اسلام اور مسلمان

مولانا محب اللہ قاسمی

مسلمانوں کو خیر امت کا اعزاز حاصل ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا کوئی ایکشن پلان (عملی منصبہ) نہیں! ہم ہمیشہ ری ایکشن میں ہی رہ جاتے ہیں۔

اس وقت نئی نسل کو ایسے قائد کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو ان میں مقصدیت پیدا کرے، انھیں جینےکا حوصلہ دے اور اسلامی خطوط پر چلتے ہوئے انھیں ان کے آئڈیاز سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کرے۔ ان کی ہر طرح کی تربیت کے لیے انتظام و انصرام کرے۔

یاد رہے جب تک ہم دنیا والوں کو اسلامی خوبیوں سے متعارف نہیں کراتے اور اس کا عملی نمونہ بن کر نہیں دکھاتے تو ہماری کتاب پڑھ کر کتنے لوگ اسلام اور مسلمانوں کو جانیں گے۔ اگر وہ کتابوں سے جانیں بھی تو ہماری زندگی اور اس کے طور طریقے دیکھ کر ہم سے متنفر ہوں گے کیوں کہ ہماری زندگی ہماری اپنی کوتاہیوں کے سبب اسلام کا ترجمان نہیں ہے. ہم وہ راستہ اختیار کرتے ہیں جو اسلامی نہیں۔ ہماری معیشت، معاشرت، سیاست، قیادت میں اسلام کی وہ جھلک نہیں دکھائی دیتی جو صحابہؓ اور ان کی زندگیوں میں تھی۔

اس لیے مسلمانوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی نسل جس کے ہاتھ میں مستقبل کی کمان ہے وہ اپنے علم و کمال میں ایکسلینٹ پیدا کریں اور اپنے طرز زندگی سے یہ بتائیں کہ اسلام سے بہتر کوئی دوسرا نظام حیات نہیں اور مسلمان سے بہتر کوئی انسان نہیں، جس میں ہر ایک کے حقوق متعین ہیں، جن کی ادائیگی کو مسلمان اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے! پھر ہمیں لوگوں کے سامنے یہ قولی شہادت دینے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی کہ اسلام ہی دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ سب کتابوں میں موجود ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ عملی اقدام کی!

اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے اور امت کو اپنے مقصد حیات کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔