قربانی: بندگانی یا سامان شہرت ستانی

تسلیم حفاظ عالی

عید الاضحی کا سنہری موقع جب بھی  آتا ہے ہم حسین خیالات کے براق پر سوار ہوکر منی کی خوبصورت وادیوں کا سفر کرتے ہیں، اور ان آزمائشی لمحات کو یاد کرکے دل و دماغ کو عبرت و موعظت  کے ایمان افروز اسباق مہیا کرتے ہیں جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پیغمبرانہ شان کے ساتھ گزر کر خلوص و للہیت ،سچے جذبۂ اطاعت و فرمانبرداری اور اللہ کی رضاجوئی کی خاطر تصور قربانی کی ایسی اعلی اور شاندار مثال قائم کی تھی کہ خود خالق کائنات،مالک ارض و سموات نے اپنے اس پیغمبر کے پر خلوص جذبۂ انقیاد واذعان کی تحسین و تصدیق فرمائی۔اور اللہ  تعالی کو پدرِ مطیع  کافرزند ارجمند کو رضاے الہی کے حصول کی خاطر قربان کرنے  کاخالص جذبہ اس قدر پسند آیاکہ ان کی جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا،جسے ذبح کیا گیا اور پھر اس سنت ابراہیمی کو قیامت تک قرب الہی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عید الاضحی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا۔

   قربانی کی سنیت و مشروعیت کا پس منظر خلوص و للہیت،انقیاد و اذعان،اطاعت و فرمانبرداری اور صبروشکیبائی کی عظیم الشان مثالوں اور شاندار نمونوں کامرقع ہے۔اللہ اکبر! کیا پر خلوص جذبہ تھا حکم الہی کی تعمیل کاکہ باپ بیٹے دونوں اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے ہمہ تن تیار،باپ اپنے جگرگوشے کو قربان کرنے کے لیے  اور بیٹا قربان ہونے کے لیے  بے قرار۔

قربانی ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات وابتلاءات اور جذبۂ اطاعت و انقیاد کی یاد دلاتی ہے۔قربانی ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ قانون الہی کے سامنے اپنے اختیارات و مرضیات کو قربان کرکے بلا چوں و چرا سر تسلیم خم کردینا ہی اصل عبودیت و بندگی ہے۔قربانی ہمیں اس بات کا سبق سکھاتی ہے کہ اللہ سے حقیقی محبت کرنے والے  دنیاوی لذات اور نفسانی خواہشات پرانکار کی چھری چلانے میں ہمیشہ فرحت وانبساط اور ایمانی حلاوت محسوس کرتے ہیں۔اہل عیال،مال و منال،محبوبات و مرغوبات، جائدادیں، اور سامان عیش و عشرت سے لبریز سکونت گاہیں،ان میں سے کوئی بھی چیز قربانی کے حقیقی تصور کے سامنے اڑچن پیدا کرے تو اللہ سے سچی محبت کا دعویدار کبھی بھی شش و پنج کا شکار نہیں ہوتا ہے۔  وہ اللہ کی محبت کی بقا کی خاطر یہ دولت و ثروت اور آل واولاد تو کیا اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔

   اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ ہے جو محض اخلاص و تقوی اور طہارت قلب کا طالب ہے،قربانی و تقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،جس قربانی میں اخلاص و تقوی کا فقدان ہو وہ قربانی نہیں محض جانور کشی اور  گوشت خوری ہے،اس سے محض گوشت کی لذت سے کام و دہن کی آشنائی ہوتی ہے ، حکم الہی کی تعمیل نہیں۔ اس سے رضاے الہی کا حصول نہیں بلکہ شیطانی قوتوں کا طلبگاران ِسمعت وشہرت کے دل و دماغ میں مزید رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کوذبیح جانور کا گوشت و خون نہیں بلکہ قربانی کرنے والوں کے دلوں کا اخلاص و تقوی پہونچتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا :(لن ينال الله لحومها ولا دماءها ولكن يناله التقوى منكم)

 اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہونچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمھارے  دلوں کی پرہیزگاری پہونچتی ہے (الحج :37)۔

معلوم ہوا کہ قربانی کا بظاہر مطلب اللہ کے حکم کی تعمیل میں جانور ذبح کرنا ہے مگر اس کا بنیادی مقصد اور اصلی روح اخلاص و تقوی کی آبیاری اور ایمان و ایقان کا اِحکام ہے۔اس لیے دیگر عبادات کی طرح قربانی میں بھی اخلاص ِنیت نہایت ہی ضروری ہے۔اللہ تعالی نے قربانی کے اندر اخلاصِ نیت اور طہارت ِقلب کے وجوب کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : (فصل لربك وانحر)

 اپنے رب کے لیے ہی نماز پڑھ اور (اسی کے لیے ) قربانی کر ( الکوثر :2)

دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے : قل إن صلاتي و نسكي و محياي و مماتي لله رب العالمين *لا شريك له وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين( الأنعام 162-163)

 آپ کہ دیجیےکہ بالیقین میری نماز،میری قربانی،میری زندگی،اور میری موت صرف اللہ تعالی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے،مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں(الانعام :162-163)۔

مذکورہ آیتوں سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہی قربانی اللہ تعالی کے یہاں مقبول و مطلوب ہے جس میں اخلاص و تقوی بدرجۂ اتم موجود ہو۔لیکن افسوس صد افسوس کہ آج مسلم معاشرے سے قربانی کا وہ جذبۂ ابراہیمی بالکل عنقا ہو چکا ہے جس کی تحسین و تحبیذ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے قربانی کو  قیامت تک کے لیے مشروع اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔  آج مسلم معاشرے کی صورت حال بڑی نا گفتہ بہ اور تکلیف دہ ہے ،قربانی سنت ابراہیمی کی بجائے دکھلاوے کی چیز اور سامان شہرت ستانی بن کر رہ گئی ہے۔اللہ کی بندگی سے  بےزار اور شیطان کی بردگی سے خوش ہوکرذاتی نمود و نمائش کے لیے ریاکاروں نے قربانی کا فلسفہ ہی بدل ڈالا ہے۔دولت و ثروت کا رعب جمانے کے لیے جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ کرنا،ایک دوسرے کوکمتر ثابت کرنے کےلیے اپنے جانور کی قیمت کی تشہیر کرنا،اخلاص و تقوی کا جنازہ نکال کر ریاکاری و داد طلبی کو قربانی کا مقصد بنانا اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اللہ کی پناہ! مشاہدہ یہ بتلاتا ہے کہ بہت سارے نمود و نمائش کے خواہاں،ریاکاری کےپجاری محلوں اور گلیوں میں اور اب تو واٹس اپ اور فیس بک پر  اپنے جانوروں کی نمائش کرتے پھرتے ہیں اور لطف لیتے ہوئےمتکبرانہ انداز میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں ہم نے اعلی سے اعلی نسل کے اتنے قیمتی جانور خریدے ہیں،ہمارے محلے کو تو چھوڑ دیجیے آس پاس کی دس بیس بستیوں میں کسی نے اس طرح کے جانور کی خریداری نہیں کی ہے۔اور تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ ایسے طلبگارانِ نمود ونمائش کا اسلام کے دیگر شعائر واحکام سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے،حج فرض ہے حج کو نہیں جاتے،زکات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مال ناپاک اور بڑی ڈھٹائی سے اسی ناپاک مال سے قربانی کے جانور کی  خریداری اوپر سے ریاکاری مزید سینہ زوری ،اور نماز تو خیر جمعہ جمعہ اور عیدین کی پڑھ لیتے ہیں اور ان میں سے بعض کو تو اس کی بھی توفیق نہیں،محض دعواے مسلمانی !۔

 الغرض قربانی کی روح اور اس کا اصل فلسفہ اخلاص و تقوی کا حصول ہے،اگر اخلاصِ نیت اور طہارت قلب کے ساتھ قربانی کی جائے تو یقیناً وہ اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے مشرف ہوتی ہے۔ریاکاری  کے جذبے کے ساتھ کی جانے والی قربانی محض گوشت کا جانور ہے اور  کچھ نہیں۔

جذبۂ ریاکاری کے ساتھ کی جانے والی قربانی قیامت کے دن باعث نقصان اور موجب خسران ثابت ہوگی۔اللہ تعالی ایسے ریاکاروں سے کہے گا جاؤ اپنے اعمال کا بدلہ ان لوگوں سے لے لو جن کو خوش کرنے اور جن سے داد طلب کرنے کےلیے  تم نے دنیا میں اعمال کیے تھے۔ ایک حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ علیہ وسلم نے فرمایا : إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر الرياء يقول الله يوم القيامة إذا جزي الناس بأعمالهم اذهبوا إلى الذين كنتم تراؤون في الدنيا فانظروا هل تجدون عندهم جزاء( صحيح الجامع: 1555 – صححه الألباني )

 یقیناً تمھارے تئیں مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ شرک اصغر یعنی ریا ہے،قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائےگا تو اللہ تعالی(ان ریاکاروں سے )فرمائےگا : ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھلانے کے لیے  تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اور دیکھو کیا تمھیں ان کے پاس اپنے اعمال کا بدلہ ملتا ہے ؟ (صحیح الجامع :1555)۔

اللہ تعالی نے دنیا طلبی،ریاکاری اور نمود و نمائش کے جذبے کے ساتھ عمل کرنے والوں کے انجام کوبیان کرتے ہوئے فرمایا :من كان يريد الحياة الدنيا و زينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون *أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار و حبط ما صنعوا فيها و باطل ما كانوا يعملون(هود: 15-16 )

 جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہے ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ )یہیں بھرپور پہونچادیتے ہیں اور یہاں انھیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سواے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انھوں  نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں (ھود :15-16)۔معلوم ہوا کہ  دنیاطلبی اور ریا ونمود کا انجام جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے ۔

ہمیں اس بات کو اچھی طرح اپنے دل ودماغ میں بٹھا لینی چاہیے کہ اللہ تعالی کے یہاں وہی عمل سندِقبولیت حاصل کرتا ہے جو زیور اخلاص سے آراستہ اور زادِتقوی سے مزود ہو۔نمود ونمائش اور شہرت وناموری کے حصول کی غرض سے کیا جانے والا عمل خواہ بظاہر کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اکارت اور برباد ہے اللہ کے یہاں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:   جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أرأيت رجلا غزا يلتمس الأجروالذكر، ماله؟ فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لا شيء له، فأعادها ثلاث مرات، يقول له رسول الله صلي الله عليه وسلم "لا شيء له "ثم قال: إن الله لا يقبل من العمل إلا ما كان له خالصا وابتغي به وجهه(النسائي: 3140- صححه الألباني )

 ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو اللہ سے اجر کا طلبگاراور لوگوں سے مدح و ثنا کاخواستگار بنکر جہاد میں شریک ہوتا ہے( یعنی اللہ سے اجر کی طلب کے ساتھ ساتھ  لوگوں سے مدح وثنا کا بھی خواہاں ہوتا ہے ) اسے کیا ملےگا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ اس نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی اور رسول اللہ ﷺ اس سے یہی فرماتے رہے کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو اور اس سے محض اسی کی رضا مقصود و مطلوب ہو۔ (نسائی :3140 -صححه الألباني  )۔

اس لیے  قربانی جیسی عظیم الشان عبادت کو نمود و نمائش کے جذبات سے پاک کرنا ازحد ضروری ہے تاکہ یہ عبادت اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے مشرف ہو اور ہم اجر ثواب کے مستحق بن سکیں ۔

تبصرے بند ہیں۔