افغانستان : حق آیا اور باطل مٹا، باطل کو تو مٹنا ہی تھا

ڈاکٹر سلیم خان

افغانستان کےحالیہ  سیاسی بحران کی ابتدا امریکہ  کی فوج کشی  سے نہیں ہوئی بلکہ اس فتنہ  کی داغ بیل1978ء کے اندر  سوویت افواج نے وہاں قدم رنجا فرما کر ڈالی تھی۔  1992ء تک افغانی  مجاہدین  ان غاصبین  سے نبرد آزما رہے اور  سوویت یونین کو اس کی تاریخ میں پہلی اور آخری  شکست فاش سے دوچار کیا یہاں تک کہ  ایک سپر پاور کا نام دنیا کے نقشے سے مٹ گیا۔یہ ایک ایسا منفرد معرکہ تھا جو سوویت یونین  کواندر سےکھوکھلا کررہا تھا اور باہر  بھی وہ   کمزور پڑ رہا تھا۔   اس ۱۴ سالہ تصادم میں سوویت یونین کی جانب سے جملہ 6 لاکھ 20 ہزار فوجیوں نے حصہ لیا۔ ایک وقت میں ان کی سب سے زیادہ تعداد1 لاکھ 15 ہزار تھی۔ ان کے شانہ بشانہ سوویت نواز افغانی سرکار کے  بھی65 ہزارفوجی موجود تھے۔ ان کے مقابلے مجاہدین کی تعدادصرف دوتا ڈھائی  لاکھ   تھی۔  اس جنگ میں 56ہزار مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا اور 17,000 زخمی ہوئے۔  اس کے علاوہ 5,775  پاکستانی بھی شہید اور 6,804   زخمی ہوئے تھے۔ سوویت یونین کے جو 26 ہزار فوجی ہلاک ہوئے ان میں 3 ہزار افسر تھے۔ ان کے ساتھ لڑنے والے 18 ہزار افغانی فوجیوں نے بھی جان گنوائی۔ جہاں تک شہری ہلاکتوں کا سوال ہے یہ تعداد5 لاکھ 62 ہزارسے20 لاکھ  کے درمیان بتائی جاتی ہے۔۳۰ لاکھ افغانی زخمی ہوئے اور 50 لاکھ افغانیوں کو ملک سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ ملک کے اندر 20 لاکھ افغانی نقل مکانی کے لیے مجبور کیے گئے۔

اس  زبردست تباہی وبربادی  نے اشتراکی ریچھ کو پوری طرح بے نقاب کردیا  لیکن مجاہدین اسلام کو دل برداشتہ نہیں کرسکی۔ اس وقت افغانی  مجاہدین  کو امریکی حمایت حاصل تھی۔ آگے چل کر  امریکہ اگر افغانستان پر فوج کشی  کی غلطی نہیں کرتا تو آج  افغانیوں  کو اپنا سب سے بڑا دوست پاتا لیکن اپنی حماقت بلکہ شرارت سے اس نے دنیا کی جنگجو ترین  قوم کو اپنا سب سے بڑا دشمن بنالیا۔   سوویت یونین  سے آزادی کے بعد ایک مختصر  عرصہ خانہ جنگی کی نذر ہوا اور پھر قندھار کے عالم دین ملا عمر نے 1994ء میں پچاس طلبہ کے ساتھ  طالبان کو منظم کیا جس نے  آگے چل کر امریکی غرور  کا سر کچل دیا۔ قرآن حکیم کی پیشنگوئی ’’ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘ کا نظارہ ساری دنیا نے کرلیا۔  امریکہ تو خیر افغانستان سے  ہزاروں میل دور ہے اس لیے وہ چلا جائے گا تو اس کی جان چھوٹ جائے گی مگر  اب روس  فکر مند ہوگیا ہے۔ وہ بیچارہ تو افغانستان کا  پڑوسی ہے اور ایسا ہمسایہ کہ جس کو ایک زمانے میں افغانستان سے ذلیل ہوکر نکلنا پڑا تھا۔

 یہ گردشِ زمانہ  کی عجب نیرنگی  ہے کہ کسی زمانے میں   ماسکو کے فوجی ٹینک کابل آیا کرتے تھے اور اب  اسی شہر میں جاکر طالبان کا ایک وفد افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر اپنے کنٹرول کادعویٰ کرتا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ روس کو  طالبان یہ یقین دہانی کرارہے ہیں  کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ ایسا اس لیے  کرنا پڑا کیونکہ چند روز قبل طالبان سے ڈر کر  سینکڑوں امریکہ سے تربیت یافتہ افغان فوجی سرحد عبور کرکے تاجکستان بھاگ  گئے تھے۔ اس وقت  روس اور تاجکستان کو  خدشات لاحق ہوگئے تھے۔ روس نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ افغان تاجک سرحد کے دو تہائی حصے پر طالبان قابض ہو چکے ہیں۔ ویسے طالبان نے روس کو یقین دلایا کہ وہ داعش جیسی تنظیموں کو افغان سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے اور اپنے ملک سے منشیات کی پیداوار کا بھی خاتمہ کر دیں گے۔ سوچنے والی بات یہ ہے امریکی تسلط کے دوران منشیات کی پیداوار کیوں بڑھتی ہے؟ اور اسے ختم کرنے کے لیے طالبان کو میدان میں کیوں آنا پڑتا ہے؟

میدانِ جنگ میں اپنی  طاقت کا لوہا منوانے کے بعد اب طالبان سفارتی دنیا میں اپنی  مہارت کے جوہر  دکھا رہے ہیں۔ افغان حکومت کے ساتھممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور طالبان جلد ہی افغان حکومت کو ایک امن معاہدے کی ایسی تحریری تجویز اور حل پیش کرنے والے ہیں، جو ساری دنیا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔ اس بابت طالبان میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ ان کا  واضح موقف  ہے  چونکہ افغانستان کے انتظامی مراکز پر حملے کرنے کے حوالے سے امریکہ کے  ساتھ  کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے اس لیے مختلف علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنے لیے وہ آزاد ہیں۔ تاہم صوبائی دارالحکومتوں پر طاقت کے ذریعہ  کنٹرول نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح جب یہ قوت  کے مراکز چہار جانب سے گھِر جائیں گے تو ازخود ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے  اور ممکنہ خون خرابہ ٹل جائے گا۔  یہ حکمت عملی وہ لوگ اختیار کررہے ہیں جن کو کل تک اجڈ، جاہل اور دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا موازنہ اگر مغرب و مشرق کی  جمہو ریت نواز حکومت سے کیا جائے جو اپنے ہی عوام پر طاقت بے دریغ استعمال کرتی ہیں تو اسلامی سیاست کا امتیاز اور اس  کی اہمیت و ضرورت  ازخود سمجھ میں آجاتی ہے۔

اسی حکمت عملی کے تحت بیک وقت  دو محاذوں  پر  پیش رفت جاری ہے۔ اس کا کامیاب مظاہرہ ملک کی دو اہم تجارتی  بندرگاہوں کو قبضے میں لے کر کیا گیا ہے۔ ایرانی سرحد کے قریب اسلام قلعہ ملک کی اہم تجارتی بندرگاہ  ہے۔ اس کے قبضے میں آجانے سے طالبان کے معاشی مسائل بڑی حد تک حل ہوجائیں گے  کیونکہ  وہاں سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں یومیہ تقریباﹰ چار ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔ طالبان کی آمد سے وہاں جاری و ساری بدعنوانی پر روک لگے گی  اور اس کے نتیجے میں یہ آمدنی کے اندر خاصہ اضافہ ہوجائے گا ۔ اس کے علاوہ  شمال میں واقع تورغندی پورٹ پر بھی اب طالبان کے قبضے میں آگئی  ہے۔ یہ ترکمانستان کی  سرحد کے قریب ہے۔ تورغندی افغانستان کے لیے اہم ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ ملک میں گیس، ایندھن اور تیل سمیت کئی مصنوعات کا بڑا حصہ اسی راستے سے درآمد کیا جاتا ہے۔ افغانی مصنوعات کو  یورپ سمیت عالمی منڈیوں کی جانب  برآمد کرنے کے لیے  بھییہ تجارتی  بندرگاہکلیدی  اہمیت  کی حامل  ہے۔خاص بات یہ ہے کہ  بغیر کسی مزاحمت کے ان مقامات کا تمام تر انتظام طالبان کے حوالے کر دیا گیاہے۔

امریکہ کے ساتھ افغانی مجاہدین کا آخری اور فیصلہ کن  معرکہ بگرام فوجی اڈے پر ہوا۔ افغان سرزمین پر واقع امریکی قوت و طاقت کی  اس علامت میں افغانی فوجیوں کو  بھی بلا اجازت داخلے کی اجازت نہیں  تھی۔ چشمِ فلک نے یہ حیرت انگیز نظارہ بھی دیکھا کہ  یکم اور دو جولائی  2021کی درمیانی شب میں  نہایت خاموشی کے ساتھ اسے  خالی کر  کے امریکی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے۔ آزادی اور انسانی حقوق کا دم بھرنے والے امریکیوں نے ایک تو گونتے نامو میں بدنام زمانہ قید خانہ بناکر اپنے ماتھے پر کلنک لگایا اور دوسرے بگرام فوجی اڈے کے اندر افغانیوں کو بند کرکے اپنی سفاکیت کا پردہ فاش کیا۔ جارح امریکیوں کے فرار ہوجانے سے وہاں موجود ہزاروں افغانیوں کو  قید خانہ سے رہائی نصیب ہوگئی۔ اس طرح  70 مربع کلومیٹر کے علاقہ پر محیط وہ  آخری قلعہ  بھی فتح ہوگیا  جس کو خودکفیل بنانے کے لیے ہوائی پٹی کے علاوہ  56 میگاواٹ  کا بجلی گھر بھی قائم کیا گیا  تھا۔امریکیوں کو سارا سازو سامان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اس پر طالبان  اور علاقہ کے عوام نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔

بیس سالوں تک  شیر دل افغانیوں پر ظلم و جور  کے پہاڑ توڑنے والوں  رات کے اندھیرے میں اس  طرح  ذلیل و رسوا ہو کر  نکل بھاگنا اس صدی کا عظیم معجزہ ہے ۔ جہادِ افغانستان  کوقرآن حکیم کی  اس آیت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ :’’ ا ِس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ یہ اس وقت کی کیفیت تھی جب ان پر بے دریغ بمباری ہورہی تھی۔ ان کو پتھر کے دور میں بھیجنے کے خواب بُنے جارہے تھے۔  اللہ کی کتاب اس کی بالکل مختلف اور منفرد وجہ یہ بتاتی  ہے۔ فرمایا : ’’   تم پر یہ وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا‘‘۔الحمدللہ سرزمین افغانستان پر یہ بشارت پوری ہوا چاہتی ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال کے کان میں فرشتوں نے شاید یہی خوشخبری سنائی تھی؎

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

 سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

تبصرے بند ہیں۔