اسلام دین رحمت

شعیب اقبال خان

اسلام دینِ رحمت ہے، یہ دین جہاں تمام لوگوں کے لئے رحمت و شفقت کا پیامبر ہے، وہاں یہ دین اپنے ماننے والوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارگی کے پیغام کو کیسے فراموش کر سکتا ہے۔ بہت سی قومیں اگرچہ اسلام کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں لیکن اگر وہ اس دین حنیف کی تعلیمات کا صدق دل سے جائزہ لیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ حالت امن کی بات تو دوری رہی، اسلام نے جنگ کی حالت میں بھی رحمت اور ہمدردی کا دامن نہیں چھوڑا۔ اسی لیے اسلام کے اس بلند اور اعلیٰ اخلاق کی شہادت ان غیر مسلم مؤرخین نے بھی دی ہے جو اس مذہبِ ربانی پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو بڑے واضح انداز میں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح برتاؤ کریں کہ غیروں کو ان کی صفوں میں کوئی شگاف نظر نہ آئے۔ قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے سامنے تواضع اختیار کریں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اور مومنوں کے لیے آپ اپنے کندھے جھکائے رکھیں ۔‘‘ ذیل میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان چند باتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام دین رحمت و مودت ہے۔

(1) جو شخص کسی وجہ کے بغیر زمین پر قتل و فساد برپا کرے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ یہ بات اگرچہ سننے میں بہت عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا اعلان کرنے کی توفیق عصر حاضر کی تہذیبوں سے قبل قرآن کریم کو ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو، یا زمین پر فساد برپا کرنے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی کی جان بچالے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔‘‘

(2) مسلمانوں کے لئے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ اپنی مسجدوں اور بازاروں میں کسی وجہ کے بغیر اسلحہ کی نمائش کریں ، کیونکہ اس سے دوسرے مسلمانوں کو تکلیف اور اذیت پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ حضرات ائمہ بخاری اور مسلم حضرت ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’جو شخص ہماری مسجدوں یا ہمارے بازاروں سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہوں ، (تو اسے چاہئے کہ) وہ (ان تیروں کو لے کر چلنا) بندکر دے، یا ان (تیروں کے کناروں پر لگے ہوئے) لوہے پر ہاتھ رکھ دے تا کہ ان (تیروں ) سے مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔‘‘

(3 )دوسروں کو اذیت اور تکلیف میں مبتلا کرنے والا کبھی چین اور آرام نہیں پا سکتا۔ اسلام کے بیان کیے گئے اسرار میں سے ایک راز یہ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق نہیں ہو سکتا، جب تک وہ لوگوں کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش نہ آئے۔ حضرات أئمہ بخاری اور مسلم حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتے‘‘۔

(4) اسلام نے اپنے بنیادی پانچ ارکان کی ادائیگی میں بھی لوگوں پر رحمت اور شفقت کے پہلو کو نظرانداز نہیں کیا۔ مثال کے طور پر لوگوں کو نماز پڑھانے والے امام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نماز مختصر انداز میں ادا کرے تا کہ اگر اس کے مقتدیوں میں کوئی بوڑھا یا بیمار ہو تو اسے تکلیف نہ ہو۔ حضرات ائمہ بخاری اور مسلم حضرت ابوہریرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’اگر تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے، (تو اسے چاہئے کہ وہ) مختصر انداز میں (نماز ادا کرے)، کیونکہ (مقتدیوں میں ) کمزور، بیمار اور بوڑھے ہوتے ہیں اور اگر وہ اکیلا نماز ادا کرے تو جس قدر چاہے لمبی نماز ادا کرے۔‘‘

(5)مائیں اپنے بچوں کی پرورش کے دوران جس قدر مشقت اور جدوجہد کرتی ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ اور ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے مبعوث کئے گئے پیغمبر کی زندگی میں ہمیں بچوں کی ماؤں پر شفقت کی بے شمار احادیث میں سے ایک ایسی حدیث کا علم ہوتا ہے، جو حقوقِ نسواں کے دعویدار لوگوں کے لئے اپنے اندر ایک درسِ عبرت رکھتی ہے۔ امام بخاریؒ حضرت قتادہؒ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور یہ ارادہ کرتا ہوں کہ لمبی نماز ادا کروں (لیکن اسی دوران) میں (کسی) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں تا کہ اس کی ماں پر (بچے کا رونا)بھاری نہ گزرے۔‘‘

(6 )مسلمان کے اپنے بھائی پر حقوق میں سے چند حقوق یہ ہیں کہ وہ اس پر ظلم نہ کرے، اسے دشمن کے حوالے نہ کرے، اس کی ضروریات پوری کرے اور اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے۔ حضرات ائمہ بخاری اور مسلم حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی (اسے دشمن کے) حوالے کرتا ہے، جو (مسلمان) اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں اور جو (مسلمان) کسی مسلمان سے ایک مصیبت (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے مصائب میں سے اس کی ایک مصیبت دور کرتا ہے، اور جو کوئی مسلمان کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔‘‘

(7)ہر مسلمان کی عزت، مال اور خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، کسی شخص کی برائی کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ امام ترمذیؒ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت، مال اور خون حرام ہے اور کسی شخص کی برائی کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔‘‘

(8)مسلمانوں پر یہ بات واجب قرار دی گئی ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کریں ، مظلوم کی مدد کرنے سے سب واقف ہیں ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ظالم کی مدد کس طرح کی جائے؟ امام بخاریؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐنے فرمایا: ’’اپنے ظالم اور مظلوم دونوں بھائیوں کی مدد کرو۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! اگر میرا بھائی مظلوم ہو، پھر تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن ظالم کی مدد میں کیونکر کروں ؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’(ظالم کو) ظلم کرنے سے منع کرو، یہی(بات) اس کی مدد کرنے کے (مترادف) ہے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔