میں آزاد اور خود مختار ہیں اور اپنے نکاح کے معاملے میں وہ باپ بھائی کی اجازت اور منظوری کے پابند نہیں ہیں ۔ شریعت میں اس کی پابندی اور ضرورت اپنی تفصیلات کے ساتھ صرف لڑکیوں اور عورتوں کے لیے ہے ۔ لیکن آیت کریمہ کا یہ اندازبیان بتاتاہے کہ باپ بھائی کی قانونی ذمہ داری نہ ہوتے ہوئے بھی ان کے ساتھ معاشرے کے تمام ذمہ دار افراد کو اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ غیرشادی شدہ لڑکیوں ا ورعورتوں کی طرح کوئی لڑکا اور مرد بھی ضرورت کے ہوتے ہوئے بغیر شادی اور نکاح کے نہ رہ جائے ۔
دوسرا توجہ طلب لفظ زیر نظر آیت کریمہ میں ’ایامیٰ‘ کا ہے، جو ’اَیّم‘ کی جمع ہے۔ اس کے معنٰی ہیں وہ مرد اور عورت جن کی شادی نہ ہو ، قطع نظر اس کے کہ وہ کنوارے ہوں یا شوہر آشنا اور بیوی چشیدہ 4؂ دوسرے لفظوں میں اس سے مراد وہ عورت ہے جس کا شوہر نہ ہو اور وہ مرد ہے جس کی بیوی نہ ہو 5؂
لیکن ماہرین لغت وادب ابو عمرو جاحظ اور کسائی وغیرہ کے مطابق اس لفظ کا غالب استعمال ا س عورت کے لیے ہے جس کا شوہر نہ ہو، بلا لحاظ اس کے کہ وہ کنواری ہے یا شوہردیدہ ۔
اس سے ضمناً آیتِ زیر نظر کے حوالہ سے نکا حِ بیوگان کی پسندیدگی کا ثبوت فراہم ہوتاہے۔ جو خاص طورپر ہمارے عزیز وطن اور اس سے آگے پورے برصغیر ہند کا ایک اہم سماجی مسئلہ رہا ہے ۔ طلاق پاجانے یا شوہر کے انتقال کرجانے کی صورت میں غیر مسلم عورت کی طرح مسلمان عورت کا بھی دوسرا نکاح بہت مشکل تھا ۔ چنانچہ اس کے خلاف ماضی میں ہمارے علماء و مصلحین کی طرف سے باقاعدہ نکا ح بیوگان کی تحریک چلائی گئی ۔ مسلمان معاشرے میں آج بھی اس کا اثر کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے ۔ اور ہمیشہ کی طرح زیر بحث آیت کریمہ آج بھی مسلمانوں کو اس پہلو سے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ مرد کی طرح عورت کا کسی بھی حالت میں بغیر نکاح کے رہنا شیطان کو ا پنے اوپر جبری کرنے کے مترادف ہے ۔ اسلام دنیا میں ’تہذیب جنس‘ کی جو مہم چلانا چاہتاہے اور جنس کے لائے ہوئے فتنوں سے دنیا اور انسانیت کو بچانا چاہتاہے ، بغیر شادی کے مرداور عورت کا جلد اور وقت پر نکاح اس کی خشتِ اول ہے ۔ اگر یہ اینٹ درست نہ بیٹھ سکی تو بعد کے کسی مرحلے میں اس کی اس کجی کو درست کرنا آسان نہ ہوگا۔ ماضی قریب میں ہندوبرادرانِ وطن کی ناہموار معاشرت کا یہ سنگین ترین مسئلہ رہاہے ۔ ہندوسماج کم سن بیواؤں کی ایک قابل لحاظ تعداد کے سامنے آجانے کے نتیجے میں ہی گذشتہ عیسوی صدی کی پہلی تہائی میں بعض ہندو مصلحین کی طرف سے برصغیر ہندمیں کم سنی کی شادی کے خلاف تحریک چلائی گئی اور آگے کے مرحلہ میں باقاعدہ قانون سازی کے ذریعہ اس کی ممانعت کی گئی اور لڑکے اور لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر کا باضابطہ تعین کیاگیا 8؂۔ قرآن کی صرف یہ ایک آیت کریمہ ہندو قوم کو اس کی اس مصیبت سے نجات دلاسکتی ہے، لیکن افسوس کہ برادران وطن کا ایک طبقہ بدقسمتی سے اللہ کی آخری کتاب سے فائدہ ا ٹھانے کے بجائے اس میں ترمیم اور تنسیخ کا مطالبہ کرتاہے ۔

آزاد مردوں اور عورتوں کے ساتھ نیک غلاموں اور باندیوں کی شادی کا حکم
یہاں تک حکم آزاد مردوں اور عورتوں سے متعلق تھا ۔ آگے اسی طرح نیک غلاموں اور باندیوں کے نکا ح کی ترغیب ہے ۔ زمانۂ نزولِ قرآن کے وقت دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح عرب میں بھی غلامی کا رواج تھا۔ غلام مرد، عورت اپنے آقا اور مالکہ کی ملکیت ہو تے تھے ، اور ان کی مرضی ا ور اجازت کے بغیر دوسرے تمام کاموں کی طرح وہ اپنی شادی بھی خود سے نہیں کرسکتے تھے ۔ اس پس منظر میں ان کے ما لکوں کو متوجہ کیاگیاکہ وہ اپنے بیٹوں بیٹیوں کی طرح اپنے غلاموں اور باند یوں کی شادی سے غفلت نہ برتیں ۔ اور ضرورت کے تقاضے سے آ زاد مردوں اور عورتوں کی طرح ان کی بھی جلد اور بروقت شادی کردی جائے :
وَاَنْکِحُوا الْاَیَامیٰ مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمآءِ کُمْط. (نور:32)

اور (اے مسلمانو!) تم میں سے جو (مردو عورت) بے نکاح کے ہوں ، اسی طرح تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جونیک ہوں تم ان کا نکاح کرانے میں دیر مت کرو۔
اس موقع پر غلاموں اور باندیوں کے سلسلے میں جو ’نیکوکاری‘ کی شرط لگائی گئی ہے : وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادکُمْ وَاِمآءِکُمْ ط ، اس کی توجیہ میں علامہ زمخشریؒ (م538ھ) نے اپنے مخصوص انداز میں ایک بات یہ کہی ہے :
4164شفقون علیہم وینزلونہم منزلۃ الاولاد فی الاثرۃ والمودۃ فکانوا مظنۃ للتوصیۃ بشأنہم والاہتمام بہم وتقبل الوصیۃ فیہم 9؂

لیے بھی کہ غلاموں (اور باندیوں) میں سے جو نیک اور صالح ہوتے ہیں انہی پر ان کے آقا مہر بان ہوتے ہیں اور اپنائیت اور محبت کے معاملے میں ان سے اولاد جیسا برتاؤ کرتے ہیں ۔ چناں چہ ان کو اپنے کسی معاملے میں تائید اور سفارش کی ضرورت ہوتوسب سے پہلے نظر انہی کی طرف جاتی ہے اور وہ اس کا خیال بھی رکھتے ہیں ۔ اور وہی ان کے معاملے میں وصیت قبول کرنے کے بھی حق دار ہوتے ہیں ۔
دوسری توجیہ حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلویؒ (م 1230ھ) کی ہے کہ یہاں یہ شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ غلام اور باندی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہ ہوجائیں اور اپنے مالکوں کا کام ہی کرنا نہ چھوڑدیں:
’اور جو نیک ہوں لونڈی غلام یعنی بیاہ دینے سے مغرور نہ ہوجاویں کہ تمہارا کام چھوڑ دیں، 10؂
ہمارے نزدیک یہ دونوں ہی تا ویلیں کم زور ہیں۔ اس موقع پرغلاموں اور باندیوں کے ساتھ نیکوکار ی کی صفت ’ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمآءِکُمْ ‘ کا بیان ان کے آقاؤں اور ما لکوں کو ان کے نکاح کی ترغیب دینے اور معاشرے کے آزاد مر دوں اور عورتوں کو بھی ان کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہے ۔ اور اس لحاظ سے سورۂ نور کی یہ آیت کریمہ سورۂ نساء کی آیت ذیل کے بالکل ہم معنی اور ہم رنگ ہے 11؂ جس کی مزید تفصیل آگے آتی ہے :
وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِمَّامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِط الخ
(نساء:25)

اور تم میں سے جس کو استطاعت نہ ہو کہ وہ آزادمسلمان عورتوں سے شادی کرسکے تو تمہاری زیر ملکیت جو جوان مسلمان باندیاں ہیں (وہ ان سے شادی کرلے)
جس طرح سورۂ نساء کی اس آیت کریمہ میں آزاد عورتوں سے شادی کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں باندیوں سے شادی کی ترغیب دی ہے اور اس کے لیے ان کی جوانی اور ایمان کی دوگونہ صفات کا حوالہ دیاہے ۔ کسی صاحب ایمان مرد کے لیے اپنی شریک حیات کے سلسلے میں ان دونوں خوبیوں کے بعد کسی تیسری چیز کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے ؟ اسی طرح سورۂ نور کی زیرِ نظر آیت کریمہ میں آقاؤں اور مالکوں کو اپنے غلاموں اور باندیوں کی شادی کے سلسلے میں ان کی ’نیکی اور صالحیت ‘کی سب سے بڑی صفت کا حوالہ دیا ہے کہ اس کے بعد ان کو دوسری چیز اور کیا درکار ہے جو شادی کے معاملے میں ان کے ساتھ اپنی اولاد جیسا معاملہ روانہ رکھاجائے ۔ اسی طرح اپنے غلام اور باندی کی شادی کا اختیار ظاہر ہے اس کے آقا اور مالک کو ہی ہوسکتاہے ، لیکن اوپر آزاد مردوں اور عورتوں کی شادی کے سلسلے میں ان کے اولیاء سے آگے جو معاشرے کے تمام ذمہ دار افراد کی تعمیم ہے ، اس کے پیش نظر یہاں بھی کہاجاسکتاہے کہ اپنے غلام اور باندی کی شادی کا اختیار توبلا شبہ اس کے آقا اور مالک کا ہی ہوگا، لیکن اس میں دلچسپی پورے مسلمان معاشرے کو لینی چاہیے اور سماج اور معاشرے کو جنسی فساد اور جنسی بگاڑ سے بچانے کے لیے باشعور اور خدا ترس آقا سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس کی بات پر کان دھرے گا اور آزاد مردوں اور عورتوں کی طرح اُس وقت کے سماج کا یہ مظلوم اور مقہور طبقہ وقت پر اپنی شادی اور نکاح کے حق سے محروم نہیں رہے گا۔ 12؂ مشہور صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اپنے جوان غلاموں عکرمہ اور کریب وغیرہ کو اپنے پاس جمع کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اگر تم شادی کرنا چاہو تو میں تمہاری شادی کردوں، اس لیے کہ بندہ اگر زناکاری کا ارتکاب کرلیتاہے تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتاہے : 13؂ اس کے ساتھ ہی زیر نظر آیت کریمہ (نور: 132) کے حوالہ سے صراحت ہے کہ ضرورت کے تقاضے سے آقاغلام اور باندی کی مرضی کے بغیر بھی ان کا نکاح کرسکتااور ان کو شادی کے بندھن میں باندھ سکتاہے ۔ 14؂
اُس وقت کے غلاوموں اور باندیوں سے بڑھ کر آج دنیا کا کوئی دوسرا طبقہپس ماندہ ، غریب، بے بس اور مجبور نہیں ہے ۔ توجب قرآن نے اُس وقت کے حالات میں بروقت شادی کے سلسلے میں ان کا اس درجہ لحاظ رکھا تو آج کے حالات میں آزاد سماج کے جن مردوں اور عورتوں کے حالات ان سے مشابہ اور قریب ہوں ، اللہ کی آخری کتاب کی ترجیح اور پسند ان کے سلسلے میں اس سے مختلف نہیں ہوسکتی ۔ جب کہ آج صورت حال یہ ہے کہ سماج اور معاشرے میں شادی اور نکاح مشکل ترین چیز بن کررہ گئی ہے ۔ ترقی یافتہ یورپ بڑی حد تک شادی کے بندھن سے آزاد ہوکر بدکاری، بے حیائی اور آزادانہ جنسی تعلقات کے ذریعہ اپنی اس ضرورت کی تکمیل کررہاہے ۔ مشرق جو عام طور پر شادی کے ضابطہ کا قائل ہے اس نے مختلف رکاوٹیں کھڑی کرکے اسے دشوار سے دشوار تر بنارکھا ہے۔ چنانچہ آج ہندوستان جیسی ترقی پذیر دنیا میں نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ شادی سے مایوس ہے ۔ مختلف وجوہ سے جس شخص کا معاشی مستقبل غیر یقینی ہو وہ شادی کی بڑی مشکل ہی سے ہمت کرپاتاہے ۔ غیر مسلم برادران وطن سے ہٹ کر مسلمانوں کے بھی ایک قابل لحاظ طبقے میں اپنی اولاد کے سلسلے میں غیر معمولی بے حسی پائی جاتی ہے ۔ شہر کی پاش کالونیوں میں ان کو شان دار مکان ، گھوڑے گاڑی اور اپنے بینک بیلنس کی تو بہت فکر ہوتی ہے ۔ نہیں فکر ہو تی ہے تو صرف اپنے جوان لڑکے اور لڑکی کی شادی کی جو ان کی ترجیحات میں فہرست کے سب سے آخری کنارے پر ہوتی ہے ۔ معاشرے کی جنسی طہارت اور پاکیزگی پر اس صورت حال کا اثر پڑنا فطری ہے ۔ دین دار اور ذمہ دار مسلمان والدین سے اس کی طرف فوری توجہ کی امید کی جاتی ہے۔

نکاح کی شرعی حیثیت 
زیرِ نظر آیتِ کریمہ میں اولیاء یا پورے معاشرے کو بے نکاح لوگوں کی شادی کرانے کا جو حکم ہے ، اس کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ واجب ہے؟ مندوب و مستحسن ہے؟ یا صرف مباح اور جائز ہے؟ اس کی بابت کہاگیاہے کہ عام حالات میں یہ مباح اورجائز اور مندوب ومستحسن ہے ۔ مختلف ائمہ کی اس سلسلے میں مختلف رائیں ہیں، لیکن جب اس کا شدت سے تقاضا اور طبیعت پر اس کا غیر معمولی غلبہ ہو تو اس صورت میں بلا شبہ یہ و اجب اور حتمی ہے اور دوسری ہر چیز پر مقدم کرکے مسلمان مرد وعورت کو اپنے کو اس کے بندھن میں باندھ لینا چاہئیے ۔ اس مسئلہ میں قاضی ابن عربی مالکیؒ کی گفتگو بہت متوازن ہے اور اس بحث میں اس کو قول فیصل کا درجہ دیا جاسکتاہے ۔ پہلے تو وہ اس کی حیثیت کے متعلق اوپر کے تین سوالات قائم کرتے ہیں :
واختلف فی و جوبہ أوندبہ أواباحتہ علی ثلاثۃ أقوال 15؂

اس کے سلسلے میں اختلاف ہے کہ یہ حکم واجب ہے ، مندوب و مستحسن ہے یا صرف جائز ہے ؟ اس کے متعلق تین قول ہیں ۔
آگے اس کی تفصیل کرتے ہیں:

وقال علماؤ نا یختلف الحکم فی ذٰلک باختلاف حال المرء من خوفہ العنت وعدم صبرہ ومن قوتہ علی الصبروزوال خشیۃ العنت عنہ واذاخاف الہلاک فی الدین اوالدنیا اوفیہما فا النکاح حتم . 16؂

ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ اس کے سلسلے میں آدمی کی مختلف حالتوں کے لحاظ اِس کا حکم بھی اسی طرح مختلف ہوگا۔ اس کو تنگی میں پڑنے کا اندیشہ ہے ، وہ صبر نہیں کرسکتاہے ، اس کو صبر کرنے کی صلاحیت ہے۔ یا یہ کہ تنگی کا اندیشہ ختم ہو گیا۔ البتہ اگر اس کو اس کا اندیشہ ہو کہ دین یا دنیا یا ان دونوں کے لحاظ سے وہ ہلاکت کے منہ میں چلاجائے گا تو ایسے شخص کے لیے نکاح لازمی ہے۔
عام حالات کا معاملہ اس سے مختلف ہے، جیسا کہ اوپر اس کا ذکر آچکا ہے ۔ چنانچہ آگے ہے :
وان لم یخش شیئاً وکانت الحال مطلقۃ فقال الشافعی النکاح مباح وقال ابوحنیفۃ و مالک ہو مستحب 17؂

اور اگر اس کو کسی بات کا اندیشہ ہو ا ور حالت برابرہوتو ا مام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ نکاح کرنا جائز ہے ۔ اور امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالکؒ کافرمانا ہے کہ وہ مستحب ہے ۔
علامہ ابن رشد قرطبی ما لکیؒ (م 595ھ) کے یہاں اس کی مزید تفصیل ہے ۔ جہاں اس سلسلے میں مالکی مسلک کو بھی مزید کھول دیاگیاہے ۔
فاماحکم النکاح فقال قوم :ہو مندوب الیہ ، وہم الجمہور، وقال اہل الظاہر: ہو واجب، وقالت المتأخرۃ من المالکیۃ: ہو فی حق بعض الناس واجب ، وفی حق بعضہم مندوب الیہ، وفی حق بعضہم مباح، وذٰلک بحسب مایخاف علی نفسہ العنت 18؂

جہاں تک نکاح کے حکم کاسوال ہے تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پسندیدہ ہے ۔ یہ جمہور کی رائے ہے ۔ البتہ اہل ظ اہر کا کہنا ہے کہ یہ و اجب ہے ۔ متأخرین مالکیہ کا کہنا ہے کہ یہ کچھ لوگوں کے حق میں واجب ہے اور کچھ کے حق میں پسندیدہ ہے ۔ جب کہ بعض کے حق میں یہ صرف جائز ہے ۔ اس کا دارو مدار اس پر ہے کہ تنگی اور گناہ میں پڑنے کا کس کو کس درجہ میں اندیشہ ہے ۔
حضرات حنابلہ کی رائے اس مسئلہ میں اس سے مختلف نہیں ہے ۔ عام حالات میں بلا شبہ ان کے یہاں نکاح واجب نہیں ہے ، لیکن اگر آدمی کے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ قوی ہوتو اس کے لیے ایسا کرنا و اجب ہے ۔ فقہ حنبلی کے معتبر ترجمان علامہ ابن قدامہ حنبلی (م 620ھ) فرماتے ہیں :
واختلف اصحابتا فی و جوبہ فالمشہور فی المذہب انہ لیس بواجب الا ان یخاف احد علیٰ نفسہ الوقوع فی محذور بترکہ فیلزمہ اعفاف نفسہ 19؂

ہمارے اصحاب کا اس کے وجوب کے سلسلے میں اختلاف ہے ۔ مذہب حنبلی کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ واجب نہیں ہے ۔ الا یہ کہ کسی شخص کو اس کا اندیشہ ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں وہ گناہ میں پڑجائے گا تو ایسے شخص کے لیے اپنی پاک بازی کا انتظام کرنا لازمی ہوگا۔
آگے اس کی مزید تفصیل ہے ۔ نکاح کے معاملے میں لوگوں کو مختلف قسموں میں تقسیم کیاگیاہے ۔ اس میں پہلی قسم انہی لوگوں کی ہے جن کے لیے نکاح و اجب ہے :
منہم من یخاف علی نفسہ الوقوع فی المحظور ان ترک النکاح، فہٰذا یجب علیہ النکاح فی قول عامۃ الفقہاء، لانہ یلزمہ اعفاف نفسہ وصونہا عن الحرام وطریقہ النکاح . 20؂

ایک شخص وہ ہے جسے اندیشہ ہوکہ اگر وہ بغیر نکاح کے رہے تو گناہ میں پڑجائے گا تو ایسے شخص کے لیے عامۂ فقہاء کے نزدیک نکاح کرنا واجب ہے، اس لیے کہ اس کے لیے اپنی پاک بازی کا انتظام کرنا اور اس کو حرام کاری سے بچانالازمی ہے ۔ اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ اپنے کو نکاح کے بندھن میں باندھ لے ۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک نکاح مندوب و مستحسن ہے ، جیسا کہ اوپر اس کا ذکر آیا ہے ، لیکن اگر آدمی کی طبیعت پرجنسی خواہش کا سخت غلبہ ہو تو حضرات حنفیہ کے یہاں بھی ایسی صورت میں نکاح واجب ہے ۔ اور اگر اس کے بغیر زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو اس سے آگے آدمی کے اوپر نکاح فرض ہوجاتاہے ۔ فقہ حنفی کے مشہور متن در مختار میں ہے :
ویکون واجبا عند التوقان فان تیقن الزنا الابہ ففرض 21 ؂

آدمی کے اوپر جنسی خو اہش کا غلبہ ہو تو اس کے لیے نکاح کرنا واجب ہے ۔ لیکن (اس سے آگے) بغیر نکاح کے رہنے پر اس کو زناکاری میں پڑنے کا یقین ہوجائے تو ایسی حالت میں اس کے لیے نکاح کرنا فرض ہے ۔
اس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین شامی کا کہنا ہے :
ان بان کان لایمکنہ الاحتراز عن الزنا الا بہ لان مالا یتوصل الی ترک الحرام الا بہ یکون فرضا . 22؂

یعنی کہ نکاح کے بغیر اس کو اپنے آپ کو زنا کاری سے بچانا کسی صورت ممکن نہ ہو، اس لیے کہ جس چیز کو اختیار کیے بغیر حرام کو چھوڑناممکن نہ ہو تو وہ چیز فرض ہوجاتی ہے۔
حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک نکاح کے مقابلہ میں عبادت میں مشغول ہونا افضلہے 23؂ ۔ اور اسی لیے حضرات شوافع کے یہاں نکاح اور ترک نکاح دونوں کی یکساں طور پر گنجائش ہے ۔ جیسا کہ اس کی آفات اور اس کے فوائد کے حوالہ سے ان کے سب سے بڑے ترجمان امام غزالیؒ کے یہاں اس کی تفصیل ہے 24؂ ۔ ان کے نزدیک بھی اگر آدمی جوان ہو اور اس کو اپنی جنسی تسکین کی ضرورت ہو تو ایسی صورت میں اس کے لیے نکاح افضل ہے :
فان انتفت فی حقہ الآفات واجتمعت الفوائد بان کان لہ مال حلال وخلق حسن وجد فی الدین تام لایشغلہ النکاح عن اللّٰہ وہو مع ذٰلک شاب محتاج الی تسکین الشہوۃ ومنفرد یحتاج الی تدبیرالمنزل و التحصن بالعشیرۃ فلا یماری ان النکاح افضل لہ ۔ 25؂

اگر آدمی کو تمام طرح کی آفتوں سے نجات ہو اور تمام طرح کے فائدے اس کو حاصل ہوں،چنانچہ اس کے پاس حلال مال ہو ، اچھا اخلاق ہو اور دین کے معاملے میں وہ اپنی تمام تر قوت کو جھونک رہاہو، اسی طرح نکاح کی وجہ سے اس کو اللہ تعالیٰ سے غفلت نہ ہو ۔ اس کے ساتھ ہی وہ جو ان ہو اور اس کو اپنی جنسی خواہش کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہو ۔ نیز وہ اکیلا ہو اور اس کو گھر چلانے کے لیے مددگار اور خا ندان کی حمایت اور تائید کی ضرورت ہو تو کوئی شک نہیں کہ ایسے شخص کے لیے نکاح کرلینا افضل ہے ۔
آگے وہ اسی نکتے کی تشریح میں مزید فرماتے ہیں:
وامااذا انضاف الی امرالولد حاجۃ کسر الشہوۃ لتوقان النفس الی النکاح نظر فان لم یقولجام التقویٰ فی رأسہ وخاف علی نفسہ الزنا فالنکاح لہ اولی. 26؂

اولاد کی طلب کے علاوہ اگر نکاح کی ضرورت میں یہ چیز بھی شامل ہوجائے کہ جنسی خواہش کو کم کیا جاسکے اور اس کے غلبہ کو توڑا جاسکے تو آدمی ٹھہرے اور دیکھے ۔ اب اگر تقویٰ کی لگام اس کے دماغ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور اس کو ز نا کاری میں پڑجانے کا اندیشہ لاحق ہو جائے تو ایسے شخص کے لیے نکاح کرلینا بہترہے ۔
یہاں تک کہ اس کی ضرورت سے آدمی اگرآزاد عورت سے شادی نہ کرسکے تو اسے باندی سے رشتہ کرلینا چاہئیے ۔ اس صورت میں اگرچہ ماں کی جہت سے اس کی اولاد غلام ہو گی اور یہ ایک بڑا نقصان ہوگا، لیکن امام کہتے ہیں کہ دین کو غارت کرنے کے مقابلے میں بچے کے نقصان کو برداشت کرلینا کہیں بہتر ہے :
ولا جل فراغ القلب ابیح نکاح الامۃ عند خوف العنت مع ان فیہ ارقاق الولد وہو نوع اہلاک وہو محرم علی کل من قدر علی حرۃ ولکن ارقاق الولد اہون من اہلاک الدین ولیس فیہ الا تنغیص الحیاۃ علی الولد مدۃ وفی اقتحام الفاحشۃ تفویت الحیاۃ الاخرویۃ التی تستحقر الاعمار الطویلۃ بالا ضافۃ الی یوم من ایامہا. 27؂

جب کہ آدمی کو تنگی اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو دل کو فارغ اور مطمئن کرنے کے مقصد سے ہی باندی سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے حالاں کہ اس کی وجہ سے ہونے والی اولاد غلام ہوگی جو ایک طرح کی تباہی اور ہلاکت کی بات ہے ۔ چنانچہ یہ ہر اس شخص کے حق میں حرام ہے جس کو آزاد عورت سے شادی کرنے کی قدرت ہو ۔ لیکن اولاد کا غلام ہوجانا دین کے تباہ ہونے سے زیادہ ہلکا ہے۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے تو صرف اولاد کی دنیوی زندگی کرکری ہوتی ہے جب کہ بدکاری میں پڑنے سے آ دمی کی آخرت کی زندگی غارت ہوجاتی ہے ۔ دریں حالیکہ اس کے ایک دن کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کی طویل مدت بھی بالکل بے وقعت اور بے حقیقت ہے ۔
اس تفصیل سے وا ضح ہے کہ ضرورت کا تقاضا ہو تو کسی مسلمان کے لیے شادی کوٹالنا درست نہیں ہے ۔ اور اس سلسلے میں لڑکے لڑکی کے باپ، بھائی اور پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے غیر شادی شدہ لوگوں کے سلسلے میں فکر مند اوربے چین ہوں ۔ لڑکی کی شادی باپ کی قانونی ذمہ داری اور لڑکے کی شادی اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ لیکن فکر مندی اور معاونت ہر ایک کے سلسلے میں اس کی طرف سے یکساں ضروری ہے ۔ اسی طرح اوپر کی بحث میں صرف مردوں کا ذکر گفتگو کے عام معروف اسلوب کے مطابق ہے ۔ ورنہ مرد کی طرح عورت کو بھی اس کی ایسی ہی احتیاج ہوتو بے جا حیاء کا شکار ہوکر اس کو بھی اپنے کوگناہ کے خطرے میں نہیں ڈالنا چاہئے ۔ آج کے جنسی بحران اور انارکی کے دور میں گناہ سے بچنے اور قلب و نظر کی پاکیزگی کو یقینی بنانے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی وقت پر جلد شادی ہوجائے ۔ اسی طرح معاشرے میں کوئی مرد و عورت ضرورت مند ہوتے ہوئے نکاح سے محروم نہ رہے ۔

مانع فقر کا ازالہ 
آیتِ کریمہ کے اگلے ٹکڑے میں اس سلسلے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو دورکیاگیاہے ۔ شادی انسان کی فطری ضرورت ہے ۔ اور ہر لڑکے اور لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وقت پر اس کی جلد شادی ہو ۔ اسی طرح طلاق یا شوہر اور بیوی کی وفات کی صورت میں عام طورپر کوئی مردوعورت بغیر شادی کے نہیں رہنا چاہتا۔ اکثر و بیش تر محتاجی اور غریبی اس کی راہ میں ما نع آتی ہے ۔ اس کی وجہ سے خواہش اور ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی آدمی اس کو ٹالنے کی کوشش کرتاہے ۔ اسلام میں چوں کہ اصولی طور پر کمانے اور گھر چلانے کی ذمہ داری طبقۂ نسواں پر نہیں ہے ۔ اس کی تمام تر ذمہ داری مردوں پر ہے۔ شادی سے پہلے لڑکی کا نفقہ اس کے باپ پر ہوتاہے جو شادی کے بعد اس کے شوہر کی طرف منتقل ہوجاتاہے ۔ اس لیے غریبی اور محتاجی کی وجہ سے شادی کو ٹالنے اور موخر کرنے کا معاملہ اصلاً لڑکے اور مرد سے ہی متعلق ہوتاہے ۔ اس لیے زیر نظر ٹکڑے میں اس کے سلسلے میں انہی سے خطاب کیاگیاہے ۔ اس میں ان کو اطمینان دلایاگیاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کشادہ دستی اور اس کی خبرگیری پر بھروسہ اور اطمینان رکھیں کہ اگر شا دی کے معاملے میں ان کی نیت درست اور ان کے عزائم صالح ہوئے تو غیب سے اللہ تعالیٰ کی مددآئے گی ۔ اور شادی ان کے لیے مسائل پیدا کرنے کے بجائے اس کے حل کا ذریعہ ثابت ہوگی ۔ شادی کی برکت سے ان کی غریبی اور محتاجی دور ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ان کی آمدنی میں معقول اضافہ ہوگا۔ کسی سچے مسلمان کے لیے ضرورت کے تقاضے سے وقت پر شادی کرنے کا اس سے بڑھ کر دوسرا محرک اور کیا ہوسکتاہے :
اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖطوَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ . (نور :32)

اگر وہ محتاج ہوئے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے مال دار کردے گا اور اللہ بڑی کشادگی والا ، علم والا ہے ۔
زیرِ نظر ٹکڑے کے سلسلے میں کہاگیاہے کہ یہ صرف آزاد مردوں اور عورتوں سے متعلق ہے ۔ غلام مردوں اور باندیوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے 28؂ ۔ لیکن اس تخصیص کے لیے کوئی خاص بنیادنہیں ہے ۔ خاص طور پر اس صورت میں جب کہ آگے کے حصے :
یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط اللہ ان کو اپنے فضل سے مالدار کردے گا۔
کی تفسیر دونوں ہی طریقوں سے کی گئی ہے ۔ یعنی کہ اللہ تعالیٰ اس شادی کی بدولت اور اس کی وجہ سے ان کو مال دار کردے گا، یا یہ کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو دولت اور ما ل داری حاصل ہوجائے گی29؂ ۔ شادی کی بدولت جو مال داری کسی آزاد مسلمان مردکو حاصل ہوسکتی ہے وہی ما ل داری غلام مسلمان مرد کو بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ خاص طورپر اس صورت میں جب کہ اس کی شادی کسی مال دار آزاد عورت سے ہوجائے، جب کہ شریعت میں اس کی پوری گنجائش موجود ہے ۔ اس لیے ہمارے نزدیک شادی کا یہ حکم آزاد مسلمان مردوں اور غلام مسلمان مردوں دونوں سے متعلق ہے ۔ اور جس طرح آزاد مردوں کے سلسلے میں ان کے اولیاء کو ان کی غربت اور کم آمدنی کی وجہ سے بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی و جہ سے وہ اس کو لگاتار اور مسلسل ٹالتے رہیں ۔ مسلمان غلام مردوں کے مالکوں اور آقاؤں سے بھی یہ حکم اسی طرح سے متعلق ہوسکتاہے کہ کسی غلام کی کمائی اورآمدنی کے کم ہونے کی صورت میں ضرورت کے باوجود غریبی کے ڈر سے وہ اس کی شادی کو دیر تک ٹالے رہنے کا گناہ ا پنے سر نہ لیں۔ استفصیل سے آج کے حالات میں آیتِ کریمہ کا پیغام بالکل واضح ہے کہ سماج کے ہر طبقے: امیر، غریب، پس ما ندے پچھڑے ، بے اثر، با اثر، کسی بھی طبقے کے ضرورت مند مرد و عورت کی شادی و قت پر ہوجانی چاہئے اور غریبی کے ڈر سے اس کو لگاتار اور مسلسل ٹالنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ جب زمانۂ نزولِ قرآن کے وقت کے سماج کے سب سے کم زور طبقے غلاموں کے معاملے میں اس تاخیر کو گوارا نہیں کیا گیا تو آج آزادی کی دولت سے مالامال انسانی جماعت کے لیے اس میں دیر اور تاخیر کے لیے کیا و جہ جواز ہوسکتاہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے اللہ کے آخری رسول ﷺ کی اس حدیث کو آیت کریمہ کی شرح کہا جاسکتاہے :
ثلاثۃ حق علی اللّٰہ عونہم: المجاہد فی سبیل اللّٰہ والمکاتب الذی یرید الاداء والناکح الذی یریدالعفاف. 31؂

تین طرح کے لوگ ہیں جن کی مدد کرنے کو اللہ نے اپنے ا وپرفرض کرلیا ہے: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، مکاتب30؂ غلام جو اپنے اوپر واجب رقم کو اداکرنے کاخواہش مند ہو او رنکاح کا خواہش مند جو اس کے ذریعہ اپنی پاک بازی کا انتظام کرنا چاہتاہو ۔
اسی سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے مشہور صحابی رسولﷺ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا کہناہے کہ:
عجبت لمن لایرغب فی الباء ۃ واللّٰہ یقول : اِنْ یَّکُوْنُوا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۔ 32؂

مجھ کو اس شخص پر تعجب ہوتاہے جو شادی میں دل چسپی نہیں رکھتا، دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:ایسے لوگ اگر محتاج ہوئے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے مال دار کردے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی اوپر کی حدیث کے حوالہ سے، جس کی روایت جا مع ترمذی ، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں ہے، فقہ میں کہا گیا ہے کہ اس کے لیے ضرورت کے تقاضے سے اگر قرض بھی لینا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسراف اور فضول خرچی اور بے اعتدالیوں سے بچتے ہوئے شادی کے لیے قرض لینا جائز ہی نہیں، بلکہ مندوب ومستحسن ہے :
ویندب… الاستدانۃلہ 33؂ اور شادی کے لیے …. قرض لینا مستحب ہے۔
اسی طرح لڑکیوں کے سلسلے میں اس کے معاون اسباب کو اختیار کرنے کو سنت کہاگیاہے جس سے کہ ان کی جلد شادی کی سبیل پیداہوسکے:
…. وتحلیۃ البنات بالحلی والحلل لیرغب فیہن الرجال سنۃ 34؂

.. اسی طرح یہ سنت ہے کہ لڑکیوں کو زیور اور اچھے کپڑوں سے آ راستہ رکھا جائے، تاکہ مردوں کی ان سے دل چسپی پیداہو۔
آج کے حالات میں بحمد اللہ معاشرے میں عام طور پر مالی فراوانی سے لڑکیاں اچھے لباس اور اچھے منظر (Look)کے ساتھ ہی رہتی ہیں ۔ لیکن جہاں اس کی کمی ہو فقہ کے اس جزئیہ کے حوالہ سے اس کی طرف توجہ کی جاسکتی ہے ۔ اس کا اصل تقاضا مزید واضح ہے کہ صرف لڑکیوں کی تزئین وآرائش ہی پر اکتفا نہ کیاجائے، بلکہ ساتھ ہی ان کی جلد اور بروقت شا دی کا اہتمام کیاجائے۔ جب کہ آج عام طور پر حالت یہ ہے کہ لڑکیوں کے بناؤ سنگار اور ان کے ا چھے کپڑے اور میک اپ پر تو والدین کی بہت توجہ رہتی ہے ، لیکن مختلف بہانوں سے ان کی شادی کا معاملہ ٹلتارہتاہے اور اس میں دیر پر دیر ہوتی رہتی ہے ۔

استعفاف کی تلقین 
اگلی آیتِ کریمہ میں مسلمان مردوں کو شادی نہ ہونے کی صورت میں اپنے جنسی جذبات پر قابو رکھنے کا حکم ہے :
وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لاَیَجِدُوْنَ نِکَاحاً حَتّٰی یُغْنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط
(نور:33)

جولوگ نکاح نہ کرسکیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے جنسی جذبات پرقابورکھیں،یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے مال دار کردے (جس کے بعد ان کے لیے نکاح کرنا آسان ہوجائے )۔
اس آیتِ کریمہ میں خطاب مردوں سے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ حکم صرف انہی کے لیے ہے ، عورتوں سے ا س کا تعلق نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے ۔ خطاب کامردوں کے ساتھ خاص ہونا تین وجہوں سے ہے: پہلی وجہ یہ ہے کہ مالی دشواری سے شادی میں تاخیر شریعت کے لحاظ سے صرف مردوں کا مسئلہ ہے، جو اصولی اور قانونی طور پر اپنی شادی خود کرنے کا ذمہ دارہے ۔ اس کے برخلاف لڑکی کی شا دی، چاہے وہ پہلی ہو یا دوسری یا تیسری، یہ اس کے اولیاء یعنی درجہ بدرجہ باپ، دادا، بھائی ، چچا وغیرہ کی ذمہ داری ہے ۔ چنانچہ اس کے مصارف کی فراہمی کی ذمہ داری بھی انہی کی ہے ۔ لڑکی کو اس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری و جہ دنیا کے تمام تر معروف اور صحت مند ادب کی طرح قرآن کا معروف اسلوب بھی یہی ہے کہ اکثرو بیش تر بات طبقۂ ذکور کے حوالے سے کہی جاتی ہے۔ دستورِ ہندمیں جو کچھ مذکر صیغے سے کہا گیا ہے وہ صرف مردوں کے لیے نہیں ہے، عورتیں بھی اس میں اسی طرح شامل ہیں۔ ضرورت کے خاص تقاضے سے ہی عورتوں کاالگ ذکرکیا گیاہے، جسے ایک طرح سے کتاب اللہ کے طرزِبیان کی پیروی کہاجاسکتاہے ۔ اس کی تیسری وجہ حیا اور عورت کی پردہ داری ہے ۔ کتاب اللہ کو گوارا نہیں ہے کہ کنواری لڑکی اور بن بیاہی عورت کے جنسی جذبات کا سرِ عام تذکرہ کرے ۔ لیکن کسی وجہ سے اگرلڑکی اور عورت کا ولی وقت پر اس کی شادی نہ کرسکے اور معقول عذر سے اس میں کسی قدر دیر ہو تو آیتِ کریمہ کی روح اور اس کے جوہر کا تقاضاہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی شادی کی تاخیر کی صورت میں اپنے جنسی جذبات پرقابو رکھنا چاہئے ۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان معاشرے کو شادی کے معاملے میں روایت شکن ہونا چاہئے ۔ وقت کے غلط رسم ورواج اور اسر اف اور فضول خرچی کی برائیوں سے بچتے اور حقیقی ضروریات زندگی کو محدود سے محدود تر کرتے ہوئے اسے اپنے یہاں شادی کو آسان سے آسان ترکرناچاہئے ۔ لیکن اس کے باوجود ایسی بہت سی مجبوریاں ، دشواریاں اور رکاوٹیں سامنے آتی ہیں کہ خواہش اورکوشش کے باوجود لڑکے اور لڑکی کی شادی میں دیر اور تاخیر کرنی پڑتی ہے ۔ مالی دشواریاں نہ بھی ہوں تو مناسب رشتہ نہیں ملتا۔ آج کے حالات میں لڑکے لڑکیوں کی تعلیم ، ملازمت اوران کے جمنے (Establish) ہونے کے مسائل بھی کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اس کے پیش نظر اگر آیتِ کریمہ میں مالی دشواریوں سے شادی میں تاخیر کی صورت میں طبقۂ ذکور کو اپنے جنسی جذبات پرقابو رکھنے کا حکم ہے ، تواس کے مفہوم میں بلاشبہ لڑکیاں اور عورتیں بھی شامل ہوں گی ۔ اس سے ان کے استثناء کی کوئی و جہ نہیں ہے ۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اس طرح کی صورت میں مسلمان نوجوانوں کو جو تدبیر بتائی ہے اس کا بھی یہی حکم ہے اور اسے ایک طرح سے زیرِنظر آیتِ کریمہ کی تشریح کہا جاسکتاہے :
یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء. 35؂

اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو کوئی شادی کی طاقت اور استطاعت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ شادی کرلے۔ اور جس کو اس کی استطاعت نہ ہو اس کو چاہئے کہ (نفلی) روزے رکھے ۔اس سے اس کو اپنے جنسی جذبے پر قابو رکھنے میں مددملے گی۔
اس حدیث میں شادی میں تاخیرپر نوجوانوں کو اپنے جنسی جذبات کو دبانے کے لیے نفل روزوں کے جس نسخۂ کیمیا کا ذکرہے، پیش نظر مقصد سے اس کی افادیت میں کلام نہیں ہوسکتا۔ آج کے بدلے ہوئے حالات میں اس پر عمل درآمد میں دشواری ہو تو غذا کی تقلیل اور سادہ خوراک کے اہتمام سے اپنے لیے اس کا بدل فراہم کرنا چاہئے ۔ ان شاء اللہ نیت کی برکت سے اس کا بھی ایسا ہی اثر ہوگا اور بارگاہ رب العزت میں اس کے اجر کی بھی ایسی ہی امید کی جاسکتی ہے ۔ جس طرح پچھلی آیتِ کریمہ (نور۔32)میں بغیر شادی کے آزاد مردوں اور عورتوں کی طرح بغیر نکاح کے غلام مردوں اور عورتوں کی شادی کا ایک ساتھ حکم ہے ۔ اسی طرح زیرِ نظر آیت کریمہ میں ’استعفاف‘ جنسی جذبات پرقابورکھنے کے حکم میں مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں کوشامل ہونا چاہئے۔ آیتِ کریمہ کے اگلے ٹکڑے میں اُس زمانہ کے لحاظ سے غلاموں کی ایک خاص قسم (مکاتب) غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم ہے ۔ اس سے مراد وہ غلام ہیں جو ایک متعین رقم کی ادائیگی پر معاہدے کے مطابق آقاکی غلامی سے آزاد ہوجاتے تھے ۔ اس کے لیے ان کے مالکوں کو اپنی طرف سے مالی مدد دینے کی ترغیب ہے ۔ جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس مقصد سے طے شدہ رقم میں آقا کی طرف سے تخفیف کردی جائے 36؂ ۔ شریعت میں زکوٰۃ کی مدّات میں ایک غلاموں کو آزاد کرنے کی ہے:
وَفِی الرِّقَابِ (توبہ : 60)

اور زکوٰۃ گردنیں چھڑانے میں صرف کی جائیں ۔
اس کی معروف تفسیر انہی مکاتب غلاموں سے کی گئی ہے 37؂ ۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ آقا اس مقصد سے اپنی زکوٰۃ کی رقم سے بھی اس کی مدد کرسکتاہے ۔ دوسرا ایسا ہی حکم باندیوں سے زبردستی پیشہ کرانے کی ممانعت کا ہے، جس کا اس زمانہ میں رواج تھا ۔ چنانچہ اس کے سلسلے میں تفسیر میں بعض لوگوں کے ناموں کی بھی صراحت ہے 38؂۔ اس پس منظر میں پہلے حکم کی زیر نظر سلسلے سے یہ مناسبت ہے کہ مکاتب غلام آزاد ہوکر اپنی شادی کے معاملے میں خود مختارہوجائے اور باندیوں سے پیشہ کرانے کے بجائے ان کو شادی کے بندھن میں باندھا جائے، جیسا کہ اوپر کی آیت کریمہ (نور:32) میں اس کا حکم ہے۔ آج کے حالات میں آیت کریمہ کا منشا ومراد واضح ہے کہ شادی کی تاخیر کی صورت میں جنسی جذبات پرقابو رکھنے ’استعفاف‘ کی تلقین کے ساتھ ان اسباب اور رکاوٹوں کا ازالہ بھی ضروری ہے جن کی و جہ سے آدمی کے لیے پاک باز زندگی گزارنی مشکل ہوتی ہے ۔ آج کے زمانہ میں کہنے کے لیے رسمی غلامی نہ ہوتے ہوئے بھی سماج میں طبقاتی تقسیم بہت گہری ہے۔ مختلف اسباب سے جب پڑھے لکھے اور خوش حال گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کی شادی کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو غریبوں او رکم زوروں کی اس سلسلے میں دشواریوں کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتاہے۔

حواشی و مراجع
1؂ لڑکے اور لڑکی کے نکاح میں عام طور پر ’اولیاء‘ کے دخل کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ہماری
کتاب ’اسلام کا نظریۂ جنس ‘کی بحث ’اولیاء کی تفصیل ‘ مطبوعہ ادارہ علم و ادب، علی گڑھ ۔
2؂ احکام القرآن للجصاص : 3/394، مطبعہ بہیہ ، مصر 1347ھ، باہتمام : عبدالرحمن محمدعبیدان،
الجامع الازہر۔
3؂ حوالہ سابق
4؂ الکشاف للزمخشری :3 /63، مصطفی البابی الحلبی واولادہ، مصر 1972ء/ 1392ھ، طبعہ اخیرہ ۔
تحقیق روایات : محمدالصادق القمحاوی ۔
5؂ ا حکام القرآن للجصاص : 3/394۔395، محولہ بالا ۔ ابو عبد اللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی.
(م671ھ) : الجامع لاحکام القرآن :12/239۔240، مرکز تحقیق التراث ، مطابع الہئیۃ المصریہ العامۃ للکتاب 1987ء۔
6؂ القرطبی : الجامع لاحکام القرآن : 12/239۔240، محولہ بالا ۔
7؂ الجامع لاحکام القر آن : 12/240، محولہ صدر۔
8؂ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ہماری کتاب’کم سنی کی شادی اور اسلام ‘ مطبوعہ مرکزی مکتبہ
اسلامی دہلی۔
9؂ الکشاف عن حقائق التنزیل :3/63۔64، طبع مذکور
10؂ موضح القرآن /586، طبع قدیم تاج کمپنی لاہور ، کراچی ۔
11؂ صاحب جلالین نے زیر نظر آیت کریمہ میں ’صالحین‘ کی تفسیر ’مؤمنین ‘ سے کی ہے :
(والصالحین) المؤمنین ۔ تفسیر الجلالین / 463، دارالمعرفۃ ، بیروت ، اس سے بحمداللہ ہماری رائے کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔
12؂ اپنی باندی کی شادی کردینے کے بعد آقا اس سے مباشرت اور مجامعت نہیں کرسکتا ۔ البتہ
اس سے اپنی دوسری خدمت حسب معمول لیتا رہے گا ۔ غلاموں اور باندیوں کی شادی سے متعلق دیگر احکام و مسائل کے لیے کتب فقہ سے مراجعت کی جاسکتی ہے ۔ اس وقت دنیا میں چوں کہ رسمی غلامی موقوف ہے اس لیے سردست اس کی چنداں تفصیل کی ضرورت نہیں ہے ۔
13؂ کان یجمع غلمانہ لما ادرکوا عکرمۃ و کریبا وغیرہما ویقول ان اردتم
النکاح انکحتکم فان العبد اذا زنی نزع الایمان من قلبہ ۔ابو حامد الغزالی (م 505ھ) احیاء علوم الدین : 2/15، مطبعہ عامرہ شرفیہ ، مصر 1326ھ وبہامثہ: عوارف المعارف للامام السہروردی۔
14 ؂ الجصاص : احکام القرآن : 3/ 395۔
15؂ قاضی ابو بکر محمد بن عبد اللہ المعروف بابن العربی الاندلسی المالکی (م 542ھ) ا حکام القرآن :
2/104، مکتبہ السعادہ ، مصر 1331ھ، طبعہ اولیٰ ۔ علامہ قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں قاضی ابن العربی کے اس پورے بیان کو ان کے الفاظ کے ساتھ نقل کرلیاہے : الجامع لاحکام القرآن :12/239، اس کے علاوہ قاضی ابن عربیؒ نے اس موقع پرجوکچھ کہا ہے وہ تقریباً پورا کا پورا علامہ قرطبیؒ کے یہاں موجود ہے ۔
16؂ ابن عربی مالکی: احکام القرآن 20/104، محولہ بالا ۔
17؂ ایضاً
18؂ بدایۃ المجتہد :2/2،دارالمعرفۃ ، بیروت ، طبعہ سادسہ 1403ھ / 1983ء
19؂ المغنی لابن قدامہ : 6/446، مکتبۃ الجمہوریہ العربیہ ، مصر ۔
20؂ المغنی لابن قدامہ : 6/446، محولہ بالا ۔
21؂ علاء الدین الحصکفی (م1088ھ): الدر المختار مع رد ا لمحتار : 2/358، درسعادت ، مطبعہ
عثمانیہ ، مصر 1324ھ۔
22؂ ابن عابدین شامی (م 1252ھ) : رد المحتار علی الدرالمختار:2/358 ، محولہ بالا ۔
23؂ مغنی : 6/477۔
24؂ ابو حامد الغزالی (م 505ھ) : احیاء علوم الدین :2/16۔24، مطبعہ عامرہ شرفیہ ، مصر 1326ھ۔
25؂ احیاء علوم الدین :2/23، محولہ صدر۔
26؂ احیاء علوم الدین : 2/24۔
27؂ احیاء علوم الدین :2/20۔
28؂ احکام القرآن للجصاص :3/395، طبع مذکور ، نیز ملاحظہ ہو :تفسیر ا لجلالین /462، محولہ بالا
29؂ ابن عربی مالکی: احکام القرآن :2/105۔ صاحب جلالین نے شا دی کے ذریعہ مال داری
کی رائے کو ترجیح دی ہے :(یغنیہم اللّٰہ ) بالتزوج ۔ تفسیر الجلالین/ 463، طبع مذکور۔
30؂ مکاتب وہ غلام جس کا اپنے مالک سے معاہدہ ہوگیاہو کہ وہ ایک خاص رقم اداکرکے اس کی
غلامی سے آزاد ہوجائے گا۔ اس کا ایک حصہ وہ ادا کردے اور باقی کے لیے اس کو مدد کی ضرورت ہو ۔ قرآن کی روسے ایسے غلام کو ز کوٰۃ کی رقم سے بھی آزاد کرایاجاسکتاہے جسے اس وقت کے لحاظ سے ز کوٰۃ کے معروف آٹھ مصارف کا ایک مصرف قرار دیاگیاہے ۔ وفی الرقاب .(توبہ : 60) آگے اس کی تفصیل ہے ۔
31؂ احکام القرآن للجصاص: 3/394۔ نیز :احکام القرآن لابن العربی :2/105۔
32؂ احکام القرآن لابن العربی: 2/105، ابو بکر جصاص حنفیؒ نے اس کو حضرت عمرؓ کے قول کی
حیثیت سے پیش کیاہے : قال عمر بن الخطابؓ مارأیت مثل من یجلس ایما بعد ہٰذہ الآیہ( وانکحوا الایامیٰ منکم) التمسو الغناء وبالباء ۃ ۔ ا حکام القرآن للجصاص :2/395۔ (حضرت عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اس آیت کریمہ کے بعدبھی بغیر نکاح کے بیٹھارہے گا: (اور تم میں سے جو بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردو )تم شادی کے ذریعہ مال داری حاصل کرو۔
33؂ الدرالمختار مع رد المحتار :2/359۔360۔
34؂ رد المحتار مع الدرالمختار : 2/36۔
35؂ روایت حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بحوالہ: احکام القرآن للجصاص:3/394۔
36؂ تفسیر الجلالین /463۔ دار المعرفۃ ، بیروت ،
37؂ تفسیر الجلالین /250، طبع مذکور
38؂ مشہور منافق عبد اللہ بن ابیّ جو اپنی باندیوں کو مجبور کرکے ان سے پیشہ کراتاتھا۔ تفسیر
الجلالین /463۔

تبصرے بند ہیں۔